اس دردناک انجام کے اسباب : پہلا بنیادی اور داخلی


اب آیئے اس کے اصل اسباب کی طرف کہ ایسا کیوں ہو گا؟ جبکہ میں بھی کہہ رہا ہوں اور میرا یہ موقف ہے کہ واقعتہً پاکستان کے خاتمے کی الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے تو اس کے اسباب کیا ہیں؟ میں ان اسباب کو دو حصوں میں تقسیم کرتا ہوں. ایک ہے اصل اور بنیادی ‘اور داخلی اور خود کردہ‘ اور دوسرا فوری اور خارجی. اس ’’خود کردہ‘‘ کے بارے میں کسی نے کہا ہے ؏ ’’خود کردہ را علاجے نیست‘‘. کسی اور نے آپ کی ساتھ کوئی برائی کی ہو تو شاید اس کا کوئی مداوا ہو سکے‘ لیکن اگر آپ نے خود کی ہو تو اس کا کوئی مداوا نہیں. پاکستان کے قیام کا جو اصل مقصد تھا اس کو ہم نے ترک کیا. اب یہ ایک بے مقصد ملک ہے. گویا یہ ایسا تیر ہے جس کا کوئی ہدف ہی نہیں . ؏ ’’ آہ وہ تیر نیم کش جس کا نہ ہوکوئی ہدف‘‘. اقبال اور جناح جو مؤ سسین پاکستان تھے‘ انہوں نے کہا تھاکہ ہم پاکستان اس لیے چاہتے ہیں کہ عہد ِ حاضر میں اسلام کے اصولِ حریت و اخوت و مساوات کا ایک عملی نمونہ دنیا کے سامنے پیش کریں‘ تاکہ ایک لائٹ ہاؤس وجود میں آ جائے‘ یہ پورے عالمِ انسانیت کے لیے روشنی کا ایک مینار ثابت ہو. اس لیے کہ دنیا میں اندھیرا ہے‘ انسان کو نظامِ عدلِ اجتماعی کی تلاش ہے‘ لیکن مل نہیں رہا. اس نے بڑی قلابازیاں کھائی ہیں. وہ فرانس کے انقلاب کے ذریعے ملوکیت اور جاگیرداری کے دور سے نکلا توسرمایہ داروں کے ہتّھے چڑھ گیا. پہلے جاگیردار مسلط تھا ‘اب بدترین شکل میں سرمایہ دار مسلط ہو گیا. اس کے بعد اس کے ردّعمل میں کمیونزم آیا ‘وہ بھی ختم ہو گیا. 

اب انسان پھر انتظار میں کھڑا ہے اور امریکہ اور اس کے اتحادی سب یہی چاہتے ہیں کہ ان کا نظام سیکولرازم ہی پوری دنیا میں قائم و دائم رہے‘ سود پر مبنی سرمایہ دارا نہ نظام کا تسلط برقرار رہے اور مغربی تہذیب پوری دنیا پر چھا جائے جس میں شرم و حیا اور عفت و عصمت کے تمام تقاضے ختم ہیں. اس کے مد مقابل اگر کوئی نظام نہ آیا‘ یعنی اسلام سامنے نہ آیا تو پھر کمیونزم سے ملتی جلتی کوئی شکل دوبارہ وجود میں آ جائے گی. اس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف انسان نے بغاوت کی تھی تب ہی تو کمیونزم آیا تھا‘ اور آج جب یہ سرمایہ دارانہ نظام گلوبل ہو رہا ہے تو اس کے خلاف پھر بغاوت ہو رہی ہے. جہاں کہیں بھی گلوبلائزیشن کے لیے کوئی میٹنگ ہوتی ہے تو مخالف مظاہرے ہوتے ہیں‘ سیٹیل میں ہنگامے ہوئے ‘ توڑ پھوڑ ہوئی اورکرفیو لگا. واشنگٹن میں ہوئے‘ ڈیووس میں ہوئے. دنیا میں کتنی جگہوں پر بڑے عظیم مظاہرے ہوئے ہیں. مغرب والوں کو معلوم ہے کیا ہو رہا ہے. پہلے بھی اس سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف بغاوت مغرب میں ہوئی تھی‘ اس لیے کہ روس مغرب کا حصہ شمار ہوتا ہے‘ اگرچہ مشرقی ملک بھی ہے‘ اور اب عین کیپٹل ازم کے گھر کے اندر بغاوت اٹھ رہی ہے. لیکن ظاہر بات ہے کہ امریکہ اور اس کی تمام اتحادی قوتیں زور لگا کر چاہیں گی کہ اس بغاوت کوکچل دیں‘
Nip the evil in the bud کے مصداق اٹھنے سے پہلے ہی اس کا سر کچل دیا جائے. 

