دوسری سطح : اللہ کی بغاوت پر مبنی عالمی نظام

دوسری حقیقت جو رفتہ رفتہ کئی صدیو ں میں پروان چڑھ کر سامنے آئی ہے وہ ایک ’’اجتماعی نظام‘‘ ہے جس نے اِس وقت پورے کرۂ ارض کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے. اس اجتماعی نظام کی تین سطحیں ہیں. اسے یوں سمجھئے کہ جیسے کسی شخص کو جب ملیریا بخار چڑھتا ہے تو اسے سردی اتنی لگتی ہے کہ وہ ایک لحاف کے بعد دوسرا اور پھر تیسرا لحاف اپنے اوپر اوڑھ لیتا ہے. تو اِس وقت درحقیقت تین لحاف ہیں جو دنیا نے اوڑھے ہوئے ہیں. ان میں سے جو زمین کے نزدیک ترین ہے ‘ یا یوں کہئے کہ جوپہلا لحاف ہے وہ ہے ’’معاشرتی نظام‘‘ اور سب سے اوپر ہے ’’سیاسی نظام‘‘. 

(i)سیاسی نظام

اب ان تینوں نظاموں کا جائزہ لیجئے .سب سے پہلے ’’سیاسی نظام‘‘ کو لیتے ہیں! پچھلی دو تین صدیوں کے اندر جو نظام پروان چڑھا‘ جو یورپ سے شروع ہوا اور پوری دنیا میں پھیل گیا اور آج پوری دنیا کے اندر اس کی حیثیت اصول موضوعہ اور accepted fact کی ہے وہ ہے ’’سیکولرازم‘‘. اور سیکولرازم کی حقیقت یہ ہے کہ انسان کے اجتماعی معاملات میں کسی مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں‘ مذہب صرف انفرادی معاملے کا نام ہے اور اس میں ہر انسان آزاد ہے. لیکن مذہب صرف تین چیزوں پر مشتمل ہے‘ کوئی چوتھی چیز اس میں شامل نہیں ہے .وہ تین چیزیں یہ ہیں: (i) عقائد (Dogmas) :سیکولرازم کی رو سے چاہے کوئی ایک خدا کومانے‘ سو کو مانے یا کسی کو بھی نہ مانے‘ اسے آزادی حاصل ہے. (ii) عبادات کے معاملے میں بھی ہر شخص آزاد ہے‘ چاہے وہ ایک غیر مرئی (unseen) خدا کی عبادت کرے‘ یا پتھر کے بتوں کی پرستش کرے. وہ پیپل کے درخت کی پرستش کرے ‘سانپ کی پرستش کرے‘ سورج ‘ چاند اور ستاروں کی پوجا کرے‘ یا انسان کے اعضائے تناسل کی پوجا کرے‘ اسے کھلی آزادی ہے. اور جو بھی modes of worship اختیار کرنا چاہے اس کی اسے آزادی ہے. (iii) مذہب کا تیسرا حصہ سماجی رسومات (Social Customs) ہوتی ہیں. سیکولرازم میں اس کی بھی آزادی ہے کہ یہ رسومات اپنے مذہب کے مطابق ادا کرو. نکاح کے لیے چاہے ایجاب و قبول کی صورت اختیار کرو چاہے مندر میں جا کر پھیرے لگاؤ. اپنے مردے کو چاہے دفن کرو اور چاہے نذرِ آتش کر دو.

البتہ سیاسی نظام میں‘ قانون سازی کے عمل میں کسی مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا. گویا انسان کی اجتماعی زندگی سے خدا کو نکال دیا گیا ہے کہ تم مسجد ‘مندر‘ سینیگاگ‘ چرچ‘ جہاں چاہو رہو‘ لیکن ہماری پارلیمنٹ اور ہمارے کاروباری اداروں سے تمہارا کوئی سروکار نہیں. ہمارے سماجی نظام سے بھی تمہارا کوئی سروکار نہیں. یہ ہم خود بنائیں گے‘ ہمیں اِس کا اختیار حاصل ہے‘ ہم خود حاکم ہیں‘ ہم عوامی حاکمیت کے اصول پر قانون سازی کریں گے. ہم انتخابات کرائیں گے‘ ان کے نتیجے میں جوبھی پارلیمنٹ‘ کانگریس وغیرہ ہو گی وہ اکثریت کے ساتھ قانون بنائے گی. وہ چاہے شراب پینے کی اجازت دے‘ چاہے اس پر پابندی لگا دے ‘ اس کا اختیار ہے. لیکن یہ پابندی اس وجہ سے نہیں ہوگی کہ کسی مذہب میں اس پر پابندی ہے. وہ ہم جنسوں کی شادیوں کی اجازت دے تو اسے اختیار ہے‘ مرد کی مرد سے شادی اور عورت کی عورت سے شادی کے لیے وہ قانون بنا سکتے ہیں.

