اعوذ باللّٰہ من الشَّیطٰن الرَّجیم . بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ 

وَ اتۡلُ عَلَیۡہِمۡ نَبَاَ الَّذِیۡۤ اٰتَیۡنٰہُ اٰیٰتِنَا فَانۡسَلَخَ مِنۡہَا فَاَتۡبَعَہُ الشَّیۡطٰنُ فَکَانَ مِنَ الۡغٰوِیۡنَ ﴿۱۷۵﴾وَ لَوۡ شِئۡنَا لَرَفَعۡنٰہُ بِہَا وَ لٰکِنَّہٗۤ اَخۡلَدَ اِلَی الۡاَرۡضِ وَ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ ۚ فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ الۡکَلۡبِ ۚ اِنۡ تَحۡمِلۡ عَلَیۡہِ یَلۡہَثۡ اَوۡ تَتۡرُکۡہُ یَلۡہَثۡ ؕ ذٰلِکَ مَثَلُ الۡقَوۡمِ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا ۚ فَاقۡصُصِ الۡقَصَصَ لَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ ﴿۱۷۶﴾سَآءَ مَثَلَاۨ الۡقَوۡمُ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَ اَنۡفُسَہُمۡ کَانُوۡا یَظۡلِمُوۡنَ ﴿۱۷۷﴾ (الاعراف:۱۷۵.۱۷۷)

وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ عٰہَدَ اللّٰہَ لَئِنۡ اٰتٰىنَا مِنۡ فَضۡلِہٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَ لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۷۵﴾فَلَمَّاۤ اٰتٰہُمۡ مِّنۡ فَضۡلِہٖ بَخِلُوۡا بِہٖ وَ تَوَلَّوۡا وَّ ہُمۡ مُّعۡرِضُوۡنَ ﴿۷۶﴾ (التوبۃ:۷۵.۷۶

فَلَوۡ لَا کَانَتۡ قَرۡیَۃٌ اٰمَنَتۡ فَنَفَعَہَاۤ اِیۡمَانُہَاۤ اِلَّا قَوۡمَ یُوۡنُسَ ؕ لَمَّاۤ اٰمَنُوۡا کَشَفۡنَا عَنۡہُمۡ عَذَابَ الۡخِزۡیِ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَ مَتَّعۡنٰہُمۡ اِلٰی حِیۡنٍ ﴿۹۸﴾ (یونس:۹۸



آج کے موضوع پر گفتگو سے قبل میں اپنے گزشتہ ہفتے کے خطاب کا خلاصہ بطورِ تمہید آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں. میری آج کی گفتگو دراصل اُسی سابقہ خطاب کا تسلسل ہے. پچھلے خطاب میں موجودہ عالمی حالات کا تجزیہ کرتے ہوئے میں نے عرض کیا تھا کہ اس معاملے کی تین سطحیں ہیں. سب سے اُوپر اور سب سے نمایاں بات یہ ہے کہ یونائیٹڈ سٹیٹس آف امریکہ ‘جسے ہم عام طور پر امریکہ کہہ دیتے ہیں ‘ اِس وقت روئے ارضی پر واحد سپریم طاقت ہے. دنیا یک قطبی ہو چکی ہے اور امریکہ ٹیکنالوجی اور اپنی عسکری قوت کے اعتبار سے اس وقت ‘معاذ اللہ‘ یہ کہنے کے لیے حق بجانب ہے کہ ’’لِمَنِ الْمُلْکُ الْیَوْمَ‘‘ یعنی آج کس کے ہاتھ میں اختیار ہے؟ قیامت کے دن تو جواب دیا جائے گا کہ لِلّٰہِ الْوَاحِدِ الْقَھَّارِ ’’اللہ ہی کے لیے جو تنہا ہے اور قہار ہے!‘‘ لیکن آج دنیا کی سطح پر اس کا جواب یہی ہے کہ’’امریکہ!‘‘
دوسرے یہ کہ ایک تہذیب نے عالمی سطح پر اس پورے کرۂ ارضی کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے. اس کی تین سطحیں ہیں اور یہ تہذیب بے خدا ہی نہیں‘ خلافِ خدا ہے. پہلی سطح سیاسی ہے‘ یعنی سیکولرازم کہ ہمارے اجتماعی معاملات میں‘ ریاست اور حکومت کے معاملات میں‘ قانون سازی کے معاملات میں کسی خدا ‘ کسی آسمانی ہدایت‘ کسی وحی‘ کسی شریعت کا کوئی دخل نہیں. یہ سیکولرازم آج پوری دنیا پر چھایا ہوا ہے. 

