تیسرا درویش کوٹ باندھ بیٹھا اور اپنی سیر کا بیان اس طرح سے کرنے لگا

احوال اس فقیر کا اے دوستاں سنو
یعنی جو مجھ پہ بیتی ہے وہ داستاں سنو
جو کچھ کہ شاہ عشق نے مجھ سے کیا سلوک
تفصیل دار کرتا ہوں اس کا بیان سنو

یہ کمترین بادشاہ زادہ عجم کا ہے۔ میرے ولی نعمت وہاں بادشاہ تھی اور سوائے میرے کوئی فرزند نہ رکھتے تھے۔ میں جوانی کے عالم میں مصاحبوں کے ساتھ چوپڑ، گنجفہ، شطرنج، تختہ نرو کھیلا کرتا تھا۔ یا سوار ہو کر سیر و شکار میں مشغول رہتا۔

ایک دن کا ماجرا ہے کہ سواری تیار کروا کر اور سب یار آشناؤں کو لے کر میدان کی طرف نکلا۔ باز بہری، جرح، باشا، سرخاب اور تیتروں پر اڑاتا ہوا دور نکل گیا۔ عجب طرح کا ایک قطعہ بہار کا نظر آیا کہ جیدھر نگاہ جاتی تھی، کوسوں تلک سبز اور پھولوں سے لال زمین نظر آتی تھی۔ یہ سماں دیکھ کر گھوڑوں کی باگیں ڈال دیاں، اور قدم قدم سیر کرتے ہوئے چلے جاتے تھے۔ ناگاہ اس صحرا میں دیکھا کہ ایک کالا ہرن اس پر زربفت کا جھول اور بھنوت کلی مرصع کی اور گھونگرو سونے کے زردوزی پٹے میں ٹکے ہوئے گلے میں پڑے، خاطر جمع سے اس میدان میں کہ، جہاں انسان کا دخل نہیں اور پرندہ پر نہیں مارتا، چرتا پھرتا ہے۔ ہمارے گھوڑوں کی سم کی آواز پا کر چوکنا ہوا اور سر اٹھا کر دیکھا اور آہستہ آہستہ چلا۔

مجھے اس کو دیکھنے سے یہ شوق ہوا کہ رفیقوں سے کہا تم یہیں کھڑے رہوں۔ یہ اسے جیتا پکڑوں گا۔ خبردار تم قدم آگے نہ بڑھائیو اور میرے پیچھے نہ آئیو۔ اور گھوڑا میری رانوں تلے ایسا پرند تھا کہ بارہا ہرنوں کے اوپر دوڑا کر ان کی کرچھالوں کو بھلا کر ہاتھوں سے پکڑ لیے تھے، اس کے عقب دوڑایا۔ وہ دیکھ کر چھلانگیں بھرنے لگا اور ہوا ہوا۔ گھوڑا بھی باد سے باتیں کرتا تھا لیکن اس کی گرد کو نہ پہنچا، وہ رہوار بھی پسینے پسینے ہو گیا اور میری بھی جیب مارے پیاس کو کٹخنے لگی پر کچھ بس نہ چلا۔ شام ہونے لگی۔ اور میں کیا جانوں کہاں سے کہاں نکل آیا۔ لاچار ہو کر اسے بھلاوا دیا۔ اور ترکش سے تیر نکال کر اور قربان سے کمان سنبھال کر چلے میں جوڑ کر کشش کان تلک لا کر، ران کواس کی تاک، اللہ اکبر کہہ کر مارا۔ بارے پہلا ہی تیر اس کے پاؤں ترازو ہوا۔ تب لنگڑاتا ہوا پہاڑ کے دامن کی سمت چلا۔ فقیر بھی گھوڑے پر سے اتر پڑا اور پا پیادہ اس کے پیچھے لگا۔ اس نے کوہ کا ارادہ کیا اور میں نے بھی اس کا ساتھ دیا۔ کئی اتار چڑھاؤ کے بعد ایک گنبد نظر آیا۔ جب پاس پہنچا ایک باغیچہ اور ایک چشمہ دیکھا۔ وہ ہرن تو نظر سے چھلاوا ہو گیا۔ میں نہایت تھکا تھا ہاتھ پاؤں دھونے لگا۔

ایک بارگی آواز رونے کی اس برج کے اندر سے میرے کان میں آئی جیسے کوئی کہتا ہے کہ اے بچے! جس نے تجھے تیر مارا، میری آہ کا تیر اس کے کلیجے میں لگیو۔ وہ اپنی جوانی سے پھل نہ پاوے اور خدا اس کو میرا سا دکھیا بنا دے میں یہ سن کر وہاں گیا۔ دیکھا تو ایک بزرگ ریش سفید اچھی پوشاک پہنے ایک مسند پر بیٹھا ہے اور ہرن آگے لیٹا ہے۔ اس کی جانگھ سے تیر کھینچتا ہے اور بددعا دیتا ہے۔

میں نے سلام کیا اور ہاتھ جوڑ کہا۔ کہ حضرت سلامت یہ تقصیر نادانستہ اس غلام سے ہوئی۔ میں یہ نہ جانتا تھا خدا کے واسطے معاف کرو۔ بولا کہ بے زبان کو تو نے ستایا ہے، اگر آن جان تجھ سے یہ حرکت ہوئی، اللہ معاف کرے گا، میں پاس جا بیٹھا، اور تیر نکالنے میں شریک ہوا۔ بڑے طاقت سے تیر کو نکالا اور زخم میں مرہم بھر کر چھوڑ دیا۔ پھر ہاتھ دھو کر اس پیر مرد نے کچھ حاضری جو اس وقت موجود تھی، مجھے کھلائی میں نے کھا پی کر ایک چارپائی پر لنبی تانی۔

ماندگی کے سبب خوب پیٹ بھر کر سویا۔ اس نیند میں آواز نوحہ و زاری کی کان میں آئی۔ آنکھیں مل کر جو دیکھتا ہوں تو اس مکان میں نہ وہ بوڑھا ہے نہ کوئی اور ہے۔ اکیلا میں پلنگ پر لیٹا ہوں اور وہ دالان خالی پڑا ہے، چاروں طرف بھیانک ہو کر دیکھنے لگا۔ ایک کونے میں پردہ پڑا نظر آیا۔ وہاں جا کر اسے اٹھایا۔ دیکھا تو ایک تخت بچھا ہے۔ اور اس پر ایک پری زادی عورت برس چودہ ایک کی، مہتاب کی صورت، اور زلفیں دونوں طرف چھوٹی ہوئیں، ہنستا چہرہ، فرنگی لباس پہنے ہوئے عجب ادا سے دیکھتی ہے اور بیٹھتی ہے اور وہ بزرگ اپنا سر اس کے پاؤں پر دھرے بے اختیار رو رہا ہے، اور ہوش حواس کھو رہا ہے۔ میں اس پیر مرد کا یہ احوال اور اس نازنین کا حسن و جمال دیکھ کر مرجھا گیا اور مردے کی طرح بے جان ہو کر گر پڑا۔ وہ مرد بزرگ میرا یہ حال دیکھ کر شیشہ گلاب کا لے آیا اور مجھ پر چھڑکنے لگا جب میں جیتا اٹھ کر اس معشوق کے مقابل جا کر سلام کیا، اس نے ہر گز نہ ہاتھ اٹھایا اور نہ ہونٹھ ہلایا میں نے کہا اے گل بدن اتنا غرور کرنا اور جواب سلام کا نہ دینا کس مذہب میں درست ہے؟

