جاں سے جنوں تک


سلمان کے  گھر سے مشرق کی جانب تیسرے چوراہے کے بعد بائیں طرف پہلی گلی میں دوسرا گھر سمرن کا تھا، وہ ایک بھولی بھالی شریف زادی اور اعلی تربیت کے زیر سایہ اپنی جوانی کو پھنچی تھی، 

سانولا رنگ، باریک اور تیز نقوش اس کے حسن کی زینت تھے، مسکراتے ہوے رخسار پر بنتا  ہوا ڈمپل حُسْن میں  اور بھی نکھار پیدا کرتا تھا، بازار میں چلتے ہوے نیچی نگاہیں اور آدھے سے زیادہ سر کو ڈھانپ کر رکھنا اس کی شخصیت میں  مزید کشش کا بائث  تھے،

سلمان  نے اسے  جب پہلی بار اپنے گھر کے قریب سے اسکول جاتے ہوے دیکھا تو اسکی  نظریں اس کے چہرے پر جامد ہو گئیں، اس کا چہرہ دیکھتے ہی دیکھتے سلمان کے  دِل میں  اتر گیا تھا، وہ  ہمیشہ سوتے جاگتے چلتے پھرتے اسے ہی سوچنے لگا تھا، وہ سلمان کی  سوچوں کا محور بن چکی تھی،

اب عرصہ دراز سے سلمان  اس کا پیچھا  کر رہا تھا کیوں کہ سلمان کو اس سے محبت ہو گئی تھی، لیکن وہ تھی کہ سلمان  سے بات  کرنا تو دور کی بات دیکھتی بھی نہیں تھی، 

سلمان ہر روز اس کی محبت میں گرفتار ہوتا جا رہا تھا، اسے اپنے ہوش و ہواس سے بیگانگی ہوتی جا رہی تھی، وہ  اس کے پیار میں ایسا ڈوب رہا تھا جیسے کوئی دلدل میں  گرتا جا رہا ہو، یا کوئی شراب کے نشے میں اور شراب پئیے جا رہا ہو، 

جیسے کسی پر گلستاں میں گلاب اور چمبییلی کی مشترکہ خوشبو سے محبت کی عاشقانہ  کیفیت طاری ہو گئی ہو، 

سلمان کی آنکھیں جس طرف بھی دیکھتی تھیں تو بس سمرن  کی صورت ہی نظر آتی تھی، وہ  نماز پڑھنا  بھول گیا تھا، کبھی گھر سے نماز کے لیے مسجد جانے کو نکلتا تو اس کی گلی کے کونے پر لگے ھوے  ایک پرانے اور گھنے بوڑھ  کے نیچے سے اٹھا کر رات گئے اسے  لایا جاتا، 

وہ  گھر سے نکلتا تو گلی کے دائیں طرف لگی  نیم کے درخت کے نیچے ایک تندور پر پسینے سے شراابور ادھیڑھ عمر کی عورتیں اپنے بچوں کے کارناموں  سے بے خبر سلمان کو  دیکھ کر ہنستیں اور اسکی  حالت  زار کو دیکھ کر خوب مزے لیتیں،

سلمان  کڑھی دھوپ اور کہر کی سردی میں بھی باہر اس کی راہ تکتا رہتا تھا جب وہ اسکول جاتے ہوئے  سلمان کے  گھر کے دروازے کے سامنے سے گزرتی تھی تو اس کے چہرے پر نظر پڑھنے سے جو سلمان کو سکون ملتا تھا، ایسا لگتا تھا جیسے دریا کے کنارے تڑپتی  ہوئی موت کے قریب پہنچی مچھلی کو پِھر سے پانی میں چھوڑ دیا گیا ہو اور اسے بیحد راحت مل گئی ہو، 

سلمان کو یہ تک بھول گیا تھا کہ جمعہ کے دن چھٹی ہوتی ہے،  وہ  اس کے اسکول جانے کے اوقات میں ہر روز آنکھیں بچھائے اس کو دیکھنے کی خاطر بیتاب رہتا تھا، سمرن اسکی روح میں  بس چکی تھی، سلمان کے دِل کی دھک دھک  اسی کا ذکر کرنے لگی تھی،