گویا پورے سیاسی‘ اجتماعی نظام سے خدا کو بے دخل کر دیا گیا ہے کہ اس معاملے میں کسی آسمانی ہدایت کا کوئی سروکار نہیں‘ کسی خدائی قانون کا کوئی اعتبار نہیں‘ بس اس کی تلاوت کر لی جائے ‘ اپنی اپنی مقدس کتابیں پڑھ لی جائیں‘ سکھ گروگرنتھ پڑھ لیں‘ مسلمان قرآن پڑھتے رہیں‘ ہندو وید ‘رامائین اور بھگوت گیتا پڑھتے رہیں. وہ بس اپنے مندروں کے اندر محدود رہیں. مسلمان اپنی مساجد کے اندر ماہِ رمضان میں تراویح کے دوران پورا قرآن پڑھ لیں‘ کوئی اعتراض نہیں ‘اس کا ان کواختیار ہے‘ لیکن قرآن کی شریعت واجب التنفیذ نہیں ہوگی! تو یہ نظام ہے جو آج پوری دنیا کو پورے طور سے اپنی گرفت میں لے چکا ہے . 

(ii)معاشی نظام

اس سے نیچے آیئے تو دوسرالحاف موجود ہے اور وہ ہے معاشی نظام. اِس وقت پوری دنیا میں معاشی نظام interest based capitalism یعنی سود پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام کی بنیاد پر قائم ہے‘ جس میں اصل طاقت‘ اصل حق سرمائے کو حاصل ہے‘ لیبر کو نہیں. اور سرمایہ از خود بھی بغیر کسی محنت کے کمائی کر سکتا ہے. جیسے آپ بینک میں روپیہ رکھ دیں اور سود لیتے رہیں ‘اس میں آپ کی محنت کو کوئی دخل نہیں ہے. آپ خواہ ڈاکہ ڈال کر ‘ غبن کر کے یا کسی اور طریقے سے ایک دفعہ بینک میں قدرے بھاری سی رقم رکھ دیں تو آپ کو ہر مہینے سود ملتا رہے گا اور آپ کھاتے رہیں‘ آپ کو محنت کی ضرورت نہیں‘ کسی بھاگ دوڑ کی ضرورت نہیں. پھر اس کی ایک اور چھوٹی بہن آئی اور وہ ہے جوا (speculation) ‘ جبکہ ایک تیسری بہن آئی انشورنس کے نام سے. انشورنس بھی اصل میں سرمایہ داری نظام کے تحفظ کاذریعہ ہے. 

بالفرض آپ نے کارخانہ لگایا ہے‘ چاہے ماچس فیکٹری ہی کیوں نہ لگائی ہو‘ آپ کا اس میں دس کروڑ روپیہ لگ گیا ہے. اب اس ماچس فیکٹری کو زمینی و آسمانی آفات سے نقصان پہنچ سکتا ہے‘ مثلاً آگ لگ سکتی ہے یا سیلاب بہا کر لے جا سکتا ہے‘ تو اس صورت میں سرمایہ دار کا نقصان بھی ماچس کا صارف (consumer) ہی ادا کرے گا. یعنی مالکان اس فیکٹری کا بیمہ کرائیں گے اور انشورنس کے لیے انہیں ہر مہینے یا ہر سال جو رقم ادا کرنی پڑے گی وہ اسے اپنی ماچس کی لاگت میں ڈال دیں گے. لہذا صارف اس ماچس کی لاگت ادا کرنے کے ساتھ ساتھ کارخانے میں لگے ہوئے سرمائے کے مستقبل کی حفاظت بھی کر رہا ہے. تو یہ تین چیزیں مل کر ایک معاشی نظام بناتی ہیں.

اس معاشی نظام کے خلاف کمیونزم کی شکل میں ایک بغاوت ہوئی تھی. کمیونزم میں سود ختم ہو گیا تھا‘ کیونکہ اس میں انفرادی ملکیت کا تصور ہی نہیں تھا. کمیونزم میں ہر چیز قوم کی ملکیت تھی. آپ کام کریں اور اجرت لیں‘ آپ کا کھانے کا بندوبست حکومت کے ذمہ ہے. لیکن اس سے آگے آپ کو کوئی حق نہیں ہے کہ آپ کوئی جماعت بنائیں‘ کوئی ایجی ٹیشن کریں‘ اپنی اجرت بڑھانے کے لیے کوئی جدوجہد کریں‘ کچھ بھی نہیں. اس نظام میں چونکہ غیر فطری انتہا پسندی تھی اس لیے یہ زیادہ دیر تک چل نہیں سکا. اب اس کی موت واقع ہو چکی ہے .صرف یہی ایک نظام تھا جو سرمایہ دارانہ نظام کو چیلنج کر رہا تھا. پچھلی صدی کے وسط میں یہ سیلاب کی طرح بڑھ رہا تھا اور مغربی سرمایہ دارانہ نظام اپنے گھر کے اندر کانپ رہا تھا. یہ بڑھتا چلا جا رہا تھااور آدھے سے زیادہ یورپ اس کے قبضے میں آگیا تھا‘ یہاں تک کہ یہ سینٹرل امریکہ میں پہنچ گیا تھا. کیوبا میں تو آج تک موجود ہے. پھر سوویت یونین کے علاوہ چین میں پہنچ گیا تھا‘ ہندوستان میں پہنچ گیا تھا‘ بنگال اور کیرالہ میں اس کی حکومتیں قائم ہو چکی تھیں. پھر اس سے بھی آگے بڑھ کر یہ کہ سوویت یونین خلا کی تسخیر (conquest of the space) میں امریکہ سے بہت آگے نکل گیا تھا. لہذا امریکہ کانپ رہا تھا. یہی وجہ ہے کہ اس زمانے میں امریکہ نے کروڑوں کی تعداد میں مذہبی کتابیں شائع کیں. مسلمانوں سے کہا گیا کہ خدا کے لیے قرآن پڑھو‘ دیکھو یہ کمیونزم تمہاری کتاب کے خلاف ہے. 