کم بولنا ادا ہے ہر چند، پر نہ اتنا
مند جائے چشم عاشق تو بھی وہ منہ نہ کھولے

واسطے اس خدا کے جس نے تجھے بنایا ہے کچھ تو منہ سے بول۔ ہم بھی اتفاقا یہاں آ نکلے ہیں۔ مہمان کی خاطر ضرور ہے۔ میں نے بہتیری باتیں بنائیں، لیکن کچھ کام نہ آئیں۔ وہ چپکی بت کی طرح بیٹھی سنا کی۔ تب میں نے بھی آگے بڑھ کر ہاتھ پاؤں پر چلایا۔ جب پاؤں کو چھیڑا تو سخت معلوم ہوا۔ آخر یہ دریافت کیا کہ پتھر سے اس لعل کو تراشا ہے، اور اس آذر نے اس بت کو بنایا ہے۔ تب اس پیر مرد بت پرست سے پوچھا کہ میں نے تیرے ہرن کی ٹانگ میں کھپرا مارا۔ تو نے اس عشق کی ناوک سے میرا کلیجہ چھید کر وار پار کیا۔ تیری دعا قبول ہوئی۔ اب اس کی کیفیت مفصل بیان کر کر یہ طلسم کیوں بنایا ہے۔ اور تو بستی کو چھوڑ کر جنگل پہاڑ کیوں سیتا ہے۔ تجھ پر جو کچھ بیتا ہے مجھ سے کہہ۔

جب اس کا بہت پیچھا لیا تب اس نے جواب دیا کہ اس بات نے مجھے تو خراب کیا، کیا تو بھی سن کر ہلاک ہو چاہتا ہے؟ میں نے کہا لو اب بہت چکر کیا۔ مطلب کی بات کہو۔ نہیں تو مار ڈالوں گا۔ مجھے نہایت در پے دیکھ کر بولا۔ اے جوان حق تعالیٰ ہر ایک انسان کو عشق کی آنچ سے محفوظ رکھے۔ دیکھ تو اس عشق نے کیا کیا آفتیں برپا کی ہیں۔ عشق ہی کے مارے عورت خاوند کے ساتھ ستی ہوتی ہے اور اپنی جان کھوتی ہے۔ اور فرہاد مجنوں کا قصہ سب کو معلوم ہے۔ تو اس کے سننے سے پھل پاوے گا؟ ناحق گھر بار، دولت دنیا چھوڑ کر نکل جاوے گا، میں نے جواب دیا بس اپنی دوستی تہہ کر رکھو، اس وقت مجھے اپنا دشمن سمجھو۔ اگر جان عزیز ہے تو صاف کہو۔ لاچار ہو کر آنسو بھر لایا اور کہنے لگا کہ مجھ خانہ خراب کی یہ حقیقت ہے کہ بندے کا نام نعمان سیاح ہے، میں بڑا سوداگر تھا۔ اس سن میں تجارت کے سبب ہفت اقلیم کی سیر کی اور سب بادشاہوں کی خدمت میں رسائی ہوئی۔ ایک بار یہ خیال جی میں آیا کہ چاروں وانگ ملک تو پھرا، لیکن جزیرہ فرنگ کی طرف نہ گیا اور وہاں کے بادشاہ کو اور رعیت و سپاہ کو نہ دیکھا اور رسم و راہ وہاں کی کچھ نہ دریافت ہوئی۔ ایک دفعہ وہاں بھی چلا چاہیے۔ رفیقوں اور شفیقوں سے صلاح لے کر ارادہ مصمم کیا۔ اور تحفہ ہدایا جہاں تہاں کا جو وہاں کے لائق تھا لیا۔ اور ایک قافلہ سوداگروں کا اکٹھا کر کر جہاز پر سوار ہو کر روانہ ہوا۔ ہوا جو موافق پائی، کئی مہینوں میں اس ملک میں جا داخل ہوا۔ ہر ایک بازار و کوچے میں پختہ سڑکیں بنی ہوئیں اور چھڑکاؤ کیا ہوا۔ صفائی ایسی کہ تنکا کہیں پڑا نظر نہ آیا کوڑے کا تو کیا ذکر ہے۔ اور عمارتیں رنگ برنگ کی، اور رات کو رستوں میں دو رستہ قدم بقدم روشنی۔ اور شہر کے باہر باغات کہ جن میں عجائب گل بوٹے اور میوے نظر آئے کہ شاید سوائے بہشت کے کہیں اور نہ ہوں گے، جو وہاں کی تعریف کروں سو بجا ہے۔

غرض سوداگروں کے آنے کا چرچا ہوا۔ ایک خواجہ سر معتبر سوار ہو کر اور کئی خدمت گار ساتھ لے کر قافلے میں آیا۔ اور بیوپاریوں سے پوچھا کہ تمہارا سردار کونسا ہے؟ سبھوں نے میری طرف اشارت کی۔ وہ محلی میرے مکان میں آیا۔ میں تعظیم بجا لایا، باہم سلام علیک ہوئی۔ اس کو سوزنی پر بٹھایا۔ تکیے کی تواضع کی۔ بعد اس کے میں نے پوچھا کہ صاحب کے تشریف لانے کا باعث ہے؟ فرمایئے۔ جواب دیا کہ شہزادی سے سنا ہے سوداگر آئے ہیں اور بہت جنس لائے ہیں، لہٰذا مجھ کو حکم دیا کہ جا کر ان کو حضور میں لے آؤ۔ پس تم جو کچھ اسباب لائق بادشاہوں کی سرکار کے ہو، ساتھ لے چلو اور سعادت آستانہ بوسی کی حاصل کرو۔

میں نے جواب دیا کہ آج تو ماندگی کے باعث قاصر ہوں۔ کل جان و مال سے حاضر ہوں گا۔ جو کچھ اس عاجز کے پاس موجود ہے، نذر گزرانوں گا۔ جو پسند آوے، مال سرکار کا ہے یہ وعدہ کر کر عطر پان دے کر خواجہ کو رخصت کیا اور سب سوداگرون کو اپنے پاس بلا کر جو جو تحفہ جس کے پاس تھا، لے لے کر جمع کیا۔ اور جو میرے گھر میں تھا وہ بھی لیا۔ اور صبح کے وقت دروازے پر بادشاہی محل کے حاضر ہوا۔