دوسری سطح مالیاتی ہے اور پوری دنیا میں سود کی بنیاد پر بینکنگ سسٹم رائج ہے. یہ سود ہماری پوری معیشت کے اندر تانے بانے کی طرح بنا ہوا ہے. پھر اس کے ساتھ اس کی چھوٹی بہن جوا ہے‘ جو ہمارے ہاں تو بہت ہی زیادہ پھیل گیا ہے. ہر شے کو بیچنے کے لیے لاٹری کا پراسیس ہے. ویسے بھی دنیا کے اندر سٹاک ایکسچینج اور دولت کے الٹ پھیر کی بنیاد یہی جوا ہے. اس نظام کا تیسرا ستون انشورنس ہے!
سماجی سطح پر بے حیائی‘ عریانی‘ فحاشی‘ آزاد جنس پرستی ہے . چاہے وہ جنس پرستی مرد و عورت کے درمیان (heterosexual) ہو‘ چاہے وہ دو عورتوں (lesbians) کے درمیان ہو اور چاہے دو مردوں (gays) کے درمیان ہو‘ اس کی کھلی اجازت ہے. خاندانی نظام تباہ و برباد ہو گیا ہے. مغرب میں تو یہ نظام بتمام و کمال وجود میں آ چکا ہے‘ جبکہ مشرق کی طرف بھی یہ ذرائع ابلاغ کے ذریعے ایک سیلاب کی شکل میں امڈا آرہا ہے. اسی کلچر‘ اسی تہذیب کو ہماری ساری نسل دیکھ رہی ہے اور ظاہر بات ہے اس میں چمک دمک ہے ‘ جس کے بارے میں اقبال نے کہا تھا ؎ 

نظر کو خیرہ کرتی ہے چمک تہذیب حاضر کی
یہ صناعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے!

یہ جھوٹے نگینے ہیں ‘لیکن چمکدار تو بہت ہیں. یہ نظام زہر کی طرح سرایت کررہا ہے. اس کے علاوہ اس تہذیب کو فروغ دینے کے لیے بین الاقوامی سطح پر بڑی عظیم کانفرنسیں ہو چکی ہیں‘ جن کا حوالہ میں دے چکا ہوں. عریانی و فحاشی کا یہ جو سیلاب آ رہا ہے‘ جسے اب یونائیٹڈ نیشنز اسمبلی نے سوشل انجینئرنگ (سماجی تعمیر) کا نام دیا ہے‘ اس کا ہدف بھی شمالی افریقہ اور خاص طور پر ایشیا کے مسلمان ممالک ہیں جہاں بحیثیت مجموعی خاندانی نظام ابھی کچھ برقرار ہے‘ شرم و حیا کی کچھ نہ کچھ وقعت اور قیمت ہے‘ عفت و عصمت کی کوئی قدر ہے.