مؤسسینِ پاکستان اقبال اور جناح کے افکار میں تو زیادہ زور اسلام کے نظامِ اجتماعی پر تھا‘ یعنی اسلام کا سیاسی‘ اقتصادی اور سماجی نظام 
(System of Social) Justice as given by Quran لیکن تحریک پاکستان کی علماء و مشائخ نے جو حمایت کی تھی ان کے پیش نظر یہ تھا کہ اس خطے میں اسلامی قوانین اور اسلامی شریعت نافذ کی جائے. بے شمار علماء و مشائخ نے اس تحریک کی حمایت کی تھی. پیر جماعت علی شاہ‘ پیر صاحب مانکی شریف اور وقت کے تقریباً تمام مشائخ مسلم لیگ کے ساتھ تھے. اگرچہ جمعیت علماء ہند اور مولانا حسین احمد مدنی ؒ قیامِ پاکستان کے مخالف تھے‘ لیکن علماء کی بہت بڑی تعداد تحریک پاکستان کے ساتھ تھی. خود شبیر احمد عثمانی ؒ علماء دیوبند سے ٹوٹ کر آ گئے تھے! جمعیت علماء ہند سے کٹ کر جمعیت علماء اسلام بنی تھی اور اس نے مسلم لیگ اور تحریک پاکستان کا ساتھ دیا تھا. ان کے پیش نظر یہ تھا کہ اسلامی سزائیں اور اسلامی قوانین نافذ کیے جائیں. یہ دونوں پہلو سامنے رکھیے ‘جو ایک دوسرے سے قدرے مختلف لیکن درحقیقت لازم و ملزوم ہیں. قائد اعظم اور علامہ اقبال دونوں کے نزدیک اسلام کا نظامِ اجتماعی تھا جو انسان کو عدل دیتا ہے ‘ جبکہ علماء و مشائخ کے نزدیک اسلامی قوانین وشریعت خصوصاً حدود وتعزیرات کا نفاذتھاجو اس نظام کو سہارا دیتے ہیں. لیکن ہوا کیا ہے؟ 

ساڑھے چھپن سال گزر گئے اور ان میں سے کسی ایک جانب بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی. لے دے کر ایک حدود آرڈیننس نافذ کیا گیا تھا‘ اس کے خلاف بھی ہمارے ہاں بغاوت ہے. اس کو ختم کرنے کے لیے آپ کا سارا elite طبقہ سراپا احتجاج بنا ہوا ہے‘ خواتین کی لیڈر کھڑی ہو گئی ہیں کہ اس کو ختم کیا جائے. اور ویسے بھی وہ اس پورے معاشرے میں غیرمؤثر ہے‘ اس کی بالکل کوئی حیثیت نہیں ہے. ہمارے ہاں زکوٰۃ نافذ کی گئی تو سود میں سے کمیشن لے لیا‘ اللہ اللہ خیرسلا . اس طرح زکوٰۃ بدنام ہو گئی ‘حالانکہ دعویٰ یہ تھا کہ نظامِ زکوٰۃ نافذ کیا جائے گا. ضرورت تو اس امر کی ہے کہ نظامِ زکوٰۃ کے ذریعے سوشل سکیورٹی کا مکمل نظام نافذ کیا جائے‘ تاکہ ہر شہری کی بنیادی ضروریات کی گارنٹی دی جا سکے. مغرب نے سوشل سکیورٹی کا نظام مسلمانوں کے نظامِ زکوٰۃ سے ہی اخذ کیا ہے کہ ریاست کے ہر شہری کی بنیادی ضروریات کی کفالت حکومت کے ذمہ ہے. اگر کوئی کسی مل یا دفتر میں کام کر رہا ہے وہ تو اپنے پاؤ ں پر کھڑا ہے ‘لیکن اگر کسی کو کوئی ملازمت نہیں مل رہی تو حکومت کے ذمہ ہے کہ اس کو اتنی رقم دے کہ وہ اپنا ضروری خرچ چلا سکے. کسی کے پاس مکان نہیں ہے تو حکومت اسے مکان مہیا کرے . انہوں نے poor houses بنائے ہوئے ہیں اور بے گھروں کو مکان کی چابی مل جاتی ہے. دعویٰ تھا کہ یہاں بھی یہ سب کچھ زکوٰۃ کے ذریعے ہو جائے گا. لیکن زکوٰۃ نافذ ہوئی بھی تو لولی لنگڑی ‘ اس لیے کہ یہ توزکوٰۃ کے نام پر سیاسی استحصال تھا.

