اسلام کے نظام عدلِ اجتماعی کے قیام کے جذبے کا تاریخی پس منظر


اصل میں ہوا کیا ہے! آج سے نصف صدی قبل تک‘ کہیں سو برس سے‘ کہیں دوسوبرس سے اور کہیں تین سو برس سے یورپ کی نوآبادیاتی طاقتیں عالم اسلام پر قابض تھیں. ہمارے ہاں انگریز تھا‘ ملایا وغیرہ کے اندر ولندیزی تھے‘ مصر اور عراق میں بھی انگریز تھے‘ شام میں فرانسیسی تھے‘ لیبیا میں اطالوی تھے. ان استعماری طاقتوں نے ہمیں دبایا ہوا تھا. اور اُس وقت ہمیں جو آزادی تھی وہ صرف مذہبی آزادی تھی‘ دین کی آزادی نہیں تھی. دین تو اُن کا تھا‘ پینل کوڈ اُن کا تھا‘ تعزیرات اُن کی تھیں‘ فوجداری قوانین اُن کے تھے. زیادہ سے زیادہ انہوں نے ہمارے ساتھ یہ رعایت کی تھی ‘اور یہ بہت بڑی رعایت تھی ‘ کہ تم اپنے عائلی قوانین پر عمل کر سکتے ہو. یعنی نکاح جیسے چاہے کرو‘ طلاق جیسے چاہے دو ‘اس معاملے میں سارے فتوے اپنے مولویوں سے لے لو ‘ہمیں کوئی فکر نہیں ہے‘ ہمارے پاس بھی اگر آئے تو ہم تم سے پوچھ لیں گے کہ تم شریعت کا حکم چاہتے ہو یا رواج کا؟ تم رواج کا کہو گے توہم اس کے مطابق فیصلہ کر دیں گے ‘ شریعت کا کہو گے تواس کے مطابق فیصلہ کر دیں گے. ’’Mohammadan Law‘‘ نامی کتاب ایک پارسی کی لکھی ہوئی تھی. اسی طرح وراثت کے قانون میں آزادی تھی کہ تم مالِ وراثت صرف بیٹوں کو دینا چاہو ‘ صرف بڑے بیٹے کو دینا چاہو یا بیٹیوں کو بھی دینا چاہو تمہیں اختیار ہے. وہ پوچھ لیا کرتے تھے کہ آپ وراثت کے معاملے میں شریعت کا فیصلہ چاہتے ہیں یا رواج کا؟ ہمارے بڑے زمیندار کھڑے ہو کر کہتے تھے ’’رواج کا !‘‘ گویا شریعت ہمیں نہیں چاہیے. بیٹیوں کو وراثت میں حصہ دے دیں؟ یہ نہیں ہو سکتا . حالانکہ یہ رعایت بھی سیکولرزم کے خلاف ہے. 

آج امریکہ میں آپ کو اپنے عائلی قوانین (Family Laws) پر عمل کی اجازت نہیں ہے. وہاں رہیں گے تو ان کے عائلی قوانین کے مطابق آپ کو رہنا ہو گا . طلاق وغیرہ کے معاملے میں جو اُن کا قانون ہے اس کی پیروی کرنی ہو گی. اور بھارت یہی زور لگا رہا ہے. بی جے پی کے منشورکا سب سے اہم حصہ ( CCC ( Common Civil Code ہے کہ ہندوستان کی سب قوموں کے عائلی قوانین ایک ہوں گے. ان کا کہنا ہے کہ مسلمان جب ہمارے ساتھ رہتے ہیں تو فیملی لاز ایک سے ہونے چاہئیں. سیکولرزم میں تو قوم ایک ہوتی ہے. قوم ایک ہے تو خاندانی قوانین بھی ایک ہونے چاہئیں. یہ کیا کہ نکاح و طلاق کے ان کے اپنے اصول ہیں؟ بہرحال انگریز نے ہمیں رعایت دے رکھی تھی کہ عائلی قوانین یعنی نکاح و طلاق کے قوانین میں تمہیں آزادی ہے‘ یہاں تک کہ وراثت تم اپنے قوانین کے مطابق تقسیم کر سکتے ہو. لیکن جب یہ نوآبادیاتی نظام تتر بتر ہونا شروع ہوا‘ ولندیزی ملایا (سماٹرا ‘ جو اَب انڈونیشیا کہلاتا ہے) سے چلے گئے‘ انگریز نے ہندوستان سے بستر باندھا‘ فرانس نے شام سے بستر تہہ کیا‘ صدر ناصر نے برطانیہ کو اٹھا کر بحیرۂ روم میں پھینک دیا‘ اٹلی لیبیا سے اور فرانس مراکو سے چلا گیا‘ تو مسلمانوں کے ایک خاص طبقے میں ایک خیال پیدا ہوا کہ ہمارا بھی تو ایک نظام ہے. یہ انگریز کا لایا ہوا بھی ایک نظام تھا‘ فرانسیسیوں کا دیا ہوا نظام بھی ایک نظام تھا‘ اور ہمارا بھی ایک نظام ہے‘ ہم کیوں نہ اس کو نافذ کریں! 