باری باری داروں نے میری خبر عرض کی۔ حکم ہوا کہ حضور میں لاؤ۔ وہی خواجہ سرا نکلا اور میرا ہاتھ ہاتھ میں لے کر دوستی کی راہ سے باتیں کرتا ہوا لے چلا۔ پہلے خواص پر سے ہو کر ایک مکان عالی شان میں لے گیا۔ اے عزیز! تو باور نہ کرے گا، یہ عالم نظر آیا گویا پر کاٹ کر پریوں کو چھوڑ دیا ہے۔ جس طرف دیکھتا تھا نگاہ گڑ جاتی۔ پاؤں زمیں سے اکھڑے جاتے تھے۔ بہ زور اپنے تئیں سنبھالتا ہوا رو برو پہنچا۔ جونہیں بادشاہ زادی پر نظر پڑی۔ غش کی نوبت ہوئی اور ہاتھ پاؤں میں رعشہ ہو گیا۔ بہر صورت سلام کیا۔ دونوں طرف دست راست اور دست چپ، صف بہ صف نازنینان پری چہرہ، دست بست کھڑی تھیں۔ میں جو کچھ قسم جواہر اور پارچہ پوشاکی اور تحفہ اپنے ساتھ لے گیا تھا، پیش کیا۔ جب کشتیاں حضور میں چنی گئیں، ازبس کہ سب جنس لائق پسند کی تھی، خوش ہو کر خانساماں کے حوالے ہوئی اور فرمایا کہ قیمت اس کی بموجب فرد کے کل دی جاوے گی۔ میں تسلیمات بجا لایا اور دل میں خوش ہوا کہ اس بہانے سے بھلا کل بھی آنا ہو گا۔ جب رخصت ہو کر باہر آیا تو سودائی کی طرح کہتا کچھ تھا اور منہ سے سدے کچھ نکلتا تھا۔ اسی طرح سرا میں آیا، لیکن حواس بجا نہ تھے۔ سب آشنا دوست پوچھنے لگے کہ تمہاری کیا حالت ہے؟ میں نے کہا اتنی آمدورفت سے گرمی دماغ پر چڑھ گئی ہے۔

غرض وہ رات تلیھے کاٹی۔ فجر کو پھر جا کر حاضر ہوا، اور اسی خواجہ کے ساتھ پھر محل میں پہنچا۔ وہی عالم جو کل دیکھا تھا۔ بادشاہ زادی نے مجھے دیکھا اور ہر ایک کو اپنے اپنے کام پر رخصت کیا۔ جب پرچھا ہوا۔ خلوت میں اٹھ گئیں اور مجھے طلب کی۔ جب میں وہاں گیا، بیٹھے کا حکم کیا۔ میں بھی آداب بجا لا کر بیٹھا۔ فرمایا کہ یہاں جو تو آتا اور یہ اسباب لایا، اس میں منافع کتنا منظور ہے۔ میں نے عرض کی کہ آپ کے قدم دیکھنے کی بڑی خواہش تھی۔ سو خدا نے میسر کی، اب میں نے سب کچھ بھر پایا۔ اور دونوں جہان کی سعادت حاصل ہوئی۔ اور قیمت کچھ فہرست میں ہے، نصف کی خرید ہے اور نصف نفع ہے۔ فرمایا نہیں جو قیمت تو نے لکھی ہے وہ عنایت ہو گی، بلکہ اور بھی انعام دیا جائے گا بشرطیکہ ایک کام تجھ سے ہو سکے تو حکم کروں۔ میں نے کہا کہ غلام کا جان و مال اگر سرکار کے کام آوے تو میں اپنے طالعوں کی خوب سمجھوں اور آنکھوں سے کروں۔ یہ سن کر قلم دان یاد فرمایا۔ ایک شقہ لکھا اور موتیوں کے درمیان میں رکھ کر ایک رومال شبنم کا اور لپیٹ کر میرے حوالے کیا اور ایک انگوٹھی نشان کے واسطے انگلی سے اتار دی اور کہا کہ اس طرف کو ایک بڑا باغ ہے۔

دل کشا اس کا نام ہے۔ وہاں تو جا کر ایک شخص کے خسرو نام داروغہ ہے، اس کے ہاتھ میں یہ انگشتری دیجئو، اور ہماری طرف سے دعا کہیو اور اس رقعہ کا جواب مانگیو۔ لیکن جلد آئیو۔ اگر کھانا وہاں کھائیو تو پانی یہاں پیئو۔ اس کام کا انعام تجھے ایسا دوں گی تو دیکھے گا۔ میں رخصت ہوا۔ اور پوچھتا پوچھتا چلا۔ قریب دو کوس کے جب گیا، وہ باغ نظر پڑا۔ جب پاس پہنچا، ایک عزیز مسلح مجھ کو پکڑ کر دروازے میں باغ کے لے گیا۔ دیکھوں تو ایک جوان شیر کی صورت، سونے کی کرسی پر زرہ داؤدی پہنے، چار آئینہ باندھے فولادی خود سر پر دھرے، نہایت شان و شوکت سے بیٹھا ہے اور پانچ سو جوان تیار ڈھال تلوار ہاتھ لئے اور ترکش کامان باندھے مستعد پرا باندھے کھڑے ہیں۔ میں نے سلام کیا، مجھے نزدیک بلایا۔ میں نے وہ خاتم دی اور خوشامد کی باتیں کر کر وہ رومال دکھایا۔ اور سقے کے بھی لانے کا احوال کہا۔ اس نے سنتے ہی انگلی دانتوں سے کاٹی اور سر دھن کر بولا کہ شاید تیری اجل تجھ کو لے کر آئی ہے۔ خیر باغ کے اندر جا، سرو کے درخت میں ایک آہنی پنجرا لٹکتا ہے اس میں ایک جوان قید ہے۔ اس کو یہ خط دے کر جواب لے کر جلدی پھرا۔ میں شتاب باغ میں گھسا۔ باغ کیا تھا، گویا جیسے جی بہشت میں گیا۔ ایک پر ایک چمن رنگ بہ رنگ کا پھول رہا تھا اور فوارے چھوٹ رہے تھے۔ جانور چہچہے مار رہے تھے میں سیدھا چلا گیا اور اس درخت میں وہ قفس دیکھا اس میں ایک حسین نظر آیا میں نے ادب سے سر نیہوڑ لیا اور سلام لیا اور وہ خریط سر بمہر پنجرے کی تیلیوں کی راہ سے دیا۔ وہ عزیز رقعہ کھول کر پڑھنے لگا اور مجھ سے مشتاق وار احوال ملکہ کو پوچھنے لگا۔ ابھی باتیں تمام نہ ہوئیں تھیں کہ ایک فوج زنگیوں کی نمودار ہوئی اور چاروں طرف سے مجھ پر آ ٹوٹی اور بے تحاشا برچھی و تلوار مارنے لگی ایک نہتے کی بساط کیا؟ ایک دم میں چور زخمی کر دیا۔ مجھے کچھ اپنی سدھ بدھ نہ رہی۔ پھر جو ہوش آیا اپنے تئیں چارپائی پر پایا کہ دو پیادے اٹھائے لیے جاتی ہیں اور آپ میں بتیاتے ہیں۔