محمدمارمیڈوک پکتھال نے "The Glorious Quran" کے نام سے قرآن مجید کا جو ترجمہ بہت پہلے کیا تھا‘ انہوں نے اس کے لاکھوں نسخے شائع کر کے مفت تقسیم کیے. ہندوؤں کو ترغیب دی گئی کہ بھگوت گیتا پڑھو‘ اپنشد پڑھو. مجھے اُسی وقت اپنشد اور گیتا وغیرہ کے انگریزی ترجمے ملے تھے جن کا میں نے مطالعہ کیا تھا. ان کا اس سے یہی مقصود تھا کہ یہ مذاہب کمیونزم کے راستے میں رکاوٹ بنیں. پھر اس کے لیے NATOSEATO اور CENTO جیسے ادارے بنا دیے گئے تھے‘ تاکہ کمیونزم کا سیلاب کسی طریقے سے رک جائے‘ کیونکہ یہ ان کی معیشت کے لیے تباہ کن تھا. 

امریکہ اور روس کی جنگ کوئی مذہبی جنگ نہیں تھی‘ اس کا مذہب سے سروکار ہی نہیں تھا. سوویت یونین کے راہنما بھی عیسائی تھے اورمغربی یورپ اور امریکہ کے لوگ بھی عیسائی تھے. مذہبی اختلاف تو کوئی تھا ہی نہیں. بس اتنا ہی اختلاف تھا جتنا مسلمانوں کے مختلف مسلکوں میں ہوتا ہے کہ کچھ کیتھولک ہیں‘ کچھ پروٹسٹنٹس ہیں‘ کچھ Eastern Orthodox ہیں‘ کچھ Russian Orthodox ہیں اور کچھ Orthodox Greek ہیں. لیکن تھے تو وہ سب کرسچین ہی ‘سب کے سب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا بیٹا مانتے تھے ‘سب کے سب بائبل پڑھتے تھے. تو مذہب کی کوئی جنگ نہیں تھی. پوری نصف صدی تک جو سرد جنگ چلی ہے وہ ان دو معاشی نظاموں کے مابین تھی اور بالآخر چیلنج کرنے والا نظام بیٹھ گیا اور ختم ہو گیا. اس کے بٹھانے میں مسلمان کا خون استعمال ہوا. افغانستان میں جہاد کے نام پر صرف افغانوں نے نہیں بلکہ دور دراز کے ممالک سے آنے والے جانبازوں نے اپنا خون دیا ‘ جانیں دیں ‘ جبکہ امریکہ نے صرف پیسہ خرچ کیا‘ سٹنگر میزائل دیے‘ بڑی بڑی گاڑیاں دیں‘ ارب ہا ارب ڈالردیے. اور چونکہ وہ سب پاکستان کے ذریعے سے جا رہا تھا تو ہمارے جرنیلوں کے بھی وار ے نیارے ہو گئے. ڈالر وں سے بھرے ہوئے سوٹ کیسز وہ اپنے گھر بھی لے جاتے تھے. آج ان کے بیٹوں کی جو انڈسٹریز ہیں‘ وہ کہاں سے آگئیں؟ یہ جرنیل تو کبھی سائیکل پر چلا کرتے تھے‘ ان کے پاس کار تک نہیں ہوتی تھی. بہرحال سود پر مبنی سرمایہ دارانہ نظام جو پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے ‘یہ دوسرا لحاف ہے. پوری دنیا میں سود کی بنیاد پر بینکنگ سسٹم رائج ہے. 