تیسری سطح پرایک مذہبی کشاکش ہے. یہ کشاکش ذرا خفیہ سی ہے‘ اسے عام لوگ نہیں جانتے. اس مذہبی کشاکش میں اس وقت سب سے مؤثر کردار یہودیوں کا ہے‘ جو اس وقت عالم انسانیت کی عظیم ترین سازشی قوت ہے. سازشیں کرنا (conspiracies) اورطویل المیعاد پروگرام بنا کر ان کو پورا کرنا‘ اس میدان میں اس قوم کے مدمقابل کوئی نہیں آسکتا. اور ان کا پروگرام یہ ہے کہ پوری دنیا پر ان کا اقتصادی قبضہ ہو جائے. براہِ راست فوجی قبضہ نہیں‘ بلکہ اقتصادی قبضہ. مزید برآں مشرقِ وسطیٰ کے اندر ایک بڑی ریاست گریٹر اسرائیل قائم کر نا‘ مسجد اقصیٰ اور قبہ الصخرہ کو گرانا اور اس کی جگہ پر اپنا تھرڈ ٹمپل تعمیر کرنا اور اس میں حضرت داؤد علیہ السلام کا تخت لا کر رکھ دینا. یہ ہے ان کا پروگرام اور اس پر وہ عمل پیرا ہیں. دوسری طرف تمام عیسائی قوتیں ان کے تابع ہو چکی ہیں. البتہ بعض عیسائی‘ خاص طور پر پروٹسٹنٹ‘ ان میں بھی خاص طو ر پر Baptists اور ان میں بھی اخص الخواص کے اعتبار سے Evengelists یہودیوں کے مکمل آلہ کار ہیں. اور نوٹ کر لیجئے کہ صدر بش Evengelist ہے. عیسائی دنیا‘ خاص طورپر یورپ کے کیتھولک عیسائی‘ جن کی فرانس‘ جرمنی ‘ سپین اور اٹلی میں اکثریت ہے‘ یہ اصل میں فلسطین میں ایک عیسائی ریاست قائم کرنا چاہتے ہیں.گویا مسلمانوں کے خلاف دونوں ہیں. اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ جیسے دوسرے ملینیم کے شروع میں کروسیڈز (صلیبی جنگیں) شروع ہوئی تھیں‘ اب یہ فائنل کروسیڈ ہونے والا ہے.

’’کروسیڈ‘‘ کا یہ لفظ بش کی زبان پر بھی آگیا تھا. پہلے والے کروسیڈ کا مقصد یہ تھا کہ ارضِ مقدس پر ان کا قبضہ ہو جائے. یہ علاقہ یہودیوں کے لیے بھی ارض مقدس ہے‘ عیسائیوں کے لیے بھی اورمسلمانوں کے لیے بھی. البتہ یہودیوں کی پشت پناہی کر کے عیسائی وہاں یہودی مملکت کیوں قائم کرنا چاہتے ہیں؟ اسے ذرا سمجھ لیجئے! ان کا عقیدہ ہے کہ جب گریٹر اسرائیل بن جائے گا ‘ بڑی عظیم جنگ ’’ آرمیگاڈان‘‘ ہو گی عربوں کا خون خرابہ کیا جائے گا‘ مسجد اقصیٰ اور قبہ الصخرہ گرا دیے جائیں گے‘ وہاں پر معبد ِ سلیمانی بن جائے گا اور وہاں تخت ِ داؤد ؑ لا کر رکھ دیا جائے گاتب حضرت مسیح ؑ دوبارہ دنیا میں نازل ہوں گے اوراس تخت ِ داؤدؑ پر بیٹھ کر دنیا میں حکومت قائم کریں گے. لہذا ان کی یہ خواہش ہے کہ حضرت مسیح دوبارہ دنیا میں جلد از جلد آئیں. وہ چاہتے ہیں کہ یہ سارے واقعات جلد از جلد واقع ہو جائیں.

ایک بات مزید نوٹ کر لیجئے کہ عیسائیوں اور یہودیوں کا مشترک دشمن اسلام اور مسلمان ہیں اور ان کا سب سے بڑا ٹارگٹ پاکستان ہے. اس وقت کی عالمی صورت حال یہ ہے اور بحالاتِ موجودہ اسلام کے بحیثیت دین‘ ایک مکمل نظام زندگی کی حیثیت سے نافذ ہونے کا کوئی امکان نظر نہیں آتا. ہاں اسلام صرف ایک مذہب کی حیثیت سے زندہ رہ سکتا ہے .صرف ہمارے عقائد‘ عبادات اور سماجی رسومات جو انفرادی زندگی تک محیط ہیں‘ مغرب کو گوارا ہیں. باقی سیاسی نظام‘ معاشی نظام اور سماجی نظام وہ ہو گا جو تین سطحیں میں نے گنوائیں. اس کے علاوہ کسی نظام کو وہ دنیا میں برداشت نہیں کر سکتے. اور اس معاملے میں اس وقت سب سے بڑا گٹھ جوڑ امریکہ اور یہودیوں کا ہے.