ایک نے کہا اس مرد کی لوتھ کو میدان میں پھینک دو۔ کتے کوے کھا جائیں گے دوسرا بولا اگر بادشاہ تحقیق کرے اور یہ خبر پہنچے تو جیتا گڑوا دے اور باقی بچوں کو کولہو میں پڑوا دے۔ کیا ہمیں اپنی جان بھاری پڑے ہے جو ایسی نامعقول حرکت کریں۔

میں نے یہ گفتگو سن کر دونوں جاجوج ماجوج سے کہا واسطے خدا کے مجھ پر رحم کرو۔ ابھی مجھ میں ایک رمق جان باقی ہے۔ جب مر جاؤں گا جو تمہارا جی چاہے گا، سو کیجو، مردہ بدست زندہ لیکن یہ تو کہو مجھ پر یہ کیا حقیقت بیتی۔ مجھے کیوں مارا؟ اور تم کون ہو؟ بھلا اتنا تو کہہ سناؤ۔

تب انہوں نے رحم کھا کر کہا وہ جوان جو قفس میں بند ہے اس بادشاہ کا بھتیجا ہے اور پہلے اس کا باپ تخت نشین تھا۔ رحمت کے وقت یہ وصیت اپنے بھائی کو کی کہ ابھی میرا بیٹا جو وارث اس سلطنت کا ہے، لڑکا اور بے شعور ہے۔ کاروبار بادشاہت کا خیر خواہی اور ہوشیاری سے تم کیا کیجو۔ جب بالغ ہو اپنی بیٹی سے شادی اس کی کر دیجیو اور مختار تمام ملک اور خزانے کا کیجو۔

یہ کہہ کر انہوں نے وفات پائی اور سلطنت چھوٹے بھائی پر آئی۔ اس نے وصیت پر عمل نہ کیا بلکہ دیوانہ اور سودائی مشہور کر کے پنجرے میں ڈال دیا اور چوکی گاڑھی چاروں طرف باغ کے رکھی ہے کہ پرندہ پر نہیں مار سکتا۔ اور کئی مرتبے زہر ہلاہل دیا ہے لیکن زندگی زبردست ہے اثر نہیں کیا۔ اب وہ شہزادی اور یہ شہزادہ دونوں عاشق و معشوق بن رہے ہیں۔ وہ گھر میں تلپھتی اور یہ قفس میں تڑپھے ہے۔ تیرے ہاتھ شوق کا نامہ اس نے بھیجا۔ یہ خبر ہر کاروں نے بہ جنس بادشاہ کو پہنچائی۔ حبشیوں کا دستہ متعین ہوا، تیرا یہ احوال کیا اور اس جوان قیدی کے قتل کی وزیر سے تدبیر پوچھی۔ اس نمک حرام نے ملکہ کو راضی کیا ہے کہ اس بے گناہ کو بادشاہ کے حضور اپنے ہاتھ سے شہزادی مار ڈالے۔

میں نے کہا چلو مرتے مرتے یہ بھی تماشا دیکھ لیں۔ آ کر راضی ہو کر وہ دونوں اور میں زخمی چپکے ایک گوشے میں جا کھڑے ہوئے، دیکھا تو تخت پر بادشاہ بیٹھا ہے اور ملکہ کے ہاتھ میں ننگی تلوار ہے اور شہزادے کو پنجرے سے باہر نکال کر رو بہ رو کھڑا کیا ملکہ جلاد بن کر شمشیر برہنہ لئے ہوئے اپنے عاشق کو قتل کرنے کو آئی۔ جب نزدیک پہنچی تلوار پھینک دی اور گلے میں چمٹ گئی۔ تب وہ عاشق بولا کہ ایسے مرنے پر میں راضی ہوں۔ یہاں تیری آرزو ہے، وہاں بھی تیری تمنا رہے گی۔ ملکہ بولی کہ اس بہانے سے میں تیرے دیکھنے کو آئی تھی۔ بادشاہ یہ حرکت دیکھ کر سخت برہم ہوا اور وزیر کو ڈانٹا کہ تو یہ تماشا دکھلانے کو لایا تھا؟ محلی ملکہ کو جدا کر کے محل میں لے گئے اور وزیر نے خفا ہر کر تلوار اٹھائی اور بادشاہ زادے کے اوپر دوڑا کہ ایک ہی وار میں کام اس بیچارے کا تمام کرے۔ جوں چاہتا ہے کہ تیغا چلاوے، غیب سے ایک تیر ناگہانی سے اس کی پیشانی پر بیٹھا کہ دوسار ہو گیا اور وہ گر پڑا۔ بادشاہ یہ واردات دیکھ کر محل میں گھس گئے، جوان کو پھر قفس میں بند کر کر باغ میں لے گئے۔ میں بھی وہاں سے نکلا۔ راہ میں سے ایک آدمی مجھے بلا کر ملکہ کے حضور میں لے گیا۔ مجھے گھائل دیکھ کر ایک جراح کو بلوایا اور نہایت تاکید سے فرمایا کہ نوجوان کو چنگا کر کے غسل شفا کے دے۔ یہی تیرا مجرا ہے اس کے اوپر جتنی محبت تو کرے گا ویسا ہی انعام اور سرفرازی پاوے گا۔ غرض وہ جراح بموجب ارشاد ملکہ کے تک و دو کر کے ایک چلے میں نہلا دھلا مجھے حضور میں لے گیا۔ ملکہ نے پوچھا کہ اب تو کچھ کسر باقی نہیں رہی؟ میں نے کہا کہ آپ کی توجہ سے اب ہٹا کٹا ہوں۔ تب ملکہ نے ایک خلعت اور بہت سے روپے جو فرمائے تھے، بلکہ اس سے بھی دوچند عطا کئے اور رخصت کیا۔