(iii) معاشرتی نظام

اب نیچے آیئے! تیسرا لحاف ہے سماجی نظام‘ یہ ابھی پوری طرح نوعِ انسانی پر حاوی نہیں ہوا‘ البتہ مغرب میں حاوی ہو چکا ہے. اس کا اصول ہے آزاد جنس پرستی اور مردو زن کی مکمل مساوات. یعنی آپ جس طرح چاہیں اپنی جنسی خواہش کو پورا کریں ‘بس دونوں طرف سے رضامندی ہونی چاہیے‘ جبر نہیں ہونا چاہیے . زنا بالجبر قانون کی خلاف ورزی شمار ہوتا ہے‘ لیکن زنا بالرضا سرے سے کوئی جرم نہیں. اس کے نتیجے میں فیملی سسٹم برباد ہو گیا ‘ اولاد کو بھی والدین بلوغت کی قانونی عمر کے بعد گھر سے نکال دیتے ہیں‘ چاہے لڑکا ہو یا لڑکی‘ کہ خود جا کر کمائو اور کھائو‘ ہم پر اگر کچھ ذمہ داری تھی تو بس ایک خاص عمر تک تھی. ظاہر بات ہے پھر اولاد کو بھی ماں باپ کی کیا فکرہو گی؟ چنانچہ بڑھاپے میں ماں باپ کو Old Homes میں چھوڑ آتے ہیں کہ یہاں پر کھانا پینا ملتا رہے گا‘ البتہ ہمیں دیکھنا نصیب نہیں ہو گا‘ زیادہ سے زیادہ کوشش کریں گے کہ کرسمس میں آکرآپ کو اپنی شکل دکھا دیں ‘ لیکن اکثر و بیشتر والدین کرسمس کے موقع پر بھی ترستے رہ جاتے ہیں اورانہیں اپنی شکل دکھانے کے لیے کوئی نہیں آتا. یہ ہے سماجی نظام ‘جس میں پردے کا سوال ہی کیا‘ شرم کا سوال ہی کیا‘ عزت و عصمت کا سوال ہی کیا! یہ سماجی نظام آج کم از کم آدھی انسانیت پر تومسلّط ہو چکا ہے. البتہ ابھی کچھ افریقہ اور زیادہ تر ایشیا میں یہ نظام کسی درجے میں سابقہ حالت میں برقرار ہے‘ اگرچہ ہر ملک کا ایلیٹ (Elite) طبقہ اس نظام کو اختیار کر چکاہے .یعنی اوپر کا طبقہ بے پردگی‘ فحاشی‘ عریانی‘ آزاد جنس پرستی اختیار کر چکا ہے. زیادہ تر طلاقیں اسی وجہ سے ہوتی ہیں. جتنی شادیاں ہوتی ہیں ان میں اکثر جلد از جلد تحلیل ہو جاتی ہیں‘ طلاقیں ہو جاتی ہیں‘ خاندانی نظام چلتا ہی نہیں. یہ ہے تیسرا نظام.

البتہ مشرقی ممالک میں ابھی شرم و حیا کا کچھ عنصر جو باقی ہے اور خاندانی نظام کسی حد تک برقرار ہے تو مغرب کی طرف سے ایک زبردست تحریک چل رہی ہے کہ اس کو بھی ختم کر دیا جائے‘ یہ بھی ہم جیسے ہو جائیں‘ ان میں بھی لبرل ازم اور روشن خیالی آ جائے کہ اگر میری بیوی زنا کر رہی ہے تو کیا ہے! اس کی مرضی ہے. میری بیٹی آوارہ ہو گئی ہے تو مجھے کیا! وہ اپنے مستقبل کو خود خراب کر رہی ہے‘ اسے شادی کے لیے مرد نہیں مل سکے گا‘ وغیرہ وغیرہ. یہ لبرل ازم ہے‘ روشن خیالی ہے‘ یہ عورتوں کی آزادی ہے. یہ کیا کہ خاندانی نظام میں بیوی‘ شوہرکے تابع ہو؟ وہ دونوں برابر ہیں!اور جب دونوں برابر ہیں تو ’’میں بھی رانی تو بھی رانی‘کون بھرے گا پانی‘‘کے مصداق شادی کا بندھن‘ خاندانی بندشیں اور اخلاقی جواز کا معاملہ سب کچھ بے معنی ہے. چنانچہ آپ کے علم میں ہو گا کہ ۱۹۹۴ء میں قاہرہ میں بہبودِ آبادی کانفرنس منعقد ہوئی. اس کا ایجنڈا یہی عورت کی آزادی تھا. پھر۱۹۹۵ء میں بیجنگ کانفرنس ہوئی. ان کانفرنسوں کا مقصد یہ تھا کہ ایشیا اور افریقہ میں اگر خاندانی نظام کا کچھ تقدس باقی ہے‘ کوئی شرم و حیا اور عفت و عصمت کے تصورات باقی ہیں‘ خاندانی نظام کا کوئی سٹرکچر باقی ہے تو اس کو ہدف بنا کرختم کیا جائے.