یہ اصل میں اس آزادی کا ایک ثمرہ تھا کہ مسلمانوں میں ایک خود آگاہی پیدا ہوئی‘ اور انہوں نے اسلام کو بطور ایک دین کے سمجھا. لہذا احیائی تحریکیں ابھریں.انڈونیشیا میں مسجومی پارٹی‘ انڈوپاک میں جماعت اسلامی‘ ایران میں فدائین‘ عرب دنیا میں الاخوان المسلمون جیسی تحریکیں ابھریں. یہ ساری تحریکیں اس لیے اٹھیں کہ اسلام دین ہے اور دین اپنا غلبہ چاہتا ہے‘ ہمیں دین کو غالب کرنا ہے .
لیکن بعض عوامل کی وجہ سے ان تحریکوں کو آج تک کہیں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی. پہلا عامل یہ تھا کہ چاہے انگریز ہوں ‘ فرانسیسی ہوں‘ اطالوی ہوں‘ سب نے سو سالہ‘ ڈیڑھ سو سالہ دَور میں جو حکومت کی تھی اورنظامِ تعلیم رائج کیا تھا اس سے ان ملکوں کا اعلیٰ طبقہ (elite class) ان کے رنگ میں رنگا گیا‘ یعنی انہوں نے انہی کی تہذیب‘ انہی کی زبان‘ انہی کا لباس‘ انہی کا ذہن ‘انہی کی سوچ ‘ انہی کا فکراپنا لیا. اور جب انگریز حکومت ان کے حوالے کر کے چلے گئے تو بھی by proxy انہی کی حکومت جاری رہی.اور اس جتھے کے نزدیک اسلام صرف مذہب ہے‘ وہ اسلام بطورِ دین سے واقف ہی نہیں ہیں ‘وہ چاہے پرویز مشرف ہوں ‘ بے نظیر ہوں یا کوئی اور ہوں. 

دوسری بات یہ کہ ان مسلمان تحریکوں نے طریق کار غلط اختیار کیا. دنیا میں اسلام ایک نظام کی حیثیت سے محمد رسول اللہﷺ نے برپا کیاتھا اور یہ دوبارہ برپا ہو سکتا ہے تو صرف حضورﷺ کے طریقے کے مطابق ہو سکتا ہے. انہوں نے سمجھا وہ تو آؤٹ آف ڈیٹ ہے‘ پرانا ہے‘ لہذا الیکشن میں حصہ لے کر اس سے اسلام نافذ کریں گے. اس میں ناکامی ہوئی تو گولی چلانی شروع کر دی کہ فلاں فلاں کو مار دو. چنانچہ سادات کو قتل کردیا گیا. سادات گیا تو حسنی مبارک آ کر براجمان ہو گیا (چند روز قبل میرے پاس ایک نوجوان آیا کہ میرا دم گھٹ رہا ہے ‘میں چاہتا ہوں کہ پرویز مشرف کو قتل کر دوں. میں نے کہا تمہارا دماغ خراب ہے ؟تم ایک پرویز کو قتل کرو گے کوئی اور پرویز آ کر بیٹھ جائے گا فائدہ کیا ہو گا؟) تو کہاں تبدیلی ہوئی ہے؟ فوجی حکومت کے ذریعے سے کوئی تبدیلی ہوئی ہے؟ اس اعتبار سے اس غلط طریق کار نے ان تحریکوں کو کہیں کامیاب نہیں ہونے دیا. 

