مجھے آج ’’پاکستان کے وجود کو لاحق خطرات و خدشات اور بچاؤ کی تدابیر‘‘ کے حوالے سے گفتگو کرنی ہے. بحمد اللہ‘ میرا معاملہ یہ رہا ہے کہ میں ہمیشہ سے پاکستان کے مستقبل کے بارے میں پرامید رہا ہوں. لیکن نائن الیون کے بعد ہم نے جو راستہ اختیار کیا اور جس کے ہولناک نتائج اب سامنے آ رہے ہیں‘ اس کے پیش نظر میرے‘شدتِ احساس کا یہ عالم ہے کہ میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ کیا پاکستان کے خاتمے کی الٹی گنتی (count down) شروع ہو چکی ہے؟ اور کیا ابھی نجات کا کوئی راستہ کھلا ہے؟
ان دونوں سوالوں کے بارے میں جب میں غور کرتا ہوں اور قیام پاکستان سے لے کر اب تک کے حالات کا جائزہ لیتا ہوں تو محسوس کرتا ہوں کہ واقعتا پاکستان کے خاتمے کی الٹی گنتی شروع کی جا چکی ہے اور بہتری کی طرف لے جانے والا ہر راستہ بظاہر بند نظر آتا ہے‘ لیکن قرآن و سنت کی جو رہنمائی اللہ نے مجھے بخشی ہے اس کی بنا پر پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ واقعتا ابھی تک ایک راستہ کھلا ہے. اگرچہ اس ضمن میں اب مہلت بہت کم ہے. گویا معاملہ وہی ہے کہ ؏ ’’دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا!‘‘
بات سمجھ لیجئے! کسی مملکت یا سلطنت کے ختم ہونے کے معنی یہ نہیں ہوتے کہ وہ زمین ختم ہو جائے‘ وہ سرزمین آسمان میں چلی جائے یا پاتال میں دھنس جائے ‘بلکہ سلطنتوں یا مملکتوں کے خاتمے کی دو شکلیں ہوتی ہیں.
ایک یہ کہ balkanization ہو جائے ‘ اس کے حصے بخرے ہو جائیں اور سابق نام باقی ہی نہ رہے. یعنی پھر دنیا کے نقشے پر اس نام سے کوئی خطہ موجود نہ ہو. اور یہ ایک عجیب تاریخی حقیقت ہے کہ پچھلی یعنی بیسویں صدی عیسوی اس اعتبار سے بے مثال ہے کہ اس کے آغاز میں ایک عظیم سلطنت عثمانیہ ختم ہوئی‘ اس کے حصے بخرے ہوئے‘ ٹکڑے ٹکڑے ہوئے اور سلطنت عثمانیہ کا نام دنیا میں ختم ہوگیا. اب دنیا کے نقشے میں آپ کو سلطنت عثمانیہ کا نام لکھا ہوا کہیں نظر نہیں آئے گا‘ حالانکہ وہ عظیم سلطنت عثمانیہ (Great Ottoman Empire) تھی‘ جو عظیم سلطنت روما (Great Roman Empire) کی طرح تین براعظموں میں پھیلی ہوئی تھی. پورا شمالی افریقہ‘ پورا مغربی ایشیا اور پورا مشرقی یورپ اس میں شامل تھا.لیکن اس عظیم سلطنت عثمانیہ کے حصے بخرے ہوئے ‘ لے دے کے ترکوں کے پاس ’ترکی‘ نام کا ایک چھوٹا سا ملک رہ گیا. اس سلطنت کا نام ختم ہو گیا. اب آپ کو ڈھونڈے سے بھی پتا نہیں چلے گا کہ وہ سلطنت عثمانیہ کہاں ہوتی تھی. اور یہ معاملہ ہوا ہے پچھلی صدی کے آغاز کے بیس سالوں کے اندر اندر‘ تقریباً دوسری دہائی کے خاتمے پر. اس کے برعکس پچھلی صدی کی آخری دہائی میں۱۹۹۰ء کے قریب یونین آف سووِیٹ سوشلسٹ ریپبلکس (USSR) ختم ہوئی‘ جودنیا کی ایک سپرپاور تھی. آج دنیا کے نقشےمیں USSR نام لکھا ہوا کہیں نظر نہیں آتا. یہ تو کوئی زیادہ پرانی بات نہیں ہے‘ ابھی کل پندرہ سولہ برس ہوئے ہیں.اسی طرح سے پاکستان کا بھی امکان ہے کہ یہ صورت حال پیش آ جائے.
مملکتوں کے ختم ہونے کی ایک دوسری شکل بھی ہے. وہ یہ کہ لکیر بھی برقرار رہے‘ نام بھی برقرار رہے‘ لیکن اس کی کوئی خود اختیاری نہ ہو‘اس کے اندر کوئی self determination نہ ہو‘ اس میں اپنے اصولوں کے دفاع میں کھڑے رہنے کی طاقت نہ ہو اور وہ کسی دوسری بڑی سلطنت و مملکت کے تابع مہمل کی شکل اختیار کر لے‘ یا یوں کہئے کہ سیٹلائٹ یعنی طفیلی ملک بن جائے. یہ دوسری شکل ہے اور پاکستان کے مستقبل کے لیے یہ امکان بھی ہے کہ پاکستان بھارت کا سیٹلائٹ بن کر رہ جائے اور بھارت چاہے تو ان لکیروں کو قائم رکھے‘ چاہے تو حصے بخرے کر دے. غالباً اس کی مصلحت اسی میں رہے گی کہ زیادہ سردرد مول نہ لے‘ مختلف صوبے ہوں گے تو ان میں سے ہر ایک سے الگ الگ نپٹنا پڑے گا‘اس کے حق میں بہتر یہ ہو گا کہ پاکستان ایک سٹیٹ کی حیثیت سے یکجا رہے اور اس کی حقیقت بس نیپال سے کوئی دس گنا بڑے ملک کی ہو‘ لیکن اس کی حیثیت نیپال سے زیادہ نہ ہو.