اس کے بعد جون ۲۰۰۰ء میں بیجنگ پلس فائیو کانفرنس یونائیٹڈ نیشنز کی جنرل اسمبلی کے زیر اہتمام منعقد ہوئی اور اس میں جو فیصلے ہوئے ان میں پہلے نمبر پر یہ ہے کہ prostitution (طوائفانہ زندگی) کو بھی ایک قابل احترام پیشہ مانا جائے گا. اس کے لیے دلیل یہ دی جاتی ہے کہ ایک مزدور بھی تو کمائی کے لیے اپنی قوتِ بازو کو استعمال کرتا ہے . اگر وہ کسّی چلا رہا ہے‘ اینٹیں ڈھو رہا ہے تو آخر اپنے بازوؤں کی قوت استعمال کر رہا ہے‘ اسی طرح ایک عورت بھی کمائی کے لیے اپنے جسم کا ایک عضو استعمال کرتی ہے تو فرق کیا ہوا؟ دوسرے نمبر پر ہم جنس پرستی ہے‘ یعنی gays اور lesbians کی ہم جنسی تعلق کو بھی خلافِ فطرت نہیں‘ بلکہ ایک normal orientation سمجھا جائے. ان کے نقطہ نظر سے یہ تو مزاج کی بات ہے ‘کوئی اپنے مزاج کے اعتبار سے مخالف جنس سے اپنی شہوانی خواہشات کی تسکین کرتا ہے اور کوئی اپنے ہم جنس سے شہوانی خواہش پوری کر لیتا ہے تواِن میں کوئی امتیاز نہیں ہونا چاہیے. پھر یہ کہ عورت اور مرد بالکل برابر ہیں‘ ان کو وراثت میں برابر حصہ ملے گا‘ عورت کو بھی طلاق کا برابر حق حاصل ہو گاکہ وہ جب چاہے مرد کوطلاق دے دے ‘خلع کا کوئی تصور نہیں کہ عورت کسی بالاتر ادارے کے ذریعے سے ہی خلع حاصل کرے. ضروری نہیں کہ وہ پنچایت وغیرہ کو قائل کرے کہ ان اسباب کی بنا پر اب وہ اس شخص کے نکاح میں نہیں رہ سکتی‘بلکہ وہ جب چاہے مرد کو طلاق دے دے. پھر یہ کہ گھریلو ذمہ داریوں اور تولیدی خدمات پر وہ اپنے شوہر سے اجرت طلب کر سکتی ہے‘ کیونکہ وہ ایک طرح سے اس کی مزدور ہے. وہ گھر میں رہ کر کام کر رہی ہے تو اس کو اس کی مزدوری کا صلہ ملنا چاہیے . اگر وہ حمل کی تکلیف گوارا کرے اور بچے کی ولادت کا دکھ اور تکلیف برداشت کرے تو اس پر بھی وہ اجرت لے سکتی ہے.شوہر کو اس کی بھی قیمت اور مزدوری دینی پڑے گی.

تو یہ ہے وہ ایجنڈا جس کو سامنے لایا جا رہا ہے اور اس کو بہت خوبصورت نام دیا گیا ہے ’’Social Engineering‘‘ کہ ہمیں سماجی نظام کی ایک نئی تعمیر کرنی ہے. جیسے کسی بوسیدہ عمارت کو گرا دیا جائے تو ظاہر بات ہے کہ اب ماہرین تعمیرات چاہئیں جو نئی بلڈنگ کا نقشہ بنائیں‘ پھر کنٹریکٹر چاہئیں جو اس کی تعمیر نو کریں.تو یہ سوشل انجینئرنگ کا پروگرام ہے جو پوری دنیا کے نمایاں ترین اور اہم ترین ادارے یونائیٹڈ نیشنز کی جنرل اسمبلی نے پاس کیا ہے اوراس پر دستخط کرنے والے ممالک میں اسلامی جمہوریہ پاکستان بھی شامل ہے. چنانچہ اس ایجنڈے کی طرف پاکستان سب سے زیادہ تیزی کے ساتھ جا رہا ہے. یہی وجہ ہے کہ ہر سطح پر عورتوں کو ۳۳ فیصد نمائندگی دی جا رہی ہے. یونین کونسل ہو‘ لوکل باڈیز ہوں‘ صوبائی اسمبلیاں ہوں‘ ڈسٹرکٹ بورڈز ہوں‘ سٹی گورنمنٹس ہوں‘ نیشنل پارلیمنٹ ہو یاسینٹ ہو‘ہر جگہ عورتوں کو ۳۳ فیصد نمائندگی دی جانی ہے. اس طرح اس دوڑ میں ہم سب سے آگے نکل گئے ہیں‘ جبکہ پوری دنیا میں کسی سیکولر جمہوریت میں بھی ایسا نہیں ہے. بھارت دنیا میں سیکولر جمہوریت کا معجزہ قرار پاتا ہے‘ کیونکہ وہاں کے رہنے والوں کی تعداد بہت بڑی ہے اور پھر وہ ملٹی نیشنل‘ ملٹی ایتھنک اور ملٹی لنگوسٹک ملک ہے. ہم تو گن بھی نہیں سکتے جتنی زبانیں وہاں ہیں. ہر صوبے ‘ ہر سٹیٹ کی اپنی زبان ہے‘ لیکن وہاں سیاسی نظام جمہوریت کے تحت چل رہا ہے. مارشل لاء کا آج تک سوال ہی پیدا نہیں ہوا. زیادہ سے زیادہ ایک یا ڈیڑھ سال کے لیے ایمرجنسی عائد کی گئی تھی اور ایمرجنسی بھی دستوری ہوتی ہے ‘وہ ماورائے دستور نہیں ہوتی کہ کوئی جرنیل آیا اور اُس نے دستور کو اٹھا کر پھینکا‘ اپنا پی سی او بنایا اورججوں تک سے اس کا حلف لے لیا. بھارت جیسے ملک میں ایسا آج تک نہیں ہوا ہے‘اس لیے جمہوریت کا جو سب سے اونچا لحاف ہے بھارت کو اس کا معجزہ مانا جاتا ہے. لیکن وہاں بھی کہیں عورتوں کی نمائندگی اس معنی میں نہیں ہے. ہاں عورتیں الیکشن لڑ سکتی ہیں. ہمارے ہاں بھی یہی نظام تھا. چنانچہ بیگم عابدہ حسین الیکشن لڑتی تھیں‘کیونکہ وہ زمیندار ہے‘ جاگیردار ہے. اسی طرح بے نظیر بھٹو الیکشن لڑ کر آتی تھیں‘ لیکن عورتوں کے لیے علیحدہ سیٹیں نہیں تھیں. اور پھر اِس وقت یونائیٹڈ نیشنز اور باہرکی حکومتیں NGOs کو پیسے دے رہی ہیں اور NGOs اس ملک میں نیا نظام تعلیم لا رہی ہیں‘جس میں زیادہ توجہ عورتوں پر ہے تاکہ ان کے اندر یہ شعور پیدا ہو کہ ہم محکوم ہو کر کیوں رہیں!

