اب آپ دیکھیں کہ پاکستان کے بارے میں دنیا میں کیا پیشین گوئیاں ہو رہی ہیں ؎ 
سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا
کہتی ہے تجھ کو خلق خدا غائبانہ کیا!! 

سب سے پہلے میں ایک مسلمان مصنف سید ابوالمعالی کی کتاب کاحوالہ دوں گا. پیدائشی طور پر یہ بہار سے تعلق رکھتے تھے. تقسیم کے تقریباً چند دن پہلے پیدا ہوئے تھے. وہاں سے والدین کے ساتھ مشرقی پاکستان گئے‘ وہاں سے پورا خاندان مغربی پاکستان آگیا. ان کی بیشتر تعلیم کراچی میں ہوئی‘پھر یہ مغربی ممالک میں چلے گئے جیسے بہت سے لوگ گئے ہیں. وہاں پر انہوں نے پی ایچ ڈی کی ہے اور وہاں کافی بڑے دانشور سمجھے جاتے ہیں. ان کی ایک کتاب و ینٹیج پریس مین ہٹن نیویارک سے ۱۹۹۲ء میں شائع ہو کر ۱۹۹۳ء میں پاکستان آئی تھی. کتاب کا نام ’’The Twin Eras of Pakistan‘‘ ہے. یعنی ’’پاکستان کے جڑواں ادوار‘‘. اس میں ہماری سیاسی تاریخ میں آگے پیچھے آنے والے سیاسی اور فوجی ادوار کا تذکرہ ہے. مغرب میں دانشور جو گفتگوئیں کرتے ہیں یا وہاں کے سیاسی پنڈت جو پیشین گوئیاں کرتے ہیں درحقیقت انہوں نے اس کاایک مجموعی تاثر اس کتاب میں دے دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ۲۰۰۶ء میں پاکستان آٹھ ٹکڑوں میں تقسیم ہو چکا ہوگا. ان میں سے چار آزاد ریاستیں ہوں گی‘ تین تو خالص پاکستان سے نکلیں گی ‘جبکہ ایک بھارت اور پاکستان سے کچھ علاقے جوڑ کر بنائی جائے گی. انہوں نے جن تین خالص پاکستانی ریاستوں کا تذکرہ کیا ہے ان میں سے ایک ریپبلک آف بلوچستان ہو گی اور پوراموجودہ بلوچستان اس میں شامل ہو گا. ان کے بقول یہ اس علاقے کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ ‘ سب سے زیادہ خوشحال اور سب سے زیادہ معدنی اور صنعتی طاقت ہو گی. دوسری کراچی اور حیدر آباد کو ملا کر اردو بولنے والوں کے لیے لیاقت پور یا لیاقت آباد کے نام سے ایک ریاست بن جائے گی. تیسری ریاست سندھو دیش کے نام سے ہوگی. یعنی جن علاقوں کا outlet سمندر پرہے وہ سب ایک آزاد قوم‘ آزاد ملک‘ آزاد ریاست بن جائیں گے‘ جبکہ شمالی علاقہ جات مثلاً گلگت‘ ہنزہ وغیرہ اور آزاد کشمیر اور مقبوضہ کشمیر (جس کو ہم مقبوضہ کہتے ہیں اور انڈیا آزاد کشمیر کہتا ہے) ان کو جوڑ کر ایک کشمیری ریاست وجود میں آ جائے گی اور یہ امریکہ کا بڑا پرانا خاکہ ہے.