دن میں سمرن  کے خیالوں نے اور رات میں  اس کے خوابوں  نے سلمان  پر بسیرا کر لیا تھا، اسے  انتہا درجے کی اِس محبت نے بے چین کر کے رکھ دیا تھا، وہ نویں کلاس سے پاس ہو چکی تھی اور سلمان دسویں میں فیل، 

سلمان کے  گھر والے اس  سے بے حد نالاں تھے، آخر ایک ہو نہار با عزت اور معتبر فیملی کا چشم و چراغ تھا سلمان بھی، اس کے  والدین نے بہت سی امیدیں لگا رکھی تھیں، اور کچھ  زیادہ امیدیں اِس لیے بھی تھیں کیوں کہ سلمان  اکلوتا بیٹا تھا،

اکلوتا ہونے کی وجہ سے وہ  لاڈلہ  تو تھا ہی  جس کی وجہ سے اسکی  ہر ایک بات پوری کی جاتی تھی، لیکن میٹرک کے امتحان سے فیل ہو کر جو چراغ  روشن کیا تھا اس کے نیچے چھایا ہوا اندھیرا گھر والوں کی مایوسی کا بائث بن گیا تھا، 

یہ سردیوں  کی ایک ٹھنڈی ترین رات تھی، کورا فلک سے زمین پر برس  رہا تھا، گلی کے آوارہ کتے مل کر بھونک رہے تھے جن کی آواز مل کر ایک عجیب ڈرونی سُر بنا رہی تھی،  ہمسایوں کے گھر سے کسی کے شدت سے کھانسنے اور کراہنے کی مدھم سی آواز بھی کانوں من پڑھ رہی تھی ، 

سلمان کے گھر والے سب اپنی اپنی رضایوں میں مونہہ چھپا کر  سُو چکے تھے،  لیکن ماں شاید اپنے بیٹے کے  دکھ کی وجہ سے دکھ میں مبتلا تھی،  وہ جان چکی تھی کہ سلمان سمرن سے کتنی محبت کرتا ہے،  وہ اسکا  یہ حال نہیں دیکھ سکتی تھی، 

سلمان کسی کے ہونے سے بے خبر ہو کر سمرن کے خیالوں میں گم تھا،  وہ کروٹیں  بدل بدل کر اپنی بے چینی کوکم کرنے کی کوشش میں تھا مگر جیسے جیسے رات گہری ہو رہی تھی سمرن کی محبت اس پر آسیب کی طرح  اثر کر رہی تھی، کچھ وقت یونہی گزر جانے کے بعد سلمان کو  پیاس کی شدت محسوس ہوئی، 

وہ اٹھا اور کچن کی طرف لپکا، فریج کھول کر پانی کی بوتل سے برا ہے راست پانی کے چند گھونٹ پیئے، فریج کا دروازہ بند کرتے ہوے دھمک سے پاس پڑے  کولر سے شیشے کا گلاس گر کر ٹوٹ گیا جس کی آواز سے آدھی سوتی جاگتی ماں نے جھٹ سے گھبراتے اور ڈرے ہوے فکریا لہجے میں  آواز دی اور ایک ہی  سانس میں کہا،

 سلمان کیا ہوا تجھے تم خیریت سے تو ہو، سوئے  کیوں  نہیں ابھی تک آدھی رات گزر چکی ہے  کیا کر رہے ہو؟

ہاں جی ماں خیریت ہے، بس پانی پیا ہے، آپ تو ایسے ہی اٹھ جاتی ہیں اونچی آواز میں سانس لینے سے بھی،  یہ کہتے ہوے وہ  جا کر اپنے بیڈ پر پِھر سے لیٹ گیا ، 

بڑی بہن جو ماں کی چارپائی سے کچھ دور دوسری چارپائی پر سو رہی تھی، شور سے اٹھ کر ایک فکریا اور درد مند لہجے سے: 
 ہائے اللہ میرے چاند سے بھائی کو کس کی نظر لگ گئی ہے، نا راتوں کو نیند آتی ہے نا دن میں کوئی سکون ملتا  ہے اسے، یا اللہ اسے  ہو کیا گیا ہے ، 

ماں غصے اور دردمندانہ  لہجے سے:

