اب تیسری سطح پر آیئے. یہ ذرا مخفی سطح ہے‘ کیونکہ آج دنیا میں مذہب سے بہت زیادہ دلچسپی نہیں ہے اور یہ معاملہ خالصتاً مذہبی ہے. اس لیے عام طور پر تو لوگ اس کے بارے میں گفتگو بھی پسند نہیں کرتے. وہ یہ کہ یہود و نصاریٰ کے درمیان ایک مذہبی چپقلش بھی صدیوں سے چلی آرہی تھی. اس مذہبی چپقلش میں سب سے فعال یہودی ہیں‘ جو اپنی کئی صدیوں کی جدوجہد اور محنت کے نتیجے میں عیسائی دنیا کو فتح کر چکے ہیں. لیکن سب عیسائی ایک جیسے نہیں ہیں. رومن کیتھولک نے بھی اگرچہ ہتھیار ڈال دیے ہیں لیکن ان کے دلوں میں یہودیوں کی محبت نہیں ہے.آج بھی فرانس کے اندر Anti Semetism پھر سر اٹھا رہا ہے اور فرانسیسی حکومت بڑی تشویش میں ہے. عیسائیوں کے دلوں میں یہودیوں کے خلاف غصہ اور نفرت ہے کہ انہوں نے ہمارے خدا کے بیٹے کو سولی چڑھایا تھا‘ لیکن مجموعی طور پر وہ ہتھیار پھینک چکے ہیں. ان کا پوپ یہودیوں کو حضرت عیسٰی علیہ السلام کے سولی دیے جانے کے الزام سے بری کر چکا ہے. 