اب اس کا نتیجہ کیا ہے؟ اس کے بھی دو نتیجے ہیں .ایک نتیجہ خالص عقلی اعتبار سے ہے کہ پاکستان اپنی وجہ ٔ جواز کھو چکا ہے. جو اِس کا مثبت مقصد تھا ساڑھے چھپن سال کے اندر بھی اس کی طرف پیش رفت نہیں کی گئی. کسی بھی شے کے وجود کے لیے کوئی وجہ جواز ہوتی ہے. اور ظاہر بات ہے کہ کوئی شے جب اپنی وجہ جواز کھو بیٹھے تو اب وہ ایک ایسی کشتی کے مانند ہے جس کا لنگر ہی نہیں‘ لہذا کوئی لہر آئے گی تو اسے اِدھر لے جائے گی‘ کوئی اور زوردار لہر آئے گی تو اُدھر لے جائے گی. ہم اِس وقت بے بنیاد ہیں. اس وقت زمین پر ہمارا کوئی قدم نہیں ہے‘ ہوا میں معلق ہیں. اس وقت ہم پر قرآن مجید کی وہ آیت راست آتی ہے جو یہود و نصاریٰ سے خطاب کر کے کہی گئی تھی:

قُلۡ یٰۤاَہۡلَ الۡکِتٰبِ لَسۡتُمۡ عَلٰی شَیۡءٍ حَتّٰی تُقِیۡمُوا التَّوۡرٰىۃَ وَ الۡاِنۡجِیۡلَ وَ مَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡکُمۡ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ ؕ 

’’(اے نبی !) کہہ دیجئے: اے اہل کتاب! (اے یہودیواورعیسائیو!) تم کسی شے پر قائم نہیں ہو (تمہاری کوئی بنیاد نہیں ہے‘ تمہاری کوئی جڑ نہیں ہے) جب تک تم تورات‘ انجیل اور جو کچھ تمہاری طرف (زبور اور دیگر صحیفے وغیرہ) نازل کیا گیا ہے قائم نہیں کرتے.‘‘
اسے میں یوں کہا کرتا ہوں کہ ہمارا مُنہ ہی نہیں ہے کہ ہم اللہ سے دعا کریں‘ ہماری دعا ہمارے مُنہ پر دے ماری جائے گی‘ کہ کس مُنہ سے دعا کرتے ہو؟ تم نے ہمارے قانون‘ ہماری ہدایت کو تو نافذ کیا ہی نہیں. پاکستان کو اِس وقت یہی صورت حال درپیش ہے. 