 اسے  عشق کا جن چمبڑ گیا ہے، سارا زمانہ جانتا ہے اب تو، ایویں  تو فیل نئیں  ہوا یہ دسویں  سے،  سارے گاؤں کو پتہ لگ   گیا ہے، یہ ہماری ناک کٹوائے  گا سب رشتہ داروں میں، اور گاؤں کے لوگوں کو ایک نیا کارنامہ  دکھاے گا، 

نازی: چل ماں سو جاؤ اب، کچھ نہیں ہوا ، سدھر  جائے گا  حوصلہ رکھو، بچہ ہے ابھی،

ماں جی فکر میں باتیں کرتے ہوے سو جاتی ہیں،  پِھر کچھ وقت بعد سلمان کی  بیچنی کو محسوس کر کے ماں اس کے  کمرے میں جا کر اس کے پاس  بیٹھ گئی، سلمان کی  پیشانی پر ہاتھ رکھ کر اس سے  باتیں کرنا شروع کر دیں،

دیکھ بیٹا، یہ جو رستہ تو نے اختیار کیا ہے نا یہ تیرے لیے اچھا نہیں ہے، یہ شریف زادوں کی راہ نہیں ہے،  کسی کی عزت کو اِس طرح  سے بدنام نہیں کرتے ، جیسے تیری بہنیں ہیں ویسے وہ بھی کسی کی بہن بیٹی ہے، تو اس کا پیچھا چھوڑ دے، تیرے لیے یہی بہتر ہے ، اپنی پڑھائی پر دھیان دے، اپنی زندگی کو خراب نا کر، اور ہمیں بھی سکھ کی سانس لینے دے ، سلمان سب کچھ چُپ چاپ سنتا رہا ،آخر ماں جی اٹھ کے چلی گئیں،

لیکن سلمان کی  نیندیں تباہ ہو چکی تھیں،  اسے  سونے سے زیادہ سکون سمرن کی یادوں اور خیالوں سے ملتا تھا، سمرن کی محبت اس کے  خون میں کوکین کے نشے کی طرح جذب ہو چکی تھی، اس  کی  رگوں میں جیسے خون کی جگہ سمرن کی محبت دوڑتی تھی ،

آخر کراہتے  کروٹیں  بدلتے فجر کی اذان کی قریبی مسجد سے تیز آواز کانوں من پڑھی اور کہر بھری اِس گہری رات سے چھٹکارا ملنے کی امید ظاہر ہوئی، سلمان  اَذان کی جذباتی اور دِل میں اتر جانے والی آواز سے خود میں  سکون محسوس کر رہا تھا ، اس سے یہ رات بھر کی تکلیف دور بھاگتی جا رہی تھی، اگلے ہی لمحے وہ اٹھا اور مسجد چلا گیا، وضو کر کے وہ  ہال کے ایک کونے میں بیٹھ کر خدا سے دعا کرنے لگا ،

یا اللہ، یہ دِل تو تیرا گلستاں ہے،  یہ تو تیرے رہنے کی جگہ  ہے، تو اِس میں رہے تو سکون ملتا ہے، تو اپنے اِس گھر سے کیوں  باہر چلا گیا ہے، تو اپنے اِس گھر سے کس لیے روٹھ گیا ہے،  یہ تو ہر وقت تیرے ورد میں  رہتا تھا تجھے ہی یاد کرتا تھا مگر تو نے اِس میں  رہنا گوارا کیوں  نہیں کیا، 
 اے میرے اللہ تو نے میرے اِس دِل کو کسی اور کا مسکن کیوں بنا دیا ہے، اے خدا تو نے مجھے ایک لا حاصل کی حسرت میں کس لیئے ڈال کر مجھ پہ عذاب مسلط  کر دیا ہے، میری حالت تو دیکھ ، مجھ سے سویا نہیں جاتا، میں كھانا بھول گیا ہوں،

اے اللہ مجھے سمرن کی محبت عطا کی ہے تو اس کے دِل میں بھی میری چاہت ڈال دے، وہ بھی  میری طرح  مجھے دیکھنے کے لیے تڑپے، وہ بھی مجھے دیکھنے کے لیے راتوں کو بے  چینی سے گزارے،