(i)صہیونیوں کا پروگرام

اب ان یہودیوں کا پروگرام کیا ہے؟ ان کا کہنا یہ ہے کہ’’ ہم خدا کے برگزیدہ و چنیدہ بندے ہیں ‘‘( We are the chosen people of the Lord) . پورے انسان صرف ہم ہیں. باقی انسانوں کو وہ Gentiles یا Goyims کہتے ہیں کہ یہ انسان نہیں ہیں ‘انسان نما حیوان ہیں‘ اور حیوانوں کا استحصال کرنا انسانوں کا حق ہے. آپ گھوڑے کو ٹانگے کے اندر جوت دیتے ہیں‘ یہ آپ کا حق ہے. آپ بیلوں کو ہل کے اندر جوت دیتے ہیں‘ یہ آپ کا حق ہے. آپ بکری‘ گائے‘ بیل‘ اونٹ کا گوشت کھاتے ہیں‘ یہ آپ کا حق ہے. اسی طرح وہ کہتے ہیں کہ ہمارا حق ہے کہ ان Gentiles اور Goyims کو جس طرح چاہیں لوٹیں‘ جس طرح چاہیں ان سے خدمت لیں اور جس طرح چاہیں ان کا خون چوسیں. یہ ان کے تالمودمیں ہے جو ان کی فقہ کی کتاب ہے. اس کتاب میں صاف لکھا ہے کہ Gentiles کو دھوکہ دینا‘ ان کو لوٹ لینا‘ان کا مال چوری کرنا‘ ان کو قتل کرنا‘ ان کا خون چوسنا‘ ان کا استحصال کرنا یہودیوں کا حق ہے .یہ ہے تالمود کی تعلیم. قرآن مجید میں اس کا ذکر بایں الفاظ کیا گیا ہے : قَالُوۡا لَیۡسَ عَلَیۡنَا فِی الۡاُمِّیّٖنَ سَبِیۡلٌ (آل عمران:۷۵) ’’وہ کہتے ہیں کہ اِن اُمِّیّٖنَ (غیر یہودیوں) کے بارے میں ہم سے کوئی مواخذہ نہیں ہو گا‘‘. وہ کہتے ہیں یہ اُمِّیّٖنَ (Gentiles) ہیں‘ جن کے پاس کوئی کتاب نہیں ہے‘ کتاب تو ہمارے پاس ہے یعنی تورات‘ کیونکہ وہ قرآن اور انجیل کوتو مانتے نہیں ہیں .وہ کہتے ہیں کہ اُمِّیّٖنَ کے بارے میں ہم پر کوئی پرسش نہیں ہے ‘ہم جو چاہیں ان کے ساتھ کریں. لہذا وہ دنیا پر ایسا غلبہ چاہتے ہیں کہ انسانیت کو حیوانیت کی سطح پر لے جائیں. چنانچہ ان کا بینکنگ سسٹم کے ذریعے جو معاشی پروگرام ہے‘ یعنی ورلڈ بینک ‘ آئی ایم ایف ‘ TRIPS کا معاہدہ وغیرہ‘ اس سے ان کے پیش نظر یہ ہے کہ پوری دنیا مزدوروں میں تبدیل ہو جائے‘ وہ بس کام کریں اور جو کچھ ان کی یافت ہو وہ بینک کے سود کی شکل میں ہم کھینچ لیں. ہمیں پوری دنیا پر حکومت نہیں کرنی‘ اگر ہم دنیا میں براہِ راست حکومت کریں گے تو دنیا میں بغاوت ہو گی‘ محکوم ہمارے خلاف بغاوتیں کریں گے ‘ہم انہیں قتل کر یں گے تو وہ بھی ہمیں قتل کریں گے! (آج یہودی فلسطینیوں کو قتل کر رہے ہیں تو فلسطینی بھی خود کش حملے کر کے کبھی بیس کبھی پندرہ یہودی مار دیتے ہیں) تو اس کی کیا ضرورت ہے ؟حکومت کرنے کا اصل مقصد تو یہی ہوتا ہے کہ ٹیکس لینا‘ ریونیو اکٹھا کرنااور بس. وہ ٹیکس اور ریونیوہم اپنے بینکنگ کے نظام کے تحت لے لیں گے. ساری دنیا کا کاروبار بڑی بڑی ملٹی نیشنل کارپوریشنوں کے ذریعے ہمارے ہاتھ میں ہو گا . آپ کو یاد ہو گا کہ کبھی گلی گلی سوڈا واٹر (aerated water) بنانے کی مشینیں لگی ہوتی تھیں. کسی کے پاس تھوڑا سا پیسہ ہوتا تھا تو وہ سوڈا واٹرکی بوتلیں بنا کر بیچا کرتا تھا‘ جبکہ اب آپ صرف ڈسٹری بیوٹر ہو سکتے ہیں. آپ سیون اپ‘ پیپسی اور کوکا کولا کے ڈسٹری بیوٹر ہوسکتے ہیں‘ خود تیار نہیں کر سکتے. پہلے کیا ہو تا تھا کہ غریب آدمی جھونپڑی کے اندر ڈھابہ کھول کر بیٹھا ہوا ہے‘ ایک چولہا جلا کر اُس کے اوپر کچھ پکاکر بیٹھا ہوا ہے. اب وہ سب کچھ ختم ہو رہا ہے. اب فائیوسٹار ہوٹل ہیں. اب تو دبئی میں سیون سٹار ہوٹل بن گیا ہے جہاں کئی ہزارڈالر ایک رات کا کرایہ ہے. اب تو پوری دنیا کے اندر ملٹی نیشنلز کاتسلط ہے. Pearl Continentals ہیں‘ شیرٹن کی chain ہے‘ ہالی ڈے ان کی chain ہے. یہ تو یہودیوں کا ایک پروگرام ہے کہ پوری دنیا کا معاشی استحصال کرنا ہے. اور اس میں اصول یہ ہیں کہ جیسے آپ گھوڑے کو تانگے میں جوت کر شام کو کچھ کمائی کرتے ہیں تو تھوڑا سا چارا‘ کچھ دال چنے گھوڑے کو بھی ڈالتے ہیں تاکہ وہ اگلے روز جوتے جانے کے قابل ہو جائے‘ یعنی کچھ نہ کچھ subsistence level اس کو بھی دینا پڑے گا. لہذا یہودیوں کا اصول ہے کہ تم محنت مزدوری کرو‘ تمہیں اجرت مل جائے گی ‘لیکن اس کی ملائی ہم کھینچ لیں گے. تو یہودیوں کا ایک پروگرام یہ ہے‘ جسے ان کی طرف سے گلوبلائزیشن کا نام دیا جا رہا ہے. اس گلوبلائزیشن کے خلاف اگر دنیامیں کہیں ردّعمل ہے تو یورپ اور امریکہ میں ہے‘ ہمیں تو پتا بھی نہیں کہ دنیا میں کیا ہو رہا ہے. ہمیں آگاہی ہی نہیں ہے‘ ہماری ’’جان کاری‘‘ ہی نہیں ہے‘ ہمیں کیا پتا کہ نوعِ انسانی کی قسمت کے بارے میں کیا فیصلے ہو رہے ہیں. یہ گلوبلائزیشن کے لیے کبھی سی ایٹل (Seattle) میں جمع ہوتے ہیں تو کبھی ڈیووس (Davos) میں اور کبھی‘واشنگٹن میں. اور ہر مقام پر اس گلوبلائزیشن کے خلاف نہایت عظیم مظاہرے ہوئے ہیں.