اب ان دو اعتبارات سے اچھی طرح سمجھ لیجئے !ایک تو یہ کہ ہمارے عوام کے ذہنوں پر علماء کا جو تسلط ہے اس کے زیر اثر وہ اس تصور سے واقف ہی نہیں ہیں. وہ اسلام کو بطورِ مذہب جانتے ہیں. دوسرے یہ کہ جب مغربی استعمار کے بستر لپٹے ہیں تو جو نیچے حکومتیں بنی ہیں وہ انہی کے تربیت یافتہ اور تربیت دادہ لوگ تھے‘ چاہے وہ CSP آفیسرز تھے اور چاہے وہ بڑے بڑے لینڈ لارڈ تھے جن کے بچوں کی تعلیم مغرب میں ہوئی ہے. پیر پگاڑا اور ان کے بھائی کو بھی‘ جب ان کے والد کو پھانسی دی جا رہی تھی ‘ انگلینڈ لے جایا گیا اور وہاں ان کی تعلیم ہوئی ہے. اور جتنے بھی بڑے بڑے جاگیردار ہیں ان کے بچے وہیں سے تربیت حاصل کر کے آتے ہیں! وہاں سے ان کی برین واشنگ کر دی جاتی ہے. اور تیسرے نمبر پر یہ کہ دینی تحریکوں کا طریق کار غلط ہے. انہوں نے ’’ballot یا bullet‘‘ کا راستہ اختیار کیا. یہ دونوں غلط راستے ہیں اور یکساں غلط ہیں. 

اس پورے پس منظر میں یہ بات واضح ہے کہ اس وقت مسلمانوں اور دین اسلام کا مستقبل بہت ہی تاریک ہے . امریکہ جیسی سپر پاور ‘ عالمی تہذیب کے تین لحاف اور مذہبی و دینی سطح پر عیسائیت اور یہودیت کا گٹھ جوڑ اور اسلام سے دشمنی اور تیسرا اس ٹرائی اینگل کے اندر شامل ہو گیا ہے بھارت‘ یعنی مشرکین ‘ان کی قوت و طاقت‘ ذرائع ابلاغ پر ان کا غلبہ. مزید یہ کہ NGOs کے ذریعے سے نظامِ تعلیم کو جو نیا رنگ دیا جا رہا ہے ‘ ان سب کے باعث اسلام کے بطورِ دین نافذ ہونے کا کم سے کم مستقبل قریب میں کوئی امکان نظر نہیں آتا. ہاں اسلام بطورِ مذہب باقی رہے گا ‘جیسے اقبال نے کہا تھا  

مُلّا کو جو ہے ہند میں سجدے کی اجازت
ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد!

دین اسلام آزاد نہیں ہوگا‘ مذہب اسلام موجود رہے گا. البتہ یہ صرف مستقبل قریب کی بات ہے‘ مستقبل بعید میں کیا ہونا ہے‘ اور ؎
’’اور بھی دورِ فلک ہیں ابھی آنے والے
ناز اتنا نہ کریں ہم کو ستانے والے!‘‘

کی کیفیت کب اور کیسے پیدا ہو گی جس کے ضمن میں قدرتِ الٰہی اور مشیت ِ ایزدی نے پاکستان کو ایک اہم رول تفویض کیا تھا جس کے آثار حالاتِ واقعی اور زمینی حقائق کی رو سے روز بروز دھندلے ہوتے جا رہے ہیں آیا اس کے بروئے کار آنے کا ابھی کوئی امکان موجود ہے؟ ان امور پر ان شاء اللہ آئندہ خطاب میں گفتگو ہو گی. 

اقول قولی ھذا واستغفر اللّٰہ لی ولکم ولسائر المُسلمین والمُسلمات