مذہبی اعتبار سے نتیجہ یوں نکلے گاکہ اللہ تعالیٰ سے ہم نے وعدہ خلافی کی. ہم نے کہا تھا اے اللہ! ہمیں انگریز اور ہندو کی دوہری غلامی سے نجات دے. اس لیے کہ ہم پر 
انگریز کی غلامی کے ساتھ ہندو کی غلامی بھی تھی. ہم ہندو کی معاشی غلامی میں مبتلا تھے. ہندو بنیا ایک گاؤں میں بیٹھا ہوتا تھااور وہ سودپر رقمیں دے کر مسلمانوں کی زمینیں ہتھیا لیتا تھا. ہندوستان میں پورا کاروبار‘ پوری صنعت ہندوؤں کے ہاتھ میں تھی. بہت سے دانشور جب پاکستان کی برکات بیان کرتے ہیں تو کہتے ہیں کہ پورے انارکلی بازار میں مسلمانوں کی صرف ایک دکان تھی‘ جبکہ آبادی میں مسلمانوں کی اکثریت تھی. تو ہمارے اوپر دو غلامیاں مسلط تھیں‘ ایک غلامی انگریز کی جو کہ عسکری‘ سیاسی اور ریاستی غلامی تھی‘ اور ایک ہندو کی معاشی اور سماجی غلامی. ہم ہندوؤں کے سماجی غلام بھی تھے . ہم ہندوؤں کے رسوم و رواج اور تہوار مناتے تھے‘ اور آج بھی مناتے ہیں. تو ہم نے اللہ تعالیٰ سے ان سے نجات کی دعائیں مانگی تھیں. میں خود اس کا عینی شاہد ہوں. اُس وقت میں مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کا ایک کارکن اور رہنما بھی تھا. اس لیے کہ میں حصار ڈسٹرکٹ مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن کا جنرل سیکرٹری تھا. وہاں صرف ہائی سکول کی فیڈریشن تھی‘ اس لیے کہ کالج تو پورے ضلع میں تھا ہی نہیں. صرف بھوانی نامی قصبے میں ایک کالج تھا جو ہندوسیٹھوں کا قصبہ تھا. ہم نے جلوس نکالے‘ نعرے لگائے :’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لاالٰہ الا اللہ!‘‘ ہم نے جمعہ اور عیدین کے اجتماعات میں دعائیں مانگیں: اے اللہ! ہمیں ہندو اور انگریز کی دوہری غلامی سے نجات دے‘ تاکہ تیرے دین کا بول بالا کریں‘ تیرے نبی کا دیا ہوا نظام قائم کریں. اللہ نے تو وعدہ پورا کر دیا ‘لیکن ہم نے اللہ سے وعدہ خلافی کی.

سورۃ الاعراف کی آیت ۱۲۹میں ہے کہ حضرت موسٰی علیہ السلام سے جب کچھ اسرائیلیوں نے کہا تھا: اے موسٰیؑ! آپ کے آنے سے پہلے بھی ہمیں ستایا جاتا تھا اور اب بھی ستایا جارہا ہے ‘ یعنی آپ کی تشریف آوری سے ہماری حالت میں تو کوئی فرق نہیں آیا ‘تو انہیں موسٰی ؑنے جواب دیا تھا: 
عَسٰی رَبُّکُمْ اَنْ یُّھْلِکَ عَدُوَّکُمْ ’’قریب ہے تمہارا ربّ تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے‘‘.فرعون اور اس کے لاؤ لشکر کو تباہ کر دے. وَیَسْتَخْلِفَکُمْ فِی الْاَرْضِ ’’اورزمین میں تمہیں خلافت عطا کرے (حکومت اور طاقت دے)‘‘. فَیَنۡظُرَ کَیۡفَ تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۲۹﴾٪ ’’پھر وہ دیکھے گا تم کیا کرتے ہو!‘‘ اسی امتحان میں ہم ساڑھے چھپن برس گزار چکے ہیں اور ناکام ثابت ہوئے ہیں .ہم نے اللہ سے وعدہ خلافی کی ہے. اس وعدہ خلافی کا نتیجہ کیا ہے؟ 