تو یہ تیسرا معاملہ ہے جو مغرب میں تو اپنی انتہا کو پہنچ چکا ہے‘ یہاں تک کہ تین سال پہلے بل کلنٹن نے اپنے ایک سالانہ خطاب میں کہا تھا ’’عنقریب ہماری قوم کی اکثریت حرام زادوں پر مشتمل ہو گی‘‘. اُس نے حرام زادہ کے لیے bastard کا لفظ استعمال نہیں کیا تھا بلکہ کہا تھا : ’’born without any wed lock ‘‘ یعنی بغیر اس کے کہ عورت اور مرد کے مابین شادی کا بندھن ہو ‘ اولاد ہو رہی ہے .اسی کو ہم حرامی کہتے ہیں. خود یہودی اسی معنی میں (معاذ اللہ) حضرت عیسٰی علیہ السلام کو bastard کہتے ہیں. ان کا کہنا یہ ہے کہ حضرت مریم سلامٌ علیہا کایوسف نجار سے شادی کے لیے رشتہ تو ہو چکا تھا لیکن ابھی رخصتی نہیں ہوئی تھی‘ اس سے پہلے وہ جنسی تعلق قائم کر بیٹھے جس سے یسوع مسیح کی پیدائش ہوئی. معاذ اللہ‘ ثم معاذ اللہ ‘نقل کفر کفر نباشد! 