میں نے وہاں سے رفیق اور نوکر چاکروں کو لے کر کوچ کیا۔ جب اس مقام پر پہنچا سب کو کہا۔ تم اپنے وطن جاؤ۔ اور میں نے اس پہاڑ پر یہ مکان اور اس کی صورت بنا کر اپنا رہنا مقرر کیا۔ اور نوکروں اور غلاموں کو موافق ہر ایک کی قدر کے روپے دے کر آزاد کیا اور یہ کہہ دیا کہ جب تلک جیت رہوں گا، میرے قوت کی خبر گیری تمہیں ضرور ہے۔ آگے مختار ہو۔ اب وہی نمک حلالی سے میرے کھانے کی خبر لیتے ہیں اور میں بہ خاطر جمع اس بت کی پرستش کرتا ہوں۔ جب تلک جیتا ہوں میرا یہی کام ہے۔ یہ میری سرگزشت ہے جو تو نے سنی۔ یا فقر! میں نے بہ مجرد سنتے اس قصے کی کفنی گلے میں ڈالی اور فقیروں کا لباس کیا اور اشتیاق میں فرنگ ملک کے دیکھے کے لیے روانہ ہوا۔ کتنے ایک عرصہ میں جنگل پہاڑوں کی سیر کرتا ہوا مجنوں اور فرہاد کی صورت بن گیا۔

آخر میرے شوق نے اس شہر تلک پہنچایا۔ گلی کوچے میں باولا سا پھرنے لگا۔ اکثر ملکہ کے محل کے آس پاس رہا کرتا۔ لیکن کوئی ڈھبایسا نہ ہوتا جو وہاں تک رسائی ہو۔ عجیب حیرانی تھی کہ جس واسطے یہ محنت کر کر گیا، وہ مطلب ہاتھ نہ آیا۔ ایک دن بازار میں کھڑا تھا کہ ایک بارگی آدمی بھاگنے لگا اور دکاندار دکانیں بند کر کے چلے گئے۔ یا وہ رونق تھی یا سنسان ہو گیا۔ ایک طرف سے ایک جوان رستم کا سا کلہ جڑا شیر کی مانند گونجتا اور تلوار دو دوستی جھاڑتا ہوا، زرہ بکتر گلے میں ٹوپ جھلم کا سر پر طمنچے کی جوڑی کمر میں، کیفی کی طرح بکتا جھکتا نظر آیا۔ اور اس کے پیچھے غلام بنات کی پوشاک پہنے ایک تابوت مخمل کا شانی سے مڑھا ہوا سر پر لئے چلے آتے ہیں۔ میں نے یہ تماشا دیکھ کر ساتھ چلنے کا قصد کیا۔ جو کوئی آدمی میری نظر پڑتا، مجھے منع کرتا لیکن میں کب سنتا ہوں، رفتہ رفتہ وہ جوان مرد ایک عالی شان مکان میں چلا۔ میں بھی ساتھ ہوا۔ اس نے پھرتے ہی چاہا کہ ایک ہاتھ مارے اور مجھے دو ٹکڑے کرے۔ میں نے اسے قسم دی کہ میں بھی یہی چاہتا ہوں۔ میں نے اپنا خون معاف کیا۔ کسو طرح مجھے اس زندگی کے عذاب سے چھڑا دے کہ نہایت تنگ آیا ہوں۔ میں جان بوجھ کر تیرے سامنے آیا ہوں، دیر مت کر، مجھے مرنے پر ثابت قدم دیکھ کر خدا نے اس کے دل میں رحم ڈالا اور غصہ ٹھنڈا ہوا۔ بہت توجہ اور مہربانی سے پوچھا کہ تو کون ہے؟ اور کیوں اپنی زندگی سے بیزار ہوا ہے؟ میں نے کہا ذرا بیٹھئے تو کہوں۔ میرا قصہ بہت درو و دراز ہے۔ اور عشق کے نیچے میں گرفتار ہوں۔ اس سبب سے لاچار ہوں۔ یہ سن کر اس نے اپنی کمر کھولی اور ہاتھ منہ دھو دھا کر کچھ ناشتا کیا۔ مجھے بھی عنایت ہوا۔ جب فراغت کر کے بیٹھا، بولا۔ کہہ تجھ پر کیا گزری؟ میں نے سب واردات اس پیر مرد کی اور ملکہ کی اور وہاں اپنے جانے کی کہہ سنائی۔ پہلے سن کر رویا اور یہ کہا کہ اس کم بخت نے کس کس کا گھر گھالا۔ مراد کو پہنچے اور تو اندیشہ نہ کر اور خاطر جمع رکھ حجام کو فرمایا کہ اس کی حجامت کر کے حمام کروا دے۔ ایک جوڑا کپڑا اس کے غلام نے لا کر پہنایا۔ تب مجھ سے کہنے لگا کہ یہ تابوت جو تو نے دیکھا، اس شہزادے مرحوم کا ہے، جو قفس میں مقید تھا۔ اس کو دوسرے وزیر نے آخر کمر سے مارا، اس کو تو نجات ہوئی کہ مظلوم مارا گیا۔ میں اس کا کوکا ہوں۔ میں نے اس وزیر کو بہ ضرب شمشیر مارا اور بادشاہ کے بھی مارنے کا ارادہ کیا۔ بادشاہ گڑگڑایا اور سوگند کھانے لگا کہ میں بے گناہ ہوں۔ میں نے اسے نامرد جان کر چھوڑ دیا۔ تب سے میرا کام یہی ہے کہ ہر مہینے کی نو چندی جمعرات کو میں اس تابوت کو اسی طرح شہر میں لئے پھرتا ہوں، اور اس کا ماتم کرتا ہوں۔ اس کی زبانی یہ احوال سننے سے مجھے تسلی ہوئی کہ اگرچہ یہ چاہے گا تو میرا مقصد بر آوے گا۔ خدا نے بڑا احسان کیا جو ایسے جنونی کو مجھ پر مہربان کیا۔ سچ ہے خدا مہربان تو کل مہربان۔