اے خدا میں بھی  تیرا بندہ ہوں، مجھ پر رحم فرما، میرے والدین مجھ پر رازی ہو جائیں،  میں اپنے والدین کی امنگوں کو پُورا کر سکوں، مجھے صبر اور سمرن کی محبت عطا فرما، مجھے میرے والدین کی امیدوں  کو پُورا کرنے کی توفیق بخش دے ، آمین،

جماعت ہو جانے کے بعد چند لوگوں کے سوا سب لوگ اٹھ کر چلے گئے، مولانا صاحب اپنی جگہ پر بیٹھے ہوے اپنے گرد چند بیٹھے ہوے لوگوں کو حدیث کا مفہوم سمجھا رہے تھے، 
مولانا صاحب:  پیارے نبی پاك صلى الله عليه وسلم  نے فرمایا، جسکا مفہوم یہ ہے کہ  اپنے والدین کی عزت کرو انہیں بڑھاپے میں تنگ مت کرو، ان کو خوش رکھو، اور اللہ نے بھی اپنی کتاب میں حکم دیا ہے کہ اپنے والدین کے سامنے اُف تک نا کرو، 

دیکھو اور غور سے سنو جو اپنے والدین کو دکھ دیتا ہے وه زندگی میں کبھی سکھ نہیں پا سکتا، وه شخص زندگی میں کبھی کامیاب انسان نہیں بن سکتا، میرے بھائیو اللہ اور رسول صلى الله عليه وسلم  کے احکامات میں  ہی ہماری اورامت کی بھلائی ہے،
 اپنے والدین کی قدر کرو انہیں خوش رکھو، اور بے شک ہَم ایسا کرنے سے ہی اپنے گھروں  کی رونق بَحال رکھ سکتے ہیں، وه گھر دنیا میں ہی  دوزخ بن جاتے ہیں  جہاں پر بڑوں کا ادب نہیں کیا جاتا اور چھوٹوں سے شفقت نہیں کی جاتی، وا آخیر دعوی . . . . . . . . 

سب مولانا صاحب سے مسافحہ  کر کے چلے گئے لیکن سلمان وہیں پر کھڑا رہا،

سب کے چلے جانے کے بعد مولانا صاحب جانے کے لیے کھڑے ہی ہوتے ہیں کہ سلمان کچھ پوچھنے کی طلب میں  آواز دیتا ہے ،

 مولانا ، ، ، ، مولانا صاحب ، ، ، ، مولانا صاحب کندھے پر ترچھا رومال رکھے ہوے اور سر پر ٹوپی لیے ہوے گردن کو گھما  کر پیچھے کی طرف دیکھتے ہیں اور سلمان کو دیکھ کر وہ خود کو مکمل طور پر سلمان کی طرف موڑ کر کھڑے ہو جاتے ہیں،
سلمان  سے:  ہاں بیٹا بولو کیا بات  ہے، آپ کیا پوچھنا چاہتے  ہو، آپ کی آنکھوں میں یہ لالگی کیوں ہے، کیا خدا سے دوری ہو گئی  ہے کیا کسی مجازی عشق  کو اپنا لیا ہے، کیا راتوں کو جاگنا واجب کر لیا ہے خود پہ، یہ حالت کیوں  بن چکی ہے بیٹا، مولانا صاحب ایسا بولتے گئے جیسے پہلے سے ہی سب جانتے ہوں،

سلمان:  ہاں،،،،، ہوں،،،، ہاں ،،،،، ہاں مولانا صاحب میری روح میں عشق بس گیا ہے، میری رگوں میں خون کی جگہ کسی لا پرواہ انسان کی محبت بھاگتی ہے، وہ محبت کم ہوتی ہے تو مجھے  ایسا لگتا  ہے جیسے،،، جیسے،،،،، میری سانس رک رہی ہو، میرا سکون برباد ہو چکا ہے، میں کیا کروں مولانا صاحب؟

مولانا صاحب"  دیکھو بیٹا، محبت کرنا یا محبت ہو جانا جرم نہیں ہے، لیکن غیر اللہ کی محبت کا دِل میں  اللہ سے زیادہ ھونا شرک ہے، ہاں خدا سے لو لگا لو اور اسی سے اپنی مجازی محبت مانگو وه ضرور دے گا، پِھر جو چاہو ملے گا، یہ کہتے ہوے مولانا صاحب چلے گئے اور سلمان نے  اپنے گھر کی راہ لی، 