لیکن ہمارا حال یہ ہے کہ ’’نہیں لیتے کروٹ مگر اہل کشتی پڑے سوتے ہیں بے خبر اہل کشتی!‘‘

ان کا دوسرا پروگرام عظیم تر اسرائیل کا قیام ہے کہ ہمیں عرب دنیا کے عین درمیان میں ایک بڑی مملکت ضرور بنانی ہے. یہ گریٹر اسرائیل ان تمام علاقوں پر مشتمل ہوگا جہاں کبھی یہودی قومی طور پر آباد رہے ہیں. ویسے تو وہ اپنے دورِ انتشار (Diaspora) میں پوری دنیا میں رہے ہیں‘ لیکن گریٹر اسرائیل میں وہ فلسطین‘ شام‘ ترکی کا مشرقی اور 

جنوبی حصہ‘ مصر کاجوشن جو دریائے نیل کا زرخیز ڈیلٹا ہے اور عراق کے علاوہ سعودی عرب کا شمالی حصہ‘ جس میں خیبر ہے جہاں یہودیوں کے قلعے تھے اور مدینہ منورہ جہاں ان کے تین قبیلے آباد تھے‘ ان علاقوں کو شامل کرنا چاہتے ہیں اور اس کی طرف پیش رفت ہو رہی ہے. چنانچہ عراق کو امریکہ نے فتح کیا تو شیرون نے کہا کہ عنقریب عراق پر ہمارا قبضہ ہوگا.
تیسری چیز جو اُن کے پیش نظر ہے وہ مسجد اقصیٰ اور قبہ الصخرہ کو گرا کر تیسرا معبد ِ سلیمانی (Third Temple of Solomon) تعمیر کرنا ہے. پہلا ٹیمپل حضرت سلیمان علیہ السلام نے بنایا تھا. ہم تو اسے مسجد کہیں گے‘ وہ ٹمپل کہتے ہیں. یہ ایک ہزار سال قبل مسیح میں بنا تھا‘ لیکن ۵۸۷ قبل مسیح میں عراق کے بادشاہ بخت نصر نے‘ جس کے ہاتھوں یہودیوں کی تباہی ہوئی‘ اس ٹمپل کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی. (اسی لیے اسرائیل کو سب سے زیادہ خطرہ عراق سے تھا کہ پہلے بھی ہماری تباہی ایک عراقی بادشاہ کے ہاتھوں ہوئی تھی) پھر اسے ڈیڑھ سو برس کے بعددوبارہ تعمیر کیا گیا. لیکن حضرت عیسٰی ں کے رفع سماوی کے چالیس برس بعد رومیوں کے جنرل ٹائٹس (تیطس) رومی نے اسے بھی گرا دیا اور ۷۰ عیسوی سے آج تک وہ گرا پڑا ہے. اسے تقریباً دو ہزار برس (۱۹۳۴برس) ہو چکے ہیں .وہ کہتے ہیں اب ہمیں اسے دوبارہ بنانا ہے. اس کی جگہ پر مسجد اقصیٰ بنا دی گئی تھی اور اس پتھر پر جہاں سے حضور‘ﷺ کا شب ِ معراج میں آسمانی سفر شروع ہوا تھا اُموی خلیفہ عبدالملک بن مروان نے ایک گنبد بنا دیا تھا‘ آپ بی بی سی وغیرہ پر دیکھتے ہیں کہ یروشلم سے کوئی نمائندہ بات کر رہا ہو تو پس منظر میں بہت بڑا سنہری گنبد ہوتا ہے . یہ قبّۃ الصخرہ (Dome of the Rock) ہے. تو وہ کہتے ہیں ان دونوں کو ہم گرائیں گے اور اپنا تیسرا معبد تعمیر کریں گے. 
معبد کی تعمیر کے بعد وہ یہاں دو کام کریں گے. ایک یہ کہ جانوروں کی قربانی کا دوبارہ آغاز ہو گا. یہودیوں کے ہاں سب سے بڑی عبادت قربانی ہے‘ نماز کی اتنی اہمیت نہیں تھی جتنی قربانی کی تھی ‘اور قربانی کے جانور ہیکل سلیمانی میں قربان گاہ پر قربان کیے جاتے تھے. ہیکل سلیمانی کے انہدام کے بعد سے وہ قربانی موقوف ہے. تو تیسرے معبد کی تعمیر کے بعد اس میں وہ قربانی دوبارہ شروع ہو گی. دوسرے یہ کہ حضرت داؤد علیہ السلام کا تخت لا کر جما دیا جائے گا اور وہاں ان کے ’’میسایاح‘‘ (Messiah) (حضرت مسیحؑ نہیں) کی تاج پوشی ہو گی جس کے وہ منتظر ہیں ‘جس کی تورات کے اندر پیشین گوئیاں ہیں. درحقیقت ان پیشین گوئیوں کے مصداق حضرت مسیح علیہ السلام تھے‘ لیکن جب وہ آئے تو ان کو یہودیوں نے مانا نہیں‘ بلکہ نعوذ باللہ bastard قرار دیا‘ کافر و مرتد قرار دیا اور اپنے بس پڑتے سولی پر چڑھا دیا. یہ دوسری بات ہے کہ اللہ نے انہیں آسمان پر اٹھا لیا. لہذا ان کے بقول ان کے میسایاحِ منتظر کی سیٹ خالی ہے. ان کے عقیدے کے مطابق جب وہ میسایاح آئے گا تو وہ اس تخت داؤد پر بیٹھ کر پوری دنیا پر حکمرانی کرے گا. اس ضمن میں انہیں عیسائیوں سے کوئی اندیشہ نہیں ہے‘ اس لیے کہ انہیں وہ اپنی گرفت میں لاچکے ہیں‘اب انہیں مخالفت صرف مسلمانوں کی طرف سے نظر آتی ہے. اس اعتبار سے اس وقت دنیا کے اندر مسلمانوں کے سب سے بڑے دشمن یہودی ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں کو کہیں سیاسی قوت حاصل نہ ہونے پائے. یہ ہے یہودیوں کا پروگرام. 