(iv)حاصل کلام

اب ان تینوں کو جوڑیئے. اس وقت صورتِ واقعہ یہ ہے کہ اڑھائی لحاف تو پوری دنیا کو اپنی گرفت میں لے چکے ہیں‘ تیسرا لحاف ابھی تک پورے طور پر مغرب میں ت و implement ہو چکا ہے ‘لیکن اب سپریم پاور امریکہ کی پوری طاقت استعمال ہو رہی ہے کہ یہ نظام پوری دنیا میں آ جائے. وہ کہتے ہیں ہم ایشیا کو modernize کرنا چاہتے ہیں‘ یعنی وہاں سیکولر سیاست گہری ہو جائے.عرب میں شریعت کی بنیاد پر کچھ قوانین نافذ ہیں‘ ایران نے شریعت کی بنیاد پر کچھ قوانین نافذ کیے ہوئے ہیں تو یہ تو سیکولرازم کی نفی ہو گئی‘ لہٰذا ان سب کو ختم کیا جائے. افغانستان میں مذہب کی بنیاد پر ایک قانونی ڈھانچہ کھڑا ہو رہا تھا تو ہم نے اسے جڑ سے اکھاڑ دیا‘ اور ’’Nip the evil in the bud‘‘ کا معاملہ کیا. اب باقی ساری قوتیں پوری دنیا میں بھی اسی نظام کو لانے پرصرف ہوں گی . ان تین لحافوں کا میں اب ایک نتیجہ نکال رہا ہوں. نوٹ کیجئے کہ مذہب کے خلاف اتنی بڑی بغاوت آج تک نہیں ہوئی. اس سے پہلے زیادہ سے زیادہ گمراہی کیا تھی! تصور یہ تھا کہ ایک بڑا خدا تو ہے ‘اس میں تو کوئی شک ہے ہی نہیں ‘البتہ اس کے ساتھ چھوٹے چھوٹے خدا بھی ہیں جو اس کے معاون ہیں ‘ اس کے پیارے اورلاڈلے ہیں‘ اس کے بیٹے یابیٹیاں ہیں‘ لہذا ان کی شفاعت (intercession) سے ہمارا بیڑا پار ہو جائے گا. چنانچہ ان کی مورتیاں بنا کر پوجو‘ ان کی ڈنڈوت کرو‘ عزت کرو‘ چڑھاوے چڑھاؤ تاکہ یہ بڑے خدا کے ہاں ہمارے شفیع ہو جائیں . قرآن مجید میں مشرکوں کا قول نقل ہوا ہے: ہٰۤؤُلَآءِ شُفَعَآؤُنَا عِنۡدَ اللّٰہِ (یونس:۱۸) ’’وہ اللہ کے ہاں ہمارے سفارشی ہوں گے‘‘. تو خدا کا انکار کہیں نہیں تھا. آپ کو معلوم ہے یورپ میں دو ہی تہذیبیں تھیں جو ’تہذیب‘ کے نام پر ابھری ہیں ‘ایک یونانی تہذیب اور دوسری رومی تہذیب. اور دونوں میں God (جوبڑی "G" سے لکھا جاتا تھا) ایک ہی تھا ‘جس کی تین صفات یہ تھیں کہ وہ omniscient‘omnipotent اور omnipresent ہے. یعنی وہ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ہے‘ عَلٰی کُلِّ شَیۡءٍ قَدِیۡرٌ ہے‘ اور ھُوَ مَعَکُمْ اَیْنَمَا کُنْتُمْ ’’وہ تمہارے ساتھ ہے جہاں کہیں بھی تم ہو‘‘. اسی طرح انڈیا میں ’مہادیو‘ ایک ہے‘ البتہ دیویاں اور دیوتا بے شمار ہیں. لیکن وہ مہادیو کے ہم پلہ تو نہیں سمجھے جاتے. رومی اور یونانی تہذیب کے gods and godesses بھی اس بڑے God کے ہم پلہ نہیں تھے. جیسے ہم کہتے ہیں: لَمْ یَکُنْ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ ’’کوئی بھی اس کا ہم پلہ اور مدمقابل نہیں ہے‘‘. عرب میں ’’اللہ‘‘ ایک ہی تھا ‘البتہ آلِھَۃ بہت سے تھے. لیکن آج دنیا میں جو یہ بغاوت ہوئی ہے کہ خدا کو اجتماعی زندگی سے بے دخل کر دیا گیا ہے کہ جاؤ مسجد‘ سینیگاگ‘ چرچ وغیرہ میں رہو‘ لوگ وہاں آکر تمہاری پوجا کریں گے‘ اس کے علاوہ نہ ہمارے گھر میں تمہارا عمل دخل ہوگا‘ نہ ہماری مارکیٹوں اور بینک میں کہیں تم داخل ہوسکتے ہو‘ نہ ہماری سیاست اور ریاست میں‘ نہ پارلیمنٹ میں‘ نہ سینٹ میں اور نہ ہماری عدالت میں. اس پر قرآن مجید کے یہ الفاظ صادق آتے ہیں : ظَھَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ’’بحر و بر میں فساد رونما ہو گیا ہے‘‘. ویسے تو اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ اس نظام کے آنے کے بعد ہی پچھلی صدی میں دنیا میں دو عظیم ترین عالمی جنگیں ہوئیں جن میں کروڑوں انسان قتل ہوئے. یہ ’’پہلی عالمی جنگ‘‘ اور ’’دوسری عالمی جنگ‘‘ کے نام سے جانی جاتی ہیں‘ لیکن اس سے قطع نظرفساد سے درحقیقت مراد ہے اللہ کے خلاف بغاوت. جیسے کہ قرآن مجید میں منافقین کے بارے میں کہا گیا ہے :

وَ اِذَا قِیۡلَ لَہُمۡ لَا تُفۡسِدُوۡا فِی الۡاَرۡضِ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّمَا نَحۡنُ مُصۡلِحُوۡنَ ﴿۱۱﴾ (البقرۃ:۱۱)

’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ پھیلاؤ تو وہ کہتے ہیں ہم تو اصلاح کرنے والے ہیں.‘‘ 