آج سے کچھ عرصہ قبل تو امریکہ کی اسسٹنٹ سیکریٹری آف سٹیٹ رابن رافیل نے کھل کر بیان دیا تھا کہ ہم ان دونوں کشمیروں (پاکستانی کشمیر اور بھارتی کشمیر) کے ساتھ پاکستان کے شمالی علاقہ جات شامل کر کے‘ جو کہ کشمیر کی ڈوگرہ حکومت کے ماتحت تھے اور مزید یہ کہ لداخ کے جو علاقے پاکستان نے چین کو دے دیے تھے چین سے واپس لے کر ایک آزاد ملک بنائیں گے. اس کے بعد بہت عرصے تک یہ آواز نہیں آئی تھی‘ لیکن اب امریکہ کے ایک سینیٹر نے یہی بات پھر کہی ہے کہ کشمیر کے مسئلے کا واحد حل یہ ہے کہ انڈین کشمیر‘ پاکستانی کشمیر اور شمالی علاقوں سے دونوں ملکوں کی فوجیں واپس چلی جائیں اور یہ علاقہ یونائیٹڈ نیشنز اسمبلی کو دے دیا جائے‘ وہ یہاں پر اپنے اہتمام میں استصوابِ رائے 
(plebiscite) کروائے اور اس کے اندر کشمیریوں کے لیے تین اختیارات (options) ہوں کہ آپ ہندوستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا آزادو خود مختار کشمیر چاہتے ہیں. حالات جس نہج پر جا رہے ہیں اس کالازمی نتیجہ یہ ہے کہ ان کا رخ خود مختار کشمیر کی طرف ہو گا. اس لیے کہ وہ پاکستان سے مایوس ہوچکے ہیں. وہ کہتے ہیں کہ پاکستان نے ہمیں دھوکہ دے کر ہمارے اتنے لوگ مروا دیے اور اب اپنے ہاتھ اٹھا دیے. لہٰذا ان کے options میں پاکستان نہیں آئے گا اور وہ آزادی چاہیں گے‘ اور یہ آزاد ریاست امریکہ کی سازشوں کا گڑھ بنے گی. یہ ایک نیا ’’اسرائیل‘‘ بنے گا. ایک اسرائیل ایشیا کے مغرب میں ہے اور ایک اسرائیل ایشیا کے بطن میں قائم کیا جائے گا. اس لیے کہ آج امریکہ کی Containment of China Policy وہی اہمیت رکھتی ہے جو چالیس برس تکContainment of USSR Policy کی تھی.اس کے لیے یہاں قدم جمانے کا موقع مل جائے تو اسے اور کیا چاہئے! وہ ایک ایک کشمیری کو سونے چاندی میں تول سکتا ہے . وہ ان کو خوشحال بنانے کے لیے بڑی سے بڑی مراعات اور امداد دے گا‘ تاکہ اس کا اس علاقے کے اندر عمل دخل قائم ہو جائے. بہرحال میں نے اس کی تھوڑی سی تفصیل بیان کر دی ہے کہ یہ امریکہ کی پرانی سکیم ہے جواَب پھر اٹھ کر سامنے آ رہی ہے .
چار خود مختار ریاستوں کے قیام کے بعد جو چار حصے پاکستان باقی رہ جائے گا اس میں ایک شمالی پاکستان ہو گا‘ یعنی چترال سے لے کر مالا کنڈ تک. پھر مالاکنڈ کے پہاڑ سے لے کر نیچے پختون علاقے تک مغربی پاکستان ہو گا. پھر یہ کہ سندھ میں سے سندھو دیش بناتے ہوئے ایک چھوٹی سی پٹی نکالی جائے گی تاکہ بچے کھچے پاکستان کو بھی سمندر تک رسائی حاصل ہو جائے. اس لیے کہ موجودہ کراچی تو لیاقت آباد کے اندر چلا جائے گا. پورٹ قاسم جو بنائی جا رہی ہے وہ سندھو دیش کے لیے ہے. بہرحال سندھ سے راستہ دے کر بقیہ پاکستان کو سمندر تک پہنچا دیا جائے گا .باقی سینٹرل پاکستان ہو گا‘ اس میں پنجاب کے ساتھ کچھ سرائیکی علاقہ شامل ہوگا‘ جبکہ کچھ سرائیکی علاقہ بلوچستان میں اورکچھ سندھ میں چلا جائے گا. جو باقی ہو گا وہ ا س سینٹرل پاکستان میں آ جائے گا . یہ ایک پیشین گوئی ہے جو کسی کافر کی نہیں ‘ کسی یہودی کی نہیں‘ بلکہ مسلمان دانشور ڈاکٹر ابوالمعالی سیّدکی ہے. یہ وحی نہیں ہے‘ لیکن بہرحال اس میں ان سازشوں کا انعکاس موجود ہے جو فضا کے اندر ہو رہی ہیں. گویا ؏ ’’ تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں!‘‘

دوسری پیشین گوئی امریکہ کے سب سے بڑے تھنک ٹینک کی ہے جو امریکہ کی وزارت خارجہ کے پالیسی ونگ کا تھنک ٹینک ہے. اس میں سب سے اونچے پندرہ اداروں کے سربراہ شامل ہیں. انہوں نے چند سال پہلے یہ پیشین گوئی کی تھی کہ ۲۰۲۰ء 
میں پاکستان کے نام سے کوئی ملک نہیں رہے گا. گویا کہ جو حشر سلطنت ِ عثمانیہ کا اور سوویت یونین کا ہوا تھا وہ پاکستان کا بھی ہو جائے گا. سب سے پہلے یہ رپورٹ بھارت کے ایک جریدے ’’ آؤٹ لک‘‘ میں شائع ہوئی تھی . پھر اسے روزنامہ جنگ نے اپنی ۱۶؍ستمبر ۲۰۰۰ء کی اشاعت میں شائع کیا اور ساتھ لکھ دیا کہ اسے کسی مجذوب کی بڑ نہ سمجھا جائے ‘بلکہ اسے سنجیدگی سے نوٹ کیا جانا چاہیے .

تیسری بات رابرٹ کیلان نے کی 
’’The End of the Earth‘‘ کے عنوان سے ان کا مضمون ۲۰؍ستمبر ۲۰۰۰ء کو روزنامہ نوائے وقت میں شائع ہوا تھا. وہ اس میں لکھتے ہیں: ’’Pakistan is a failed state‘‘ یعنی پاکستان ہر اعتبار سے ناکام ریاست ثابت ہو چکی ہے‘جلد ہی اس میں خانہ جنگی شروع ہو گی اور انتشار اور انارکی پیدا ہو جائے گی. اس مضمون میں ایک خاص بات یہ کہی گئی ہے کہ پاکستان اور افغانستان گویا ایک یونٹ کی شکل میں ہوں گے. یہ چند حوالے ہیں جو میں نے آپ کو دیے ہیں .