اسکول سے آتے ہوے سات آٹھ  گرلز کے گروپ میں  ایک سمرن بھی تھی، سب لڑکیاں خوش گپیاں لگاتے ہوے  قدم بڑھا رہی تھیں اور سمرن ہمیشہ کی طرح چُپ چاپ ان کے ساتھ ساتھ چلتی جا رہی تھی، 

اچانک اس کی نظر ایک خوش شکل خوبصورت  بڑی بڑی آنكھوں، قدرے سفید چہرے اور بڑے بالوں والے لڑکے پر پڑی، کالے رنگ کے استری کیے بغیر تقریبا دو  دن سے پہنے ہوے  لباس میں  ملبوس یہ لڑکا اپنی خوبصورتی سے زیادہ خوبصورت نظر آ  رہا تھا،  
یہ سلمان  تھا اور اس نے آج سمرن کے سامنے آنے کی ہمت کر لی تھی، سمرن کی نظر جیسے ہی سلمان پر پڑی تو اس کے دل کو ایک جھٹکا سا لگا اور پھر اسکا دل جیسے کچھ دیرتک حد سے زیادہ دھڑکنے لگا، 

سمرن کی پھپھو کی بیٹی انیلا کی شادی کا دعوت نامہ موصول ہوا، ( یہ لوگ گوجرانوالہ میں رہتے تھے ) اور سمرن کے گھر والے شادی پر جانے کی باتیں کرنے لگے، ان دونوں فیمیلیز کا آپس من رشتہ تو تھا ہی لیکن محبت بھی کافی تھی اور خوب بنتی تھی دونوں گھروں کی آپیس میں، 
سمرن:  اماں میرے تو کوئی اچھے ڈریسز بھی تیار نہیں ہیں اور شادی تو سر پہ ہے، پندرہ  دنوں میں  ہَم کیسے تیاری کر لیں گے ، 
نبیل  سمرن کا چھوٹا بھائی ہاتھ میں  بیٹ پکڑے  ہوے:  ماما چلو نا آج چھٹی کا دن ہے ہَم شاپنگ کرنے  چلتے ہیں، آپی انیلا کی شادی کو دن بھی  تو کم  ہی رہ گئے ہیں اور ہَم پانچ  دن پہلے جائیں گے یہ میں بتا رہا...، اس نے گردن کو موڑتے ہوے کہا . . . . . . 

فضیلت بیگم: نبیل  کی بات کا ٹتے ہوے  بولیں، ہاں دس  دن نا آپکو پہلے بھیج دوں، شادی کے سارے انتظامات  تو تم نے ہی کرنے ہیں  نا اور اسٹڈی کرنے کے لیے کوئی ملازم رکھے گا تو یا منشی کر لے گا اسٹڈی ترے حصے کی، اس بات پر بچے قہقہہ لگا کر خوب ہنسے،
ماں پِھر ساتھ ہی سرد لہجے میں بچوں سے کہتی ہیں، بیٹا ابھی شادی کو بہت دن پڑے ہیں،  ساری تیاریاں  ہو جائیں گی، آپ کے بابا آتے ہیں تو ہَم سب کچھ لے آئیں گے بازار سے، فل حال . . . . . . . . . . . . . . . . 

اتنی دیرمیں  موبائل کی رنگ بجی، سمرن نے جلدی سے ٹیبل پر پڑے چارجر لگے  ہوے موبائل کی اسکریں کو دیکھتے ہوے کہا، اماں جی خالہ شگفتہ کی کال ہے کراچی سے ،

شگفتہ: فضیلت بیگم کی بڑی بہن ہیں اور کراچی میں رہتے ہیں، شگفتہ آپا بہت مزاحیا اور ہنسنے ہنسانے والی شخصیت کی مالک ہیں، 
سمرن نے کال پک کی اور بولی- ہیلو خالہ کیسی ہیں آپ؟