(ii)عیسائیوں کے مختلف فرقوں کے پروگرام

اب آیئے عیسائیوں کی طرف .عیسائیوں میں سب ایک جیسے نہیں ہیں‘جیسے ارشادِ باری تعالیٰ ہے : لَیۡسُوۡا سَوَآءً ؕ ’’وہ سب کے سب برابر نہیں ہیں‘‘. جیسے ہم کہتے ہیں 

نہ ہر زن زن است و نہ ہر مرد مرد !
خدا پنج انگشت یکساں نہ کرد!!

ان میں ایک پروٹسٹنٹ فرقہ ہے ‘جس کا امام پہلے برطانیہ تھا اب امریکہ ہے ‘اور یہ ایک نسل ہے جس کو White Anglo Saxon Protestants ) WASP ) کہتے ہیں. یہ سب یہود کے پشت پناہ اور مددگار ہیں‘ بلکہ اس وقت یہ مذہبی یہودیوں سے بھی زیادہ اسرائیل کے حمایتی ہیں. آج سے کوئی چھ سال پہلے یہ بات ہمیں ایک یہودی پروفیسر نے تنظیم اسلامی آف نارتھ امریکہ کے ہوسٹن میں منعقدہ کنونشن میں بتائی تھی. اس نے ایک حیران کن بات یہ بھی کہی تھی کہ : 

"Islam is the Ideal religion for whole of mankind except Jews."