جب شام ہوئی اور آفتاب غروب ہوا۔ اس جوان نے تابوت کو نکالا اور ایک غلام کے عوض وہ تابوت میرے سر پر دھرا اور اپنے ساتھ لے کر چلا۔ فرمانے لگا کہ ملکہ کے نزدیک جاتا ہوں۔ تیری سفارش تابہ مقدور کروں گا۔ تو ہرگز دم نہ ماریو، چپکا بیٹھا سنا کیجو۔ میں نے کہا جو کچھ صاحب فرمائے ہیں وہی کروں گا، خدا تم کو سلامت رکھے جو میرے احوال پر ترس کھاتے ہو۔ اس جوان نے قصد بادشاہی باغ کا کیا، جب اندر داخل ہوا ایک چبوترا سنگ مرمر کا ہشت پہلو باغ کے صحن میں تھا اور اس پر ایک نم گیرہ سفید بادلے کا موتیوں کی جھالر لگی ہوئی الماس کے استادوں پر کھڑا تھا اور ایک مسند مغرق بچھی تھی۔ گاؤ تکیہ اور بغلی تکیے زربفت کے لگے ہوئے۔ وہ تابوت وہاں رکھوایا اور ہم دونوں کو فرمایا کہ اس درخت کے پاس جا کر بیٹھو۔ بعد ایک ساعت کے مشعل کی روشنی نظر آئی۔ ملکہ آپ کئی خواصیں پس و پیش اہتمام کرتی ہوئیں تشریف لائیں لیکن اداسی اور خفگی چہرے پر ظاہر تھی۔ آ کر مسند پر بیٹھیں۔ فاتحہ پڑھی اور کچھ باتیں کرنے لگا۔ میں کان لگائے سن رہا تھا۔ آخر اس جوان نے کہا کہ ملکہ جہان سلامت! ملک عجم کا شہزادہ آپ کی خوبیاں اور محبوبیاں غائبانہ سن کر اپنی سلطنت کو برباد دے فقیر بن مانند ابراہیم ادہم کے تباہ ہوا، اور بڑی محنت کھینچ کر یہاں تک آ پہنچا۔ سائیں تیرے کارن چھوڑا شہر بلخ۔ اور شہر میں بہت دنوں سے حیران پریشان پھرتا ہے۔ آخر وہ قصد مرنے کا کر کے میرے ساتھ لگ چلا۔ میں نے تلوار سے ڈرایا۔ اس نے گردن آگے دھر دی کہ اب میں یہی چاہتا ہوں، دیر مت کر۔ غرض تمہارے عشق میں ثابت ہے میں نے خوب آزمایا۔ سب طرح پورا پایا۔ اس سبب سے اس کا مذکور میں درمیان لایا۔ اگر حضور سے اس کے احوال پر مسافر جان کر توجہ ہو تو خدا ترسی اور حق شناسی سے دور نہیں۔

یہ ذکر ملکہ نے سن کر فرمایا کہاں ہے؟ اگر شہزادہ ہے تو کیا مضائقہ؟ رو بہ رو آوے وہ کوکا وہاں سے اٹھ کر آیا اور مجھے ساتھ لے کر گیا۔ میں ملکہ کے دیکھنے سے نہایت شاد ہوا، لیکن عقل و ہوش برباد ہوئے۔ عالم سکوت کا ہو گیا۔ یہ ہواؤ نہ پڑا کہ کچھ کہوں۔ ایک دم میں ملکہ سدھاری اور کوکا اپنے مکان کو چلا۔ گھر آ کر بولا کہ میں نے تیری سب حقیقت اول سے آخر تک کہہ سنائی اور سفارش بھی کی، اب تو ہمیشہ رات کو بلا ناغہ جایا کر اور عیش خوشی منایا کر۔ میں اس کے قدم پر گر پڑا۔ اس نے گلے لگا لیا۔ تمام دن گھڑیاں گنتا رہا کہ کب سانجھ ہو، جو میں جاؤں۔ جب رات ہوئی میں اس جوان سے رخصت ہو کر چلا اور پائیں باغ میں ملکہ کے چبوترے پر تکیہ لگا کے جا بیٹھا۔ بعد ایک گھڑی کے ملکہ تن تنہا ایک خواص کو ساتھ لے کر آہستہ آہستہ آ کر مسند پر بیٹھیں۔ خوش طالعی سے یہ دن میسر ہوا، میں نے قدم بوس کیا۔ انہوں نے میرا سر اٹھا لیا اور گلے سے لگا لیا۔ اور بولیں کہ اس فرصت کو غنیمت جان میرا کہا مان۔ مجھے یہاں سے لے نکل، کسو اور ملک کو چل۔ میں نے کہا چلئے یہ کہہ کر ہم دونوں باغ کے باہر تو ہوئے پر حیرت سے اور خوشی سے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ راہ بھول گئے اور ایک طرف کو چلے جاتے تھے، پر کچھ ٹھکانا نہیں پاتے تھے۔ ملکہ برہم ہو کر بولیں اب میں تھک گئی تیرا مکان کہاں ہے، جلدی چل کر پہنچ۔ نہیں تو کیا کیا چاہتا ہے؟ میرے پاؤں میں پھپھولے پڑ گئے، رستے میں کہیں بیٹھ جاؤں گی۔

میں نے کہا کہ تیرے غلام کی حویلی نزدیک ہے، اب آ پہنچے، خاطر جمع رکھو اور قدم اٹھاؤ۔ جھوٹ تو بولا پر دل میں حیران تھا کہ کہاں لے جاؤں؟ عید راہ پر ایک دروازہ مقفل نظر پڑا۔ جلدی سے قفل کو توڑ کر مکان کے بھیتر گئے۔ اچھی حویلی، فرش بچھا ہوا شراب کے شیشے بھرے، قرینے سے طاق میں دھرے اور باورچی خانے میں نان کباب تیار تھے۔ ماندگی کمال ہو رہی تھی ایک ایک گلاب شراب پرتگالی کی اس گزک کے ساتھ پی اور ساری راہ باہم خوشی کی۔ جب اس چین سے صبح ہوئی، شہر میں غل مچا کہ شہزادی غائب ہوئی۔ محلہ محلہ، کوچہ کوچہ، منادی پھرنے لگی اور کٹنیاں اور ہرکارے چھوٹے کہ جہاں ہاتھ آوے پیدا کریں، اور سب دروازوں پر شہر کے بادشاہی غلاموں کی چوکی آ بیٹھی۔ گزر بانوں کو حکم ہوا کہ بغیر پروانگی، چیونٹی باہر شہر کے نہ نکل سکے۔ جو کوئی سراغ ملکہ کا لاوے گا ہزار اشرفی اور خلعت انعام پاوے گا۔ تمام شہر کٹنیاں پھرنے اور گھر گھر میں گھسنے لگیں۔ مجھے جو کم بختی لگی دروازہ بند نہ کیا۔ ایک بڑھیا شیطان کی خالہ، اس کا خدا کرے منہ کالا، ہاتھ میں تسبیح لٹکائے برقع اوڑھے، دروازہ کھلا پا کر ندھڑک چلی آئی اور سامنے ملکہ کے کھڑی ہو کر ہاتھ اٹھا کر دیا دینے لگی کہ الٰہی تیری نتھ جوڑی سہاگ کی سلامت رہے اور کماو کی پگڑی قائم رہے میں غریب رنڈیا فقیرنی ہوں۔ ایک بیٹی میری ہے کہ وہ دو جی سے پورے دونوں درد زہ میں مرتی ہے اور مجھ کو اتنی وسعت نہیں کہ ادھی کا تیل چراغ جلاؤں، کھانے پینے کو تو کہاں سے لاؤں۔ اگر مر گئی تو گورو کفن کیونکر کروں گی؟ آج دو دن ہوئے ہیں کہ بھوکی پیاسی پڑی ہے۔ اسے صاحب زادی! اپنی خیر کچھ ٹکڑا پارچہ دلا تو اس کو پانی پینے کا آدھار ہو۔