شگفتہ:  ارے میں تو کراچی کے موسم کو خوب انجوائے کر رہی ہوں، آپ تو بیٹا اپنی خالہ کو بھول ہی گئے، سالوں گزر جاتے ہیں اورمیں راہ تکتی رہتی ہوں پنجاب سے کوئی آئے مگر آنکھیں جواب دے جاتی ہیں اور  آپ کبھی آنے کا نام ہی نہیں لیتے ،

سمرن:  خالہ ہَم تو کب سے اماں ابّا کو بول رہے ہیں لیکن اماں ہر سال یہی کہتی ہیں کہ اگلی  چھٹیوں میں  اگلی چھٹیوں میں جائیں گے، پتہ نہیں وہ چھٹیاں کب آئیں گی . یہ لیں آپ اماں سے خود بات کر لیں،

فضیلت موبائل کے ہینڈز فری کانوں میں لگاتے ہوے:  آپا  کیسی ہیں  آپ اور میرا بیٹا صائم کیسا ہے،

 جی جی ہَم ٹھیک ہیں، ارے فضیلت کبھی آؤ بھی سہی کراچی  بچوں کو ہی  ملوا جاؤ اب تو بیٹی سمرن بھی کتنی بڑی ہو گئی ہو گی، صائم  نے مجھے کتنی بار کہا ہے، پنجاب کب جانا ہے، آپکو تو پتہ ہے ان کے پاپا کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی . . . . .

فضیلت بیگم:  آپا اس سال کی چھٹیوں میں ہَم ضرور آئیں گے انشاء الله، آپ کے سارے گلے شکوے دور کر دیں گے، اب تو ہَم شادی کی تیاریوں  میں مصروف ہیں، آاپا کلثوم  کی بڑی بیٹی کی شادی ہے نا، وہ انییلا کی. اچھا اور سنائیں صائم  بیٹا کس کلاس میں ہے اب،

شگفتہ: صائم  اب جوان ہے ماشاا اللہ، خیر سے فرسٹ ایئر کے ایگزام دے گا اسی سال،  لو صائم آ گیا میں اس کے لیے كھانا لگا لوں اور آپ لوگ شادی کی تیاریاں کرو، اس نے اللہ حافظ کہہ کر کال بند کر دی، 

صائم مما  سے:  ماما کس کی کال تھی،
 بیٹا آپ کی خالہ فضیلت تھی،
 ماما آپ ہی انہیں  یاد کرتی رہتی ہیں ہمیشہ، وہ تو کبھی یاد نہیں کرتے، 
ہاں تو تُو دِل کی باتیں جانتا ہے نا جو کہہ رہا وہ یاد نہیں کرتے، وہ بہت یاد کرتے ہیں، شگفتہ نے صائم کی طرف دیکھتے ہوے کہا، 
صائم:  ماما اگر وہ یاد کرتے ہوں تو ہمیں کبھی کال نا کریں،  انہوں  نے تو کبھی پاپا کا حال بھی نہیں پوچھا، 

شگفتہ صائم کی طرف دیکھتے ہوے:  بیٹا وہ سب گرمیوں کی چھٹیوں میں آ رہے ہیں نا، سب کچھ اپنی خالہ سے پوچھ لینا خود ہی، اچھا چلو كھانا کھاؤ اور اپنے پاپا کے ساتھ جا گنگ  پہ جاؤ ، ، ،

ملک سکندر سگار کا کش لگاتے ہوے اور چلتے ہوے اپنے منشی سے کہتے ہیں، یہ پندرہ ایکڑ کپاس کے لیے تیار کر دو اور باقی پینتیس ایکڑ میں گنا لگانا ہے، زمین کی تیاری کرو،
 اور سنو زمین کی تیاری ٹھیک ہو گی تو فصل اچھی ہو گی، فصل اچھی ہو گی تو ہمارے ساتھ ساتھ آپ سب کو بھی اچھا رزق ملے گا، اور ملک و قوم کی برآمدات میں اضافہ ہو گا ملک ترقی کرے گا،
منشی:  ملک صاحب پرہمارے ایک کے سوچنے سے کیا ہو گا، ہمارے پچھترکیلوں سے تو ملک کی ترقی نئیں نا رکی ہوئی ملک صاب او، 