جب کوئی قوم اجتماعی طور پر اللہ سے کوئی وعدہ کر کے وعدہ خلافی کرے تو دنیا میں اس کی یہ سزا ملتی ہے کہ اس قوم کے اندر اجتماعی طور پر نفاق اور منافقت کا مرض پیدا کر دیا جاتا ہے. یہ نفاق اور منافقت اللہ کو کفر سے بھی زیادہ ناپسند ہے. جیسے فرمایا گیا ہے : 
اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ فِی الدَّرۡکِ الۡاَسۡفَلِ مِنَ النَّارِ ۚ (النساء:۱۴۵’’منافقین جہنم کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے‘‘. اس لیے کہ انہیں حضور کی شفاعت سے محروم کیا گیا ہے. چنانچہ سورۃ التوبۃ (آیت۸۰) میں ارشاد ہوا: اِسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ اَوۡ لَا تَسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ ؕ اِنۡ تَسۡتَغۡفِرۡ لَہُمۡ سَبۡعِیۡنَ مَرَّۃً فَلَنۡ یَّغۡفِرَ اللّٰہُ لَہُمۡ ؕ ’’ان کے لیے آپؐ خواہ استغفار کریں یا نہ کریں‘ اگر آپؐ ان کے لیے ستر بار بھی استغفار کریں تو بھی اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں کرے گا.‘‘ 
سورۃ التوبۃ کی آیات ۷۵ تا ۷۷ ملاحظہ کیجئے : 
وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ عٰہَدَ اللّٰہَ ’’اوران (مدینے کے منافقوں) میں ایک قسم اُن کی ہے جنہوں نے اللہ سے ایک عہد کیا تھا‘‘ لَئِنۡ اٰتٰىنَا مِنۡ فَضۡلِہٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَ لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۷۵﴾ ’’کہ اگر اللہ ہمیں اپنے فضل سے نواز دے گا (غنی اور دولت مند کر دے گا) تو ہم خوب صدقہ و خیرات کریں گے اور نیک لوگوں میں سے ہو جائیں گے‘‘. فَلَمَّاۤ اٰتٰہُمۡ مِّنۡ فَضۡلِہٖ بَخِلُوۡا بِہٖ ’’پھرجب اللہ نے انہیں اپنے فضل سے نواز دیا تو انہوں نے بخل سے کام لیا‘‘. اپنی تجوریوں کے دروازے مقفل کر دیے. وَ تَوَلَّوۡا وَّ ہُمۡ مُّعۡرِضُوۡنَ ﴿۷۶﴾ ’’وہ اپنے عہد سے پھر گئے اور اللہ سے اعراض کیا‘‘. فَاَعۡقَبَہُمۡ نِفَاقًا فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ اِلٰی یَوۡمِ یَلۡقَوۡنَہٗ بِمَاۤ اَخۡلَفُوا اللّٰہَ مَا وَعَدُوۡہُ ’’تو اللہ نے ان کے دلوں میں نفاق کی بیماری پیدا کر دی قیامت کے دن تک کے لیے بسبب اس خلاف ورزی کے جو انہوں نے اللہ سے وعدہ کرنے کے بعد کی‘‘. یہاں ’’اِلٰی یَوۡمِ یَلۡقَوۡنَہٗ ‘‘ کے الفاظ بہت خطرناک ہیں‘ لرزہطاری کر دینے والے ہیں. وَ بِمَا کَانُوۡا یَکۡذِبُوۡنَ ﴿۷۷﴾ ’’اوربسبب اس کے جو وہ جھوٹ بولتے رہے‘‘. اس لیے کہ وہ جھوٹ بولتے رہے کہ ہم ایسا کریں گے. تو پاکستانی قوم اِس وقت اس اعتبار سے اجتماعی منافقت کا شکار ہو چکی ہے. صرف کچھ افراد ہیں جو اِس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ یہ بھٹکی ہوئی قوم اپنی راہ اور منزل کو دوبارہ یاد کرلے ؏ ’’کبھی بھولی ہوئی منزل بھی یاد آتی ہے راہی کو!‘‘ تو ایسے لوگ مستثنیٰ ہیں. استثناء ات سے تو قانون بالکل ثابت ہوجاتا ہے. اس لیے کہ Exceptions prove the rule وہ قانون یہ ہے کہ آج ہم بحیثیت مجموعی دنیا کی منافق ترین قوم ہیں.

ہمارے ہاں دو قسم کے نفاق پیدا ہوچکے ہیں. ایک قومی نفاق ہے . پہلے ہم ہندوؤ ں کے مقابلے میں ایک قوم تھے. ہم نے اپنی تحریک کے لیے ’’دو قومی نظریہ‘‘ کو بنیاد بنایا. آج ہم نفاقِ باہمی کا شکار ہو کر قومیتوں میں تحلیل ہوگئے. اب الگ الگ قومیں ہیں. چار تو شروع سے تھیں‘ پنجابی ‘ پٹھان‘ بلوچی‘ سندھی‘ اب اس میں سرائیکی اور مہاجر قومیت کا اضافہ ہوگیا ہے ‘وہ بھی مدعی ہیں کہ ہماری علیحدہ قومیت ہے. الغرض یہ نفاقِ باہمی کے مظاہر ہیں.