ملکہ نے ترس کھا کر اپنے نزدیک بلا کر چار نان اور کباب اور ایک انگوٹھی چھینگیا سے اتار کر حوالے کی کہ اس کو بیچ بانچ کر گہنا پاتا بنا دیجو۔ اور خاطر جمع سے گزران کیجو۔ اور کبھو آیا کیجو، تیرا گھر ہے، اس نے اپنے دل کا مدعا، جس کی تلاش میں آئی تھی بہ جنس پایا۔ خوشی سے دعائیں دیتی اور بلائیں لیتی دفع ہوئی۔ ڈیوڑھی میں نان کباب پھینک دیئے، مگر انگوٹھی کو مٹھی میں لے لیا کہ پتا ملکہ کے ہاتھ کا میرے ہاتھ آیا۔ خدا اس آفت سے جو بچایا چاہے اس مکان کا مالک جواں مرد سپاہی، تازی گھوڑے پر چڑھا ہوا، نیزہ ہاتھ میں لئے شکار بن سے ایک ہرن لٹکائے آ پہنچا، اپنی حویلی کا تالا ٹوٹا اور کواڑ کھلے پائے۔ اس دلالہ کو نکلتے دیکھا، مارے غصے کے ایک ہاتھ سے اس کے جھونٹے پکڑ کر لٹکایا اور گھر میں آیا۔ اس کے دونوں پاؤں میں رسی باندھ کر ایک درخت کی ٹہنی میں لٹکایا۔ سر تلے پاؤں اوپر کئے ایک دم میں تڑپہ تڑپہ مر گئیں۔ اس مرد کی صورت دیکھ کر یہ ہیبت غالب ہوئی کہ ہوائیاں منہ پر اڑنے لگیں اور مارے ڈر کے کلیجہ کانپنے لگا۔ اس عزیز نے ہم دونوں کو بدحواس دیکھ کر تسلی دی کہ بڑی نادانی تم نے کی۔ ایسا کام کیا اور دروازہ کھول دیا۔

ملکہ نے مسکرا کر فرمایا کہ شہزادہ اپنے غلام کی حویلی کہہ کر مجھے لے آیا اور مجھ کو پھسلایا۔ اس نے التماس کیا کہ شہزادے نے بیان واقعی کہا۔ جتنی خلق اللہ ہے بادشاہوں کے لونڈی غلام ہیں۔ انہیں کی برکت اور فیض سے سب کی پرورش اور نباہ ہے۔ یہ غلام بے دام و درم زر خریدہ تمہارا ہے۔ لین بھید چھپانا، عقل کا مقتضا ہے۔ اے شہزادے تمہارا اور ملکہ کا اس غریب خانے میں توجہ فرمانا اور تشریف لانا سعادت دونوں جہان کی ہے۔ اور اپنے فدوی کو سرفراز کیا۔ میں نثار ہونے کو تیار ہوں۔ کسو صورت میں جان و مال سے دریغ نہ کروں گا۔ آپ شوق سے آرام فرمائیے اب کوڑی بھر خطرہ نہیں۔ یہ مردار کٹنی اگر سلامت جاتی تو آفت لاتی۔ اب جب تلک مزاج شریف چاہے بیٹھے رہیے اور جو کچھ چاہیے درکار ہو اس خانہ زاد کو کہیے سب حاضر کرے گا اور بادشاہ تو کیا چیز ہے! تمہاری خبر فرشتے کو بھی نہ ہو گی۔ اس جواں مرد نے ایسی ایسی باتیں تسلی کی کہیں کہ تک خاطر جمع ہوئی۔ تب میں نے کہا شاباش تم مرد ہو۔ اس مروت کا عوض ہم سے بھی جب ہو سکے گا تب ظہور میں آوے گا۔ تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے کہا کہ غلام کا اسم بہزاد خاں ہے۔ غرض چھ مہینے تک جتنی شرط خدمت کی تھی۔ بہ جان و دل بجا لایا۔ خوب آرام سے گزری۔

ایک دن مجھے اپنا ملک اور ماں باپ یاد آئے اس لیے نہایت متفکر بیٹھا تھا۔ میرا چہرہ ملین دیکھ کر بہزاد خان روبرو ہاتھ جوڑ کر کھڑا ہوا اور کہنے لگا کہ اس فدوی سے اگر کچھ تقصیر چرن برداری میں واقع ہو تو ارشاد ہو۔ میں نے کہا از برائے خدا یہ کیا مذکور ہے! تم نے ایسا سلوک کیا کہ اس شہر میں ایسے آرام سے رہے، جیسے اپنی ماں کے پیٹ میں کوئی رہتا ہے۔ نہیں تو یہ ایسی حرکت ہم سے ہوئی تھی کہ تنکا تنکا ہمارا دشمن تھا۔ ایسا دوست ہمارا کون تھا کہ ذرا دم لیتے۔ خدا تمہیں خوش رکھے بڑے مرد ہو۔ تب اس نے کہا اگر یہاں سے دل برداشتہ ہوا ہو۔ تو جہاں خیر عافیت سے پہنچا دوں۔ فقیر بولا کہ اگر اپنے وطن تک پہنچوں تو والدین کو دیکھوں، میری تو یہ صورت ہوئی، خدا جانے ان کی کیا حالت ہوئی جس واسطے جلا وطن ہوا تھا میری آرزو بر آئی۔ اب ان کی بھی قدم بوسی واجب ہے۔ میری خبر ان کو کچھ نہیں کہ مرا یا جیتا ہے؟ ان کے دل پر کیا قلق گزرتا ہو گا۔ وہ جوان مرد بولا کہ بہت مبارک ہے چلئے یہ کہہ کر ایک راس گھوڑا ترکی سو کوس چلنے والا اور ایک گھوڑی جلد جس کے پر نہیں کٹے تھے۔ لیکن شائستہ، ملکہ کی خاطر لایا اور ہم دونوں کو سوار کروایا۔ پھر زرہ بکتر پہن سلاغ باندھ اوپچی بن اپنے مرکب پر چڑھ بیٹھا اور کہنے لگا غلام آگے ہو لیتا ہے، صاحب خاطر جمع سے گھوڑے دبائے چل آویں۔ جب شہر کے دروازے پر آیا ایک نعرہ مارا اور تیرے قفل کر توڑا اور نگہبانوں کو ڈپٹ کر للکارا کہ برچودو! اپنے خاوند کو جا کر کہو کہ بہزاد خان ملکہ مہر نگار اور شہزادہ کا مار کو جو تمہارا داماد ہے ہانکے پکارے لئے جاتا ہے اگر مروی کا کچھ نشہ ہے تو باہر نکلو اور ملکہ کو چھین لو۔ یہ نہ کہیو کہ چپ چاپ لے گیا، نہیں تو قلعے میں بیٹھے آرام کیا کرو۔ کہ خبر بادشاہ کو جلد جا پہنچے۔ وزیر اور میر بخشی کو حکم ہوا کہ ان تینوں زاد مفسدوں کو باندھ کر لاؤ، یا ان کے سر کاٹ کر حضور میں پہنچاؤ، ایک دم کے بعد رغٹ فوج کا نمودار ہوا اور تمام زمین و آسمان گرد باد ہو گیا۔ بہزاد خاں نے ملکہ کو اس فقیر کو ایک در میں پل کے کہ بارہ پلے اور جون پور کے پل کے برابر کھڑا تھا۔ اور آپ گھوڑے کو تنگیا کر اس فوج کی طرف پھرا اور شیر کی مانند گونج کر مرکب کو ڈپٹ کر فوج کے درمیان گھسا۔ تمام لشکر کائی سا پھٹ گیا اور یہ دونوں سرداروں تلک جا پہنچا۔ دونوں کے سر کاٹ لئے جب سردار مارے گئے لشکر تتر بتر ہو گیا۔ وہ کہاوت ہے سر سے سر واہ جب بیل پھوٹی رائی رائی ہو گی۔ وہ نہیں آپ بادشاہ کتنی فوج بکتر پوشوں کے ساتھ لے کمک کو آئے۔ ان کو بھی لڑائی اس پکا جوان نے مار دی شکست فاس کھائی۔