گویا اُس نے عیسائیت ‘ ہندومت ‘ ہر چیز کی نفی کی‘ سوائے یہودیت کے. دوسری بات اُس نے یہ کہی کہ اسرائیل کی پشت پناہی ہم نہیں‘ بلکہ یہاں کے عیسائی کرتے ہیں. اسرائیل کی ساری معیشت کا دارو مدار امریکہ ہی پر ہے. پانچ ارب ڈالر تو انہیں ہر سال مل جاتے ہیں. باقی اگر کوئی کام امریکہ کہتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ ڈالر لاؤ ! موجودہ بش کے باپ سے انہوں نے فلسطین میں یہودیوں کی آبادکاری کے لیے دس ارب ڈالر مانگے تھے. اُس نے ایک شرط لگا دی کہ تم فلسطینیوں کے ساتھ امن مذاکرات شروع کردو ‘تب میں دوں گا. یہودی ناراض ہو گئے‘ انہوں نے پیچ و تاب کھائے‘ لیکن اُس وقت یہ شرط ماننی پڑی. لیکن اس کی سزا اُسے یہ دی کہ اگلے الیکشن میں وہ زیرو ہو گیا. اُس سے دس ارب ڈالر بھی لے لیے اور اس سے اپنی شرط نہ ماننے کابدلہ بھی چکا لیا.تو عیسائیوں میں ایک تو یہ پروٹسٹنٹ ہیں‘ خاص طور پر The Baptists اور اخص الخواص کی حیثیت سے The Evengelists جن کی امریکہ کے اندر اکثریت ہے اور وہ اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں. وہ بھی اس کے قائل ہیں کہ تیسری عالمگیر جنگ (آرمیگاڈان) جلد از جلد ہونی چاہیے‘ اس کے نتیجے میں گریٹر اسرائیل وجود میں آنا چاہیے‘ تھرڈ ٹمپل تعمیر ہونا چاہیے‘جہاں تخت ِ داؤد ؑ لا کر رکھا جائے. تب حضرت عیسٰی ؑ دوبارہ نازل ہوں گے اور اس تخت پر بیٹھ کر پوری دنیا پر حکومت کریں گے.یعنی پروگرام وہی ہے فرق صرف یہ ہے کہ وہ اپنے میسایاح کے منتظر ہیں اور یہ اپنے حضرت مسیحؑ کے . یہودیوں کے خیال میں ان کامیسایاح آئے گا اور تخت داؤد ؑ پر وہی بیٹھے گا‘جبکہ ان کے خیال میں حضرت عیسٰی علیہ السلام آسمان سے اتریں گے اور وہ تخت داؤد ؑ پر بیٹھیں گے.اس تخت داؤد کا پس منظر بھی سمجھ لیجئے. حال ہی میں مجھے ا س کے مطالعے کا موقع ملا. یہ ایک پتھر تھا جس پر حضرت داؤدعلیہ السلام کی تاج پوشی (coronation) ہوئی تھی. پھر اسی پتھر پر حضرت سلیمان علیہ السلام کی تاج پوشی ہوئی .وہ پتھر اُن کے ہاں چلا آ رہا تھا. ۷۰ عیسوی میں جب رومی جنرل ٹائٹس نے ہیکل سلیمانی تباہ کیا تو وہ اس پتھر کو روم لے گیا. روم سے وہ پتھر آ ئرلینڈ چلا گیا جو بہت بڑی کیتھولک آبادی ہے. (آج بھی آ ئرلینڈ میں کیتھولک اور پروٹسٹنٹس کے اندر جنگ ہو رہی ہے .)وہاں سے وہ پتھر چودہویں صدی عیسوی میں انگلینڈ آیا تو اسے تخت کی صورت دے دی گئی. یعنی تخت کی سیٹ اسی پتھر کی بنی ہوئی ہے. یہ تخت اب انگلینڈ کی پارلیمنٹ کی عمارت سے ملحقہ چرچ ’’ویسٹ منسٹر ایبے‘‘ میں رکھا ہے اور اسی پر بٹھا کر انگریز حکمرانوں کی تاج پوشی کی جاتی ہے. یہ روایت ابھی تک چلی آ رہی ہے. تو ان کا خیال ہے کہ اس معبد میں وہ تخت بھی ہم لا کر رکھ دیں گے اور پھر حضرت مسیحؑ نازل ہوں گے تو اس تخت پر تشریف فرما ہوں گے.