ملک سکندر:  اوئے منشی  دیکھ اگر سارا ملک چھوٹے سے چھوٹا زمیندار بھی یہ سوچ لے کہ اس نے ملک و قوم کی خدمت کرنی ہے تو وہ اپنے کھیتوں میں اچھی محنت کریں، جب سب زمیندار کسان محنت کر کے پیداوار بڑھائیں گے تو اجناس دوسرے ملکوں کو بھیجیں گے جس سے ملک میں پیسا زیادہ آئے گا اور مہنگائی کا خاتمہ ہو گا، پِھر غریب بھی آسانی سے روٹی کھا سکے گا، بس اپنے ٹڈ پے ہی ہاتھ نئیں پھیرنا چاہیے منشی،

منشی:  تواڈیاں تسی جانو ملک صاحب، چل او منشی بجا باجا تے چلا ٹریکٹر نالے گا ہیر، منشی وہاں سے ہیر گاتے ہوے زمینوں کی طرف جاتا ہی، ہیر آکھیا جوگیا جھوٹھ بولے،،،،،،،،،،،،،،،ہیر گانے میں منشی کی آواز جادو کی طرح تھی،

انییلا کی چھوٹی بہن آلیا کی کال آئی اور سمرن سے بات کرنے لگی:  ارے سمرن یار آپ لوگ کب آؤ گے، پرسوں تو بارات آ رہی ہے، مامی اور ماموں جان سے کہو آج ہی شام کو آ جائیں، آپ کے بنا رونق بھی تو نہیں ہے نا یار،
ملک سردار بیٹی انییلا سے:  بیٹا میری بات کرواؤ ذرا اپنے ماموں سے، سمرن ماموں جان کو موبائل دو ابو جان بات کرنا چاہتے ہیں، 

ملک سردار:  جی وڈے بھائی صاب ابھی تک آئے نہیں، سارے انتظامات ہو چکے ہیں بس آپ لوگوں کی کمی ہے، وہ آپ ہی پوری کر سکتے ہیں، آپ اور بہن فضیلت بچوں کو لے کر نا پہنچے  تو کیسی رونق کیسا ویاہ، آپ آج ہی آ جائیں، باقی زمینوں پہ مصروفیات تو چلتی رہیں گی، 

ملک سکندر:  اچھا اچھا بھائی جان آپ فکر نا کرو ہَم آج ہی آ رہے ہیں، بس آپ فون بند کرو اور ہَم آئے شام ہونے تک،
ملک سکندر کی فیملی اپنی جیپ میں بیٹھ کر شادی پہ روانا ہو گئی، گاؤں سے باہر نکلے تو سڑک  کنارے کھیتوں میں  سرسوں کے پھول کھلے ہوے تھے،  ہلکی سے کچھ تیز ہوا چل رہی تھی، فصلیں لہلہا رہی تھیں، ہلکے بادلوں کے کالے اور سفید ٹکڑے ساتھ ساتھ سفر کر رہے تھے، کبھی دھوپ نکل رہی تھی اور کبھی چھاؤں، کالے اور سفید بادلوں نے آکاش کو اور بھی خوبصورت بنایا ہوا تھا، 

سمرن کے دِل پر آج پہلی بار موسم کا اثر ہو رہا تھا، وہ گاڑی کی عقب سیٹ پر دوروازاے کی طرف بیٹھی ہوئی آشقانہ موسم میں ڈوبتی جا رہی تھی، وہ اپنے دِل میں بھی باہرکا موسم آج پہلی بار محسوس کر رہی تھی، اُس کے دِل میں ایک عجیب سی کیفیت تھی جیسے کے دِل میں بہار آئی ہو اور پھول کھلے ہوں اور ساتھ ہی ساتھ کسی چیز کی محبت اور کمی بھی  فیل ہو رہی تھی، ایسا سمرن نے پہلی بار محسوس کیا تھا، 

چلتی ہوئی گاڑی جب نہر والی سڑک پر پہنچی تو ایک دم ٹائر پھٹ گیا اور تیز رفتار میں چیخوں کے ساتھ ساتھ  گاڑی پلٹتے پلٹتے بچ گئی، ڈرائیور اور ملک صاحب نے گاڑی سے اتر کر پھٹے ہوے ٹائر کو دیکھا،
 ملک صاحب ڈرائیور کو غصیلے لہجے میں:  کتنی بار کہا ہے کے ٹائروں کا خیال رکھا کرو سروس ٹائم سے کروایا کرو، آپکی لا غرضی سے اب ویرانے میں. . . . . . . . . . 