دوسرا نفاق کردار کا ہے ‘یعنی جھوٹ‘ وعدہ خلافی اور خیانت. حضور نے فرمایا: 
آیَۃُ الْمُنَافِقِ ثَلاَثٌ: اِذَا حَدَّثَ کَذَبَ‘ وَاِذَا وَعَدَ اَخْلَفَ‘ وَاِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ ’’منافق کی تین نشانیاں ہیں : جب بولے جھوٹ بولے‘ جب وعدہ کرے خلاف ورزی کرے‘ کہیں امین بنایا جائے تو خیانت کرے‘‘. یہ حدیث متفق علیہ ہے . اور مسلم کی ایک روایت میں ان الفاظ کا اضافہ ہے: وَاِنْ صَامَ وَصَلّٰی وَزَعَمَ اَنَّہٗ مُسْلِمٌ ’’چاہے وہ روزہ رکھتا ہو ‘ نماز پڑھتا ہو اور اپنے آپ کو مسلمان سمجھتا ہو‘‘. یہ تین چیزیں ہمارے ہاں عوامی سطح پر تو جس طرح ہیں سب کو معلوم ہے‘ لیکن قابل توجہ اور قابل حذر بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں جو جتنا اونچے درجے پر ہے اتنا ہی جھوٹا‘ اتنا ہی وعدہ خلاف اور اتنا ہی بڑا خائن ہے. سینکڑوں ہزاروں تو کیا اب اربوں کی خیانتیں ہوتی ہیں‘ غبن در غبن ہے. گویا ہم اس وقت قومی سطح پر نفا ق کے مریض ہیں. 

اس نفاق کے نتیجے کے طور پر اللہ تعالیٰ کا عذاب ’’عذابِ ادنیٰ‘‘ کی شکل میں ۱۹۷۱ء میں ہم پر نازل ہوا. ہمیں زبردست شکست ہوئی‘ ہمارے ۹۳ ہزار فوجی ہتھیار پھینک کر ہندوستان کی قید میں چلے گئے. پاکستان دولخت ہوا. ہمارے ٹائیگر جنرل نیازی نے جنرل اروڑہ کو اپنا پستول پیش کردیا. یہ بدترین اور شرمناک ترین شکست تھی. یہ عذابِ ادنیٰ ہے. قرآن مجید میں سورۃ السجدۃ کی آیت ۲۱ کے الفاظ ہیں:

وَ لَنُذِیۡقَنَّہُمۡ مِّنَ الۡعَذَابِ الۡاَدۡنٰی دُوۡنَ الۡعَذَابِ الۡاَکۡبَرِ لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ ﴿۲۱
’’ہم انہیں مزہ چکھائیں گے چھوٹے عذاب کا بڑے عذاب سے پہلے شاید کہ وہ لوٹ آئیں.‘‘