اصل میں منافقین کا موقف یہ تھا کہ بھئی قریش سے کیوں جنگ مول لے رہے ہو؟ تمہاری مت ماری گئی ہے‘ ایک دیو کے ساتھ ٹکرانا چاہتے ہو؟ صلح و صفائی سے کام لو. دشمن کو مارنا بھی ہے تو گڑ دے کر مارو! وہ جنگ کے خلاف تھے ‘کیونکہ اس میں جان جانے کا اندیشہ ہے‘ نیز مال بھی خرچ کرنا پڑتا ہے .ان کے اس طرزِ عمل کو فساد فی الارض کہا گیا ہے. اس لیے کہ اللہ اور اُس کے رسولﷺ کا حکم کچھ اور ہے اور یہ کچھ اور کہہ رہے ہیں‘ اپنی ڈفلی بجا رہے ہیں. اللہ اور اُس کے رسول کے خلاف تم بات کرو گے تو یہ فساد ہے. آج پوری دنیا اس فساد کی گرفت میں ہے. اور یہ فساد کیوں برپا ہواہے؟ اسی آیت میں آگے فرمایا گیا ہے: بِمَا کَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ ’’لوگوں کے اپنے ہاتھوں کے کرتوتوں کی وجہ سے‘‘. انسان نے خود یہ نظام بنائے ہیں. اللہ تعالیٰ نے انسان کو آزادی دی ہے کہ تم خود مختار ہو‘ جو کرو گے تم خود بھگتو گے اور تمہاری آنے والی نسلیں بھگتیں گی. عذابِ الٰہی آئے گا تو گیہوں کے ساتھ گھن بھی پسے گا ‘البتہ ہماری طرف سے تمہیں آزادی ہے‘ ہم زبردستی تمہیں روکیں گے نہیں کہ اس راستے پر مت جاؤ. اس لیے کہ زبردستی ہو توپھر جزا اور سزا کا ہے کی؟ انسان کو تو اختیار دیا گیا ہے کہ اِمَّا شَاکِرًا وَّ اِمَّا کَفُوۡرًا (الدھر:۳) ’’چاہے تو وہ شکر گزار رہے اور چاہے تو کفر کرے‘‘. ایک اور جگہ فرمایا: فَمَنۡ شَآءَ فَلۡیُؤۡمِنۡ وَّ مَنۡ شَآءَ فَلۡیَکۡفُرۡ (الکہف:۲۹) ’’پس جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے‘‘. ہم نے تمہیں اپنی پسند وناپسند کا اختیار دیا ہے. تو یہ درحقیقت تمہارے ہاتھوں کے کرتوتوں کے نتیجے میں ہوا. آگے فرمایا: لِیُذِیْقَھُمْ بَعْضَ الَّذِیْ عَمِلُوْا ’’تاکہ اللہ تعالیٰ انہیں مزہ چکھائے ان کے کچھ اعمال کا‘‘. سارے اعمال کا مزہ تو وہ آخرت میں چکھائے گا‘ جہنم میں لوگ موت مانگیں گے کہ کاش موت آ جائے لیکن موت نہیں آئے گی ثُمَّ لاَ یَمُوْتُ فِیْھَا وَلَا یَحْیٰیز (الاعلیٰ:۱۳) ’’پھر اس (جہنم) میں نہ وہ مرے گا نہ جئے گا‘‘. تو اصل اور پوری سزا تو تمہیں وہاں ملے گی‘البتہ تمہارے کرتوتوں کی کچھ سزا ہم یہیں دے دیں گے. اور اس سزا کی بھی ایک حکمت ہے. فرمایا: لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَز ’’شاید کہ یہ لوٹ آئیں‘‘. شاید کہ ٹھوکر کھا کر سنبھل جائیں. شاید کہ عذابِ الٰہی کے جھنجوڑنے سے یہ جاگ جائیں.

میری گفتگو کا اب تک کا حاصل یہ ہے کہ یہ جو ہمار ا Globe ہے اس پر تین لحاف چڑھے ہوئے ہیں. شر م و حیا اور عفت و عصمت تار تار ہے. سود‘ جوا اور انشورنس کی بنیاد پر سرمایہ دارانہ نظام قائم ہے اور سیکولر نظامِ حکومت ہے. اور اس کی چوٹی پر امریکہ بیٹھا ہوا ہے.بائبل میں یوحنا کا ایک مکاشفہ درج ہے کہ ’’… میں نے قرمزی رنگ کے حیوان پر جو کفر کے ناموں سے لپاہوا تھا اور جس کے سات سر اور دس سینگ تھے ‘ایک عورت کو بیٹھے ہوئے دیکھا. یہ عورت ارغوانی اور قرمزی لباس پہنے ہوئے اور سونے اور جواہر اور موتیوں سے آراستہ تھی اور ایک سونے کا پیالہ مکروہات یعنی اس کی حرام کاری کی ناپاکیوں سے بھرا ہوا اس کے ہاتھ میں تھا …‘‘ وہ آبرو باختہ عورت امریکہ ہے جو آج کفر کے ناموں سے لپے ہوئے دیوہیکل حیوان کی پیٹھ پر سوار ہے. وہاں کی اکثریت کہتی ہے: 

"We are living together but we are not married"

یعنی ہم ساتھ رہ رہے ہیں‘ بچے ہو رہے ہیں‘لیکن ہمارے درمیان شادی کا بندھن نہیں. اسی بنیاد پر تو کلنٹن نے کہا تھا ’’عنقریب ہماری قوم کی اکثریت حرام زادوں پر مشتمل ہوگی‘‘. یوحنا کی انجیل کے آخری باب مکاشفہ (Revelations) کے باب ۱۷ میں یہ مکاشفہ بڑی تفصیل سے بیان ہوا ہے اور وہاں اس آبرو باختہ عورت کے لیے کسبی (harlet) کا لفظ استعمال ہوا ہے. میرے نزدیک اس تشبیہ سے اصل مراد یہ ہے کہ اسرائیل وہ harlet ہے جو آج عیسائی دنیا کی پیٹھ پر سوار ہے‘ لیکن میں یہاں وہ تشبیہ امریکہ کے لیے استعمال کر رہا ہوں کہ جو اِن تین لحافوں میں لپٹے ہوئے اس کرۂ ارض پر سوار ہے.