ڈرائیور: او ملک صاب  جی ، ، ، بس کل ہی ، ، ، ، ،وہ ملک صاب--- چلو سٹپنی لگاؤ جلدی سے--- اوہ جی ملک صاب جی وہ تو پچھلے ہفتے ہی پھٹ گیا تھا جب میں وکیل صاب کے ساتھ گوجرانولہ گیا تھا ، ، ،
ملک صاحب:  اسکو اب کاندھو پے . . . . . . . . . . . . . ابھی بات پوری نہیں ہوئی تھی کے اتنی دیر میں سلمان بائیک پہ گزر رہا تھا کہ اچانک اس کی نظر سمرن پر پڑی اور ساتھ میں سمرن کی فیملی اور پنکچر گاڑی،

 سلمان فورا ملک صاحب کے پاس پہنچا:  ملک صاحب  جی میں آپ کی کیا مدد کر سکتا ہوں، اس نے سمرن کی طرف محبت بھری اور گہری نظروں سے ایک لمحے بھر کے لیے دیکھتے ہوے کہا،

 سمرن کی نظر جب سلمان پر پڑی تو اس نے فورا نظریں جھکا لیں، وہ  سلمان کو اپنے اسکول سے آتے جاتے کئی بار دیکھ چکی تھی، لیکن آج اتنا قریب سے سلمان کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوا جیسے اس کے دِل میں جو کمی سی محسوس ہوئی تھی وہ پوری ہو گئی ہو،
اسے یہ نہیں پتہ تھا کہ وقت کے ساتھ ساتھ یہ کمی کس عذاب اور شدت والی محبت میں بدل جائے گی، سلمان ٹائر کو لے گیا  اور پنکچر لگوا کر واپس آیا تو ٹائر کو ڈرائیور نے فکس کیا اور وہ وہاں سے چلے گئے،

شادی والے گھر ملک سردار کی فیملی کی طرف سے شادیانہ ماحول میں پر تپاک استقبال کیا گیا، 
سب ایک دوسرے سے ملے، ڈرائیور نے سامان اتارا، 

ملک سکندر:  لو جی بھلا  ہَم کیسے نا آتے اپنی بیٹی کی شادی پہ،

ملک سردار:  بھائی جان آپ نے تو چار چند لگا دیئے رونق ہی بڑھ گئی آپ کے آنے سے، اور یہ آلیا بھی سمرن سمرن کر رہی تھی، اسکو بھی سکون ہو جائے  گا اب، 

پھر فضیلت بیگم کی طرف دیکھتے ہوے، ارے بہن جی اگر آپ آج نا آتے تو کل ہَم نے دروازے  بند کر دینے تھے گھر کے، کیوں کہ ہَم نے ساری شادی سمیت دلہن اٹھا کر آپ کے گھر ہی آ جانا تھا تا کہ بھائی جان زمینوں کی دیکھ بال بھی کرتے رہتے اور.....اس نے آنکھوں کو کھولتے ہوے فضیلت بیگم کی طرف دیکھتے ہوے کہا،

فضیلت بیگم: اور.......اور کیا بھائی جان، کیا اور آگے بھی بولو نا...

اورآسانی سے  شادی میں بھی شامل ہو جاتے وڈے بھی جان،،،ہاہاہاہاہا سب ہنسنے لگ گۓ ...

آلیا: چلو سمرن آؤ ادھر ڈھولکی  بجاؤ اور گانا سناؤ، آلیا کی اور بھی فرینڈز ساتھ  تھیں،
سمرن:  ارے بابا مجھے کچھ نہیں آتا واتا، میں تو سنوں  گی سناؤں  گی کچھ نہیں بابا،  

آلیا:  چلو سمرن چلو اب بہانے نہیں چلیں گے، چلو اٹھو . . . . . . . . . . . . . . . . .

ڈھولکی بجائی گئی اور  شادی کے گیتوں اور پنجابی ٹپوں سے خوب رونق لگائی گئی،،،


جاری ہے...................................................


Author - follow me on face book
https://www.facebook.com/mohammad.abrar.127