اب یہ دونوں چیزیں ساتھ ساتھ جارہی ہیں. تھوڑا سا اختلاف اگر ہے تو یورپ کی سب سے بڑی طاقت میں ہے. سینٹرل یورپ کی اصل قوتیں فرانس اور جرمنی ہیں‘ باقی چھوٹے چھوٹے ملک ہیں. انگلینڈ تو ویسے بھی اصل یورپ سے علیحدہ ایک جزیرہ ہے اور وہ اس وقت ہر اعتبار سے امریکہ کا ضمیمہ ہے. تو یہ جو اختلاف ہے کہ جرمنی اور فرانس ایک طرف ہیں اور یہ عراق کی جنگ سے علیحدہ رہے‘ یہ اختلاف صرف سیاسی نہیں ہے‘ یہ صرف اپنے آپ کو عالمی سطح پر منوانے کا مقابلہ نہیں ہے ‘بلکہ یہ اختلاف مذہبی بھی ہے‘ وہ کیتھولکس ہیں یہ پروٹسٹنٹس ہیں ‘اور پروٹسٹنٹس کیتھولکس کو کافر (Infidels) اور پوپ کو شیطان کہتے ہیں. "The Philadelphia Trumpet" کے نام سے ان کا ایک ماہنامہ رسالہ فلاڈلفیا (امریکہ) سے نکلتا ہے کچھ عرصہ سے میں اس کو دیکھ رہا ہوں. ان کا کہنا یہ ہے کہ اصل میں یورپ جو اِس وقت ایک ہو رہا ہے یہ معاملہ سیاسی نہیں مذہبی ہے اور اس میں اصل متحرک طاقت پوپ کی ہے. اورموجودہ پوپ واقعتا ایسا ثابت ہوا ہے جس نے پوری دنیا میں move کیا ہے. اس سے پہلے پوپ اپنے گھر ویٹیکن میں بیٹھا رہتا تھا ‘باہر نہیں نکلتا تھا‘جبکہ یہ پوپ شدید ترین بڑھاپے کے باوجود دنیا بھر کے سفر کر رہا ہے. یہ مقدس رومی سلطنت (Holy Roman Empire) کا دنیا میں دوبارہ احیاء کرنا چاہتا ہے‘ جو پورے یورپ‘ شمالی افریقہ اور مغربی ایشیا کے بہت سے علاقوں پرچھائی ہوئی تھی. اور یورپ کی یہ قوتیں چاہتی ہیں کہ فلسطین کو فتح کریں ‘یعنی اسرائیل بھی ختم کریں اور فلسطینی سٹیٹ بھی ختم کریں اور وہاں پر ایک رومن کیتھولک حکومت قائم کریں. 
’’نیوز ویک ‘‘میں فلسطین کے بارے میں ایک بڑا پیارا جملہ میری نظر سے گزرا تھا: 

".Too small a geography but too big a history"

اس سے پانچ ہزار سال کی تاریخ وابستہ ہے. یہی حضرت ابراہیم‘ اسحق اور یعقوب (علیہم السلام) کا مسکن تھا. چنانچہ یہودیوں کا بھی مقدس ترین مقام یہی ہے. پھر حضرت عیسٰی علیہ السلام یہیں پیدا ہوئے‘ یہیں یہودیوں کے بقول سولی چڑھے. یہیں انہوں نے گلیلی اور مختلف علاقوں میں تبلیغ کی ‘یہیں وہ کوہِ زیتون ہے جس پر آپؑ نے اپنا تاریخی وعظ Sermon of the Mount کہا. لہذا یہ عیسائیوں کا بھی بہت محترم مقام ہے. مسلمانوں کا بھی یہ مقدس مقام ہے اور وہ اسے تیسرا حرم کہتے ہیں. پہلا حرم مکی ہے‘ دوسرا حرم مدنی ہے اور تیسرا ’’الحرم الشریف‘‘ مسجد اقصیٰ ہے. یہیں سے حضرت محمدﷺ کا آسمان کی طرف معراج شروع ہوا تھا. جغرافیائی اعتبار سے یہ واقعتا بہت چھوٹا سا خطہ ہے‘ اس کا رقبہ محض ہماری سابقہ ریاست بہاولپور کے برابر ہوگا‘ لیکن تاریخ اور مذاہب کے اتصال (confluence) کے اعتبار سے اس کی اہمیت بہت زیادہ ہے. لہذا یہودیوں ‘ پروٹسٹنٹ عیسائیوں اورکیتھولک عیسائیوں کے اپنے اپنے نقشے اور منصوبے ہیں. عیسائیوں نے انڈونیشیا کے جزیرے تیمور کو تقسیم کرا کر وہاں ایک رومن کیتھولک حکومت قائم کی ہے. نائجیریا میں مسلمانوں اور عیسائیوں میں جو شدید ترین فسادات ہوئے ہیں وہاں بھی عیسائیوں کا اصل مقصد ایک رومن کیتھولک حکومت قائم کرنا ہے. ماہنامہ ’’فلاڈلفیا ٹرمپٹ‘‘ میں ایک عنوان قائم ہوا ہے: ’’The Last Crusade‘‘ . پروٹسٹنس کا یہ الزام ہے کہ آخری صلیبی جنگ اب ہونے والی ہے. اب ساری یورپی قوتیں جمع ہوکر حملہ کریں گی اور فلسطین میں عیسائی حکومت قائم ہو جائے گی. آپ نوٹ کیجئے پہلی صلیبی جنگیں دوسرے ملینیم کے آغاز میں شروع ہوئی تھیں. حضرت عیسٰی علیہ السلام کے ایک ہزار سال بعد پہلا ملینیم ختم ہو گیااور دوسرا ملینیم ۱۰۰۱ء سے شروع ہو گیا . دوسرے ملینیم کے شروع میں صلیبی جنگوں کا آغاز ہوا اور ۱۰۹۹ء میں انہوں نے بیت المقدس کو فتح کر لیا. اب ۲۰۰۱ء سے تیسرا ملینیم شروع ہوا ہے اور یہ آخری کروسیڈ ہو گا کہ یورپ کی رومن کیتھولک قوتیں فلسطین پر حملہ آور ہوں گی اور یہاں ایک رومن کیتھولک حکومت قائم کرنا چاہیں گی. 