اللہ تعالیٰ کسی قوم کو جھنجوڑنے اور بیدار کرنے کے لیے چھوٹا عذاب بھیجا کرتا ہے‘ کبھی قحط کی شکل میں‘ کبھی سیلاب کی شکل میں‘ شاید کہ لوگ جاگ جائیں‘ اللہ کی طرف متوجہ ہوں. لیکن ہم نے عذابِ ادنیٰ سے ‘ جو ایک حادثہ فاجعہ تھا‘ کوئی سبق حاصل نہیں کیا. پھر اب عذابِ اکبر ہے جو سر پر کھڑا ہوا ہے. اور یہ عذابِ اکبر بھی دنیا کا ہے. دنیا میں عذابِ اکبر یہ ہوتا ہے کہ کسی قوم کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے. یہ دنیا میں مختلف قوموں پر آتا رہا ہے‘ قومِ نوح ‘ قومِ لوط‘ قومِ صالح وغیرہ پر یہ عذاب آیا تھا کہ : 
فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا ’’پھر ظالم قوم کی جڑ کاٹ دی گئی‘‘. جڑ اگر برقرار رہے تو وہ پودا دوبارہ اُگ سکتا ہے‘ لیکن جڑ سے اُکھاڑ دیا جائے تو اب پودے کے دوبارہ اگنے کا کوئی امکان نہیں ہے. قرآن مجید میں ان اقوام کے لیے یہ الفاظ بھی آئے ہیں: لَا یُرٰی اِلاَّ مَسَاکِنُھُمْ ’’اب ان کے مسکنوں کے سوا کچھ نظر نہیں آتا‘‘. قومِ ثمود نے چٹانیں تراش تراش کر جو محل بنائے تھے‘ان میں رہنے والا اب کوئی نہیں ہے. اور یہ الفاظ بھی آئے ہیں کہ : کَاَنْ لَّمْ یَغْنَوْا فِیْھَا ’’جیسے وہ ان میں کبھی آباد ہی نہیں تھے‘‘. نسیاً منسیاً ہو گئے. یہ ہے عذابِ اکبر! اور نوٹ کیجئے‘ میں کم سے کم ۱۹۸۴ء سے اس کا اِنذار کر رہا ہوں. پورے بیس سال ہو گئے ہیں. اِس پورے ملک کے اندر میں واحد شخص ہوں جو اُس وقت سے کہہ رہا ہے کہ اگر ہم نے یہاں اسلام قائم نہ کیا تو پاکستان کا وجود نہیں رہے گا. یہ اپنی وجہ جواز کھو چکا ہے اور بے جواز چیز قائم نہیں رہا کرتی. اب بھی موقع ہے اسے مستحکم کرلو. میں نے اُس وقت ایک کتاب لکھی تھی ’’استحکامِ پاکستان‘‘ جس میں واضح کیا تھا کہ استحکام اس صورت میں آئے گا کہ یہاں اسلامی انقلاب آئے‘ اسلام کا نظامِ عدلِ اجتماعی بھی قائم کیا جائے اور اسلامی قوانین اور شریعت بھی نافذ کی جائے. پھر میں نے اس کتاب کا دوسرا حصہ ’’استحکامِ پاکستان اور مسئلہ سندھ‘‘ کے عنوان سے تحریر کیا. اس کتاب کے آغاز میں جلی حروف میں یہ عبارت موجود ہے :

’’۹۳ھ مطابق ۷۱۲ء میں اسلام بیک وقت 
برعظیم ہند میں براستہ سندھ 
اور براعظم یورپ میں براستہ سپین داخل ہوا تھا.
سپین سے اسلام اور مسلمانوں کا خاتمہ ہوئے
پانچ سو برس ہو چکے ہیں!
کیا اب وہی تاریخ سندھ میں بھی دہرائی جانے والی ہے؟

آگ ہے ‘ اولادِ ابراہیم ؑ ہے ‘ نمرود ہے!
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے؟ 

