یہ کتابچہ پڑھنے کے ساتھ ساتھ اس کا جڑواں کتابچہ ضرور پڑھ لینا چاہیے‘ جس کا عنوان بے شک ذرا لمبا ہے ‘ لیکن ہے اس قدر واضح کہ خواہ مخواہ مطالب کے اندر داخل ہونے کو جی چاہتا ہے : ’’پاکستان کے وجود کو لاحق خطرات و خدشات اور بچاؤ کی تدابیر‘‘. سوال یہ پیدا ہوتاہے کہ آخر پاکستان کے وجود کو خطرات و خدشات کیوں لاحق ہوئے ہیں؟ ظاہر بات ہے کہ ہمارا اندرونی مجموعی نظام بھی اس کا ذمہ دار ہے‘ لیکن بہت سے اسباب ووجوہ عالمی طاقتوں کی آویزش‘ اور سوویت یونین کی تحلیل کے بعد تو واحد سپر پاور امریکہ کی عالمی اقتدار کی ہوس کی پیداوار ہے.
نائن الیون کے عبرت خیز واقعے کے زیر اثر امریکہ نے اپنے گریبان میں جھانکنے کی بجائے‘ انتقاماً پوری دنیا پر جہاں گیریت (Globalisation) کی تلوار لٹکا دی ہے. [امریکہ کی ہوس ملک گیری و زرگری کو عالمگیریت (Universalism) کہناغلط ہے‘ جو درحقیقت فلسفے اور ادب عالیہ کی مثبت اقدار کا مفہوم رکھنے والی اصطلاح ہے. جہاں گیری کی موجودہ عالمی زرپرستانہ‘ مادّی‘ دنیاوی تحریک کی جڑیں بہت گہری اور شاخیں بہت طویل اور دراز ہیں. دنیا کا شاید ہی کوئی ملک‘ اور کوئی بندہ بشر اُس کی مسموم اثر انگیزی سے بچا ہوا ہو.
ہمارے محترم ڈاکٹر صاحب نے اس جہاں گیریت اور موجودہ عالمی حالات کا (اس کتابچے میں) انتہائی باریک بینی اور دردمندی سے‘ انتہائی اختصار کے ساتھ‘ انتہائی خیال افروز تجزیہ کیا ہے. مبالغہ آمیز لفظ ’’انتہائی‘‘ کے استعمال کی وجہ ٔجواز یہ کتابچہ پوری توجہ سے پڑھنے میں مضمر ہے. چونکہ ڈاکٹر صاحب ہمارے ملک میں روز مرہ کی بول چال میں‘ صرف شناخت اور کہنے کے ڈاکٹر نہیں‘ بلکہ واقعی مرض کی صحیح تشخیص کرنے والے حکیم بھی ہیں‘ اس لیے اس کم بخت عالمی بیماری ’’جہاں گیریت‘‘ کے نادیدہ جراثیم کے خرد بینی مطالعے کے لیے انہوں نے ماہر تشریحیات (Anatomist) کی سی باریک بینی کے ساتھ مرض کی تمام علامات اور جوارح کی نشاندہی کی ہے. انہوں نے ہمیں
خلاصۃً بتا دیا ہے کہ جہاں گیریت کی تین اہم سطحیں ہیں:
پہلی سطح : امریکہ‘ سول سپریم پاور آف ارتھ
دوسری سطح : اللہ کی بغاوت پر مبنی عالمی نظام
تیسری سطح : مذہبی تصادم
بین الاقوامی بیماری کی تشخیص کے بعد ڈاکٹر صاحب نے اس کا علاج بھی تجویز کیا ہے. بالکل سادہ اور واحد علاج‘ یہ کہ اسلام کے عدل اجتماعی کا نظام قائم ہونے ہی سے انسانیت سکھ کا سانس لے سکتی ہے اور شفایاب ہو کر امن و اطمینان سے رہ سکتی ہے.ا سلامی نظام کے قیام کے جذبے کی تاریخ بھی چند پیراگرافوں میں بیان کر دی ہے‘ جو ہمارے ملک کے دانشوروں اور مؤرخین کو ایک بڑی تحقیقی تالیف کی دعوت دے رہی ہے.
دونوں جڑواں کتابچوں یعنی عالمی حالات کے تجزیے‘ اور اس کی پس منظری روشنی میں پاکستان کے حالات کا تجزیہ‘ دونوں کا مطالعہ ہمیں کچھ سوچنے پر مجبور کر دیتا ہے.
سید قاسم محمود
یکم ستمبر ۲۰۰۴ء نحمدہٗ ونصلی علٰی رَسولہِ الکریم … امَّا بَعد:
اعوذ باللّٰہ من الشَّیطٰن الرَّجیم . بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
ظَہَرَ الۡفَسَادُ فِی الۡبَرِّ وَ الۡبَحۡرِ بِمَا کَسَبَتۡ اَیۡدِی النَّاسِ لِیُذِیۡقَہُمۡ بَعۡضَ الَّذِیۡ عَمِلُوۡا لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ (الروم:۴۱)