(iii)تمام عیسائیوں کا مشترک ایجنڈا

اس ضمن میں ایک بات مزید نوٹ کر لیں کہ رومن کیتھولک اور پروٹسٹنٹس کا آپس میں خواہ کتنا ہی مذہبی اختلاف ہو ‘اور فرانس اور جرمنی کا سیاسی اور عسکری اعتبار سے امریکہ سے کتنا ہی اختلاف ہو ‘ایک چیز پر وہ متفق ہیں. ایک تو یہ کہ انہوں نے پورے فلسطین کو مسلمانوں سے آزاد کرانا ہے اور دوسرے یہ کہ ان کے نزدیک مسلمانوں کے دماغ میں جو یہ خناس پیدا ہو گیا ہے کہ ہمارا ایک نظام ہے جس کو ہم قائم کریں گے‘ اس خناس کو واش آؤٹ کرنا ہے. اس پس منظر میں اب آپ ایک بات سوچئے! بہت اہم بات ہے. امریکی مفکرین کہتے ہیں:

"We are not against Islam, we are not going to war against Islam, we want a war within Islam."

اس کا کیا مطلب ہے ؟ درحقیقت اسلام دو ہیں. اسلام کا ایک مذہبی تصور ہے کہ مسلمان ایک خدا کو مانتے ہیں‘ اُس کی نماز پڑھتے ہیں‘ اُس کے حکم پر روزے رکھتے ہیں‘ اُس کے حکم کے مطابق حج و عمرہ کرتے ہیں‘ جن کو اللہ توفیق دے وہ زکوٰۃ بھی دیتے ہیں. ان کے کچھ عقائد ہیں ‘ کچھ تقاریب ہیں‘ عیدیں ہیں‘ یعنی عید الاضحی اور عید الفطر . پھر ان کے کچھ سماجی رسوم و رواج ہیں. بچہ پیدا ہوتا ہے تو عقیقہ کرتے ہیں‘ شادی کرنی ہو تو نکاح ہوتا ہے اور کسی کے مر جانے پر اسے جلاتے نہیں بلکہ دفن کرتے ہیں. اس کے علاوہ شراب نہیں پیتے‘ سور نہیں کھاتے. یہ مذہب ہے. جبکہ ایک اسلام ہے بطورِ دین. اس کا ایک سیاسی نظام ہے‘ ایک معاشی نظام ہے‘ ایک سماجی نظام ہے .تو وہ کہتے ہیں ہماری ساری جنگ اسلام بطورِ دین کے خلاف ہے‘ اسلام بطورِ مذہب کے خلاف نہیں ہے.