بادشاہ پسپا ہوئے۔ سچ ہے فتح داد الٰہی ہے لیکن بہزاد خان نے ایسی جوانمردی کی کہ شاید رستم سے بھی نہ ہو سکتی تھی۔ جب بہزاد خان نے دیکھا کہ مطلق صاف ہوا، اب کون باقی رہا ہے جو ہمارا پیچھا کرے گا، بے وسواس ہو کر اور خاطر جمع کر جہاں ہم کھڑے تھے آیا اور ملکہ اور مجھ کو ساتھ لے کر چلا۔ سفر کی عمر کو تاہ ہوتی ہے۔ تھوڑے عرصے میں اپنے ملک کی سرحد میں جا پہنچے۔

ایک عرضی صحیح سلامت آنے کی بادشاہ کے حضور میں، جو قبلہ گاہ مجھ فقیر کے تھے، لکھ کر روانہ کی، جہاں پناہ پڑھ کر شاد ہوئے۔ دوگانہ شکر کا ادا کیا، جیسے سوکھے دھان میں پانی پڑا۔ خوش ہو کر سب امیروں کو جلو میں لے کر اس عاجز کے استقبال کی خاطر لب دریا آ کر کھڑے ہوئے۔ اور نواڑوں کے واسطے میر بحر کو حکم ہوا۔ میں نے دوسرے کنارے پر سواری بادشاہ کی کھڑی دیکھی۔ قدم بوسی کی آرزو میں گھوڑے کو دریا میں ڈال دیا۔ ہیلہ مار کر حضور میں حاضر ہوا مجھے مارے اشتیاق کلیجے سے لگا لیا۔ اب ایک اور آفت ناگہانی پیش آئی کہ جس گھوڑے پر میں سوار تھا شاید وہ بچہ اسی مادیان کا تھا جس پر ملکہ سوار تھی۔ باجنسیت کے باعث میرے مرکب کو دیکھ کر گھوڑی نے بھی جلد کر کر اپنے تئیں ملکہ سمیت میرے پیچھے دریا میں گرایا اور پیرنے لگی، ملکہ نے گھبرا کر باگ کھینچی، وہ منہ کی نرم تھی الٹ گئی۔ ملکہ غوطے کھا کر مع گھوڑے دریا میں ڈوب گئی۔ کہ پھر ان دونوں کا نشان نظر نہ آیا۔ بہزاد خان نے یہ حالت دیکھی کہ اپنے تئیں گھوڑے سمیت ملکہ کی مدد کی خاطر دریا میں پہنچایا۔ وہ بھی اس بھنور میں آ گیا، پھر نکل نہ سکا۔ بہتیرے ہاتھ پاؤں مارے، کچھ بس نہ چلا، ڈوب گیا۔ جہاں پناہ نے یہ واردات دیکھ کر مہا جال منگوا کر پھنکوایا، ملاحوں اور غوطہ خوروں کو فرمایا۔ انہوں نے سارا دریا چھان مارا۔ تھاہ کی مٹی لے لے آئے۔ پر وہ دونوں ہاتھ نہ آئے۔ یا فقرا! یہ حادثہ ایسا ہوا کہ میں سودائی اور جنونی ہو گیا اور فقیر بن کر یہی کہتا پھرتا ان نینوں کا یہی بسیکہ وہ بھی دیکھا یہ بھی دیکھ۔ اگر ملکہ کہیں غائب ہو جاتی یا مر جاتی تو دل کو تسلی آتی۔ پھر تلاش کو نکلتا یا صبر کرتا۔ لیکن جب نظروں کے رو بہ رو غرق ہو گئی تو کچھ بس نہ چلا۔ آخر جی میں یہی لہر آئی کہ دریا میں ڈوب جاؤں شاید اپنے محبوب کو مر کر پاؤں۔

ایک روز ایک رات کو اسی دریا میں بیٹھا اور ڈوبنے کا ارادہ کر کر گلے تک پانی میں گیا۔ چاہتا ہوں کہ آگے پاؤں رکھوں اور غوطہ کھاؤں۔ وہی سوار برقعہ پوش جنہوں نے تم کو بشارت دی ہے آ پہنچے۔ میرا ہاتھ پکڑ لیا اور دلاسا دیا کہ خاطر جمع رکھ۔ ملکہ اور بہزاد خان جیتے ہیں۔ تو اپنی جان ناحق کیوں کھوتا ہے؟ دنیا میں ایسا بھی ہوتا ہے خدا کی درگاہ سے مایوس مت ہو۔ اگر جیتا رہے گا تو تیری ملاقات ان دونوں سے ایک نہ ایک روز ہو رہے گی۔ اب تو روم کی طرف جا۔ اور بھی دو درویش دل ریش وہاں گئے ہیں۔ ان سے جب ملے گا اپنی مراد کو پہنچے گا۔ یا فقرا! یہ موجب حکم اپنے ہادی کے میں بھی خدمت شریف میں آ کر حاضر ہوا ہوں۔ امید قوی ہے کہ ہر ایک اپنے اپنے مطلب کو پہنچے۔ اس ٹکڑ گدا کا یہ احوال تھا جو تمام کمال کہہ سنایا