ان کا یہ کہنا کسی حد تک درست ہے کہ ہم مذہب اسلام کے خلاف نہیں ہیں‘ اور اس کی وہ گواہیاں دیتے ہیں کہ دیکھو تم یہاں آتے ہو اور کالوں اور گوروں کو مسلمان کر لیتے ہو ‘ہم نے کبھی اعتراض نہیں کیا. تم یہاں آکر ہمارے چرچ اور سینیگاگ خریدتے ہو اور مسجد بنا لیتے ہو‘ ہم نے کبھی اعتراض نہیں کیا. تم نمازیں پڑھتے ہو ‘ہم نے اعتراض نہیں کیا. یہ ضرور ہے کہ آپ کام کے اوقات میں نماز نہیں پڑھ سکتے. البتہ ان میں کچھ لوگ اتنے بامروّت (considerate) ہوتے ہیں کہ کام کے اوقات میں بھی وہ وقت دے دیتے ہیں کہ ظہریا عصر کی نماز پڑھ لو ‘ورنہ عام مسلمان وہاں مجبور ہے. چنانچہ ایک گھنٹہ کا جو دوپہر کے کھانے کا وقفہ ہوتا ہے اسی میں وہ ظہر اور عصر پڑھ لیتے ہیں اورپھر گھر جا کر مغرب اور عشاء ادا کرتے ہیں. لیکن بہرحال ان کا موقف یہ ہے کہ تمہاری نماز پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے. روزے رکھتے ہو توہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے. اسلام بطورِ مذہب سے تو ہماری جنگ نہیں ہے. بلکہ ہم رمضان میں وائٹ ہاؤس میں افطاری بھی دے دیں گے اور بہت سے لوگوں کو بلا لیں گے کہ آؤ روزہ افطار کرو. اور عید کے موقع پر کوئی یادگاری ٹکٹ بھی جاری کر دیں گے. تو اس اسلام سے ان کی کوئی جنگ نہیں ہے. وہ کہتے ہیں کہ ’’We are ready to embrace it‘‘ اس لیے کہ سیکولرازم کا اصول ہی یہ ہے. سیکولرزم لامذہبیت نہیں ہے ‘لادینیت ہے. مطلب یہ ہے کہ ایک سیکولر ملک میں تمام مذاہب رہ سکتے ہیں. ہندو اور سکھ وہاں ٹمپل اورگوردوارے بنا سکتے ہیں ‘وہاں تمام مذاہب کو کھلی اجازت ہے. ان کی طرف سے آزادی ہے کہ چاہے ایک خدا کو پوجو‘ ہزار کو پوجو ‘ درختوں کو پوجو‘ سانپ کو پوجو‘ بتوں کو پوجو‘ جس کو چاہو پوجو. چاہے ٹمپل بناؤ اور اس میں جو چاہو بھجن گاؤ ‘ چاہے گروگرنتھ کے سامنے ماتھا ٹیکو‘ انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے. اسی طرح اسلام بطورِ مذہب سے بھی ان کی کوئی جنگ نہیں ہے. لیکن ان کا کہنا ہے کہ ہم اسلام کو بطورِ دین کبھی برداشت نہیں کر سکتے‘ اس کو ہم نے ختم کرکے دم لینا ہے.

نوٹ کر لیجئے کہ پچاس برس تک عالمی طاقتوں کی جو سرد جنگ چلی ہے وہ مذہب کی بنیاد پر نہیں تھی‘ نظام کی بنیاد پر تھی‘ یعنی سرمایہ دارانہ نظام بمقابلہ اشتراکی نظام. اشتراکی نظام میں انفرادی ملکیت کے بجائے قومی ملکیت کا تصور تھا‘ لہذا اس میں سود کا بھی خاتمہ تھا. تو آج اصل میں مغرب کی جنگ دین اسلام کے خلاف ہے جو طے کی جا چکی ہے. اسی لیے وہ کہتے ہیں ’’War within Islam‘‘ یعنی وہ مذہبی تصور والے عناصر کو اسلام کو بطورِ دین ماننے والوں اور نظام کی بات کرنے والوں کے ساتھ ٹکرا دینا چاہتے ہیں. ہمارے علماء کی اکثریت اسلام کو ایک مذہب کی حیثیت سے جانتی ہے‘ دین کی حیثیت سے اسلام ان کے سامنے ہے ہی نہیں. تبلیغی جماعت بھی اسلام کو مذہب کے طور پر مانتی ہے. ان کے پیش نظر انفرادی ترجیحات مثلاً نماز‘ روزہ ‘ ڈاڑھی‘ ٹخنوں سے اوپر شلوار وغیرہ ہیں. ان کو نظام سے کوئی بحث نہیں‘ نظام کوئی بھی ہو. وہ چاہتے ہیں کہ مذہبی لوگ نظام کے علمبرداروں کو crush کر دیں‘ لہذا وہ مذہبی لوگوں کی حمایت کریں گے. اس سے انہیں دو مقاصد حاصل ہو جائیں گے. ایک تو مذہبی لوگوں کے سامنے یہ بات واضح ہو جائے گی کہ یہ مذہب کے خلاف تو ہیں ہی نہیں. وہ سوچیں گے کہ خواہ مخواہ کچھ لوگ ہمیں بہکاتے ہیں ‘ یہ اسلام کے خلاف کہاں ہیں؟ ہو سکتا ہے وہ مسجد بنانے کے لیے آپ کو عطیات دے دیں‘ ان کے لیے اس میں کوئی حرج نہیں ہے . تبلیغی جماعت کے وفود امریکہ میں چکر لگائیں تو اس پر انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے. اس لیے کہ یہ وفود نظام کی بات نہیں کرتے. اور نظام کی بات کون کرتے ہیں؟ یہ میں چاہتا ہوں کہ اسے آپ ذرا سمجھ لیں .