فاعتَبِرُوا یا اُولِی الاَبْصار!‘‘ 

۱۴۹۲ء میں سقوطِ غرناطہ کے بعد مسلم سپین کا وجود ختم ہو گیا اور ۱۶۰۲ء تک جزیرہ نما آئبیریا میں ایک مسلمان بھی باقی نہیں چھوڑا گیا. یا تو قتل کر دیے گئے یا جلا دیے گئے یا پھر جہازوں میں بھر بھر کر شمالی افریقہ کے ساحل پر پھینک دیے گئے. تو میں نے اس کتاب میں لکھا ہے: کیا یہی تاریخ ہندوستان میں بھی دہرائی جانے والی ہے؟ یہ میری ۱۹۸۶ء کی تحریر ہے. بنی اسرائیل جو سابقہ اُمت مسلمہ تھی جب ان پر بخت نصر کے ہاتھوں پہلا عظیم ترین عذاب آنے والا تھا ‘جس میں حضرت سلیمان علیہ السلام کا بنایا ہوا معبد (مسجد اقصیٰ) اس طرح مسمار کر دیا گیاکہ اس کی کوئی دو اینٹیں بھی سلامت نہیں رہیں‘ اور چھ لاکھ یہودی موقع پر قتل کیے گئے جبکہ چھ لاکھ کو وہ ہانک کر بابل (Babylonia) لے گیا جہاں وہ سو برس تک حالت ِ غلامی میں رہے‘ جسے وہ Era of Captivity کہتے ہیں. [اُس وقت عراق کو سلطنت بابل (Babylonia) کہتے تھے اور بخت نصر اُس وقت کا نمرود تھا‘ اس لیے کہ عراق کے بادشاہوں کو نمرود کہا جاتا تھا] تو جب یہ سزا آنے والی تھی اُس وقت بنی اسرائیل کے انبیاء یسعیاہ ‘یر میاہ اور حزقیل (علیہم السلام) مسلسل اِنذار کرتے رہے اور کہتے رہے کہ دیکھو درخت کی جڑ پر کلہاڑا رکھا جا چکا ہے! یہ بات غور طلب ہے کہ کلہاڑا تو گرتا ہے رکھا نہیں جاتا‘ لیکن آپ کے علم میں ہو گا کہ جلاد پہلے تلوار گردن پر رکھ کر معین کرتا ہے کہ اسے یہاں ضرب لگانی ہے‘ پھر وہ ضرب لگاتا ہے. اسی طرح کلہاڑے کو بھی پہلے لکڑی پر رکھا جاتا ہے کہ یہاں پر کلہاڑا مارنا ہے.چنانچہ بنی اسرائیل کے انبیاء آگاہ کرتے رہے کہ اب تو ہوش میں آ جاؤ اور جاگ جاؤ . لیکن ؏ ’’یہی ہے مرنے والی اُمتوں کا عالم پیری!‘‘ کے مصداق کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگی اور انہیں عبرت ناک صورت حال سے دوچار ہونا پڑا. حالی کے الفاظ ہیں ؎ 

کسی نے یہ بقراط سے جا کے پوچھا
مرض تیرے نزدیک مہلک ہیں کیا کیا؟
کہا دکھ جہاں میں نہیں کوئی ایسا
کہ جس کی دوا حق نے کی ہو نہ پیدا
(۱)

مگر وہ مرض جس کو آسان سمجھیں
کہے جو طبیب اس کو ہذیان سمجھیں
یہی حال دنیا میں اس قوم کا ہے
بھنور میں جہاز آکے جس کا گھرا ہے
کنارا ہے دور اور طوفاں بپا ہے
گماں ہے یہ ہر دم کہ اب ڈوبتا ہے
نہیں لیتے کروٹ مگر اہل کشتی!
پڑے سوتے ہیں بے خبر اہل کشتی!!

تواِس وقت یہی ہمارا حال ہے. قرآن مجید میں بھی اس کا نقشہ کھینچا گیا ہے . سورۃ 
الاعراف میں ایک شخص بلعم بن باعورا ء کا ذکر ہے: وَ اتۡلُ عَلَیۡہِمۡ نَبَاَ الَّذِیۡۤ اٰتَیۡنٰہُ اٰیٰتِنَا ’’ (اے نبی !) انہیں پڑھ کر سنایئے اس شخص کے حالات جسے ہم نے اپنی آیات عطا کیں‘‘. بعض لوگوں نے آیات کا ترجمہ ’’علم‘‘ کیا ہے‘ لیکن ایسا نہیں ہے. آیات معجزوں کو بھی کہتے ہیں اور کرامات کو بھی کہتے ہیں. اس لیے خرقِ عادت واقعہ نبیوں کے لیے معجزہ ہوتا ہے اور غیر نبی اور اولیاء اللہ کے لیے یہ کرامات ہوتی ہیں .تو بنی اسرائیل میں کوئی صاحب ِ کرامت بزرگ تھا جو بہت بڑا عالم بھی تھااور زاہد بھی. فرمایا جا رہا ہے ہم نے اسے اپنی آیات عطا کیں. فَانۡسَلَخَ مِنۡہَا ’’تو وہ ان سے نکل بھاگا‘‘. اس نے اپنے اس مقام کو چھوڑ دیا. تورات میں اس کا ذکر آتا ہے کہ وہ ایک عورت کے چکر میں پھنس گیا اور پھر اس کی ساری نیکی‘ سارا تقویٰ ختم ہو گیا فَاَتۡبَعَہُ الشَّیۡطٰنُ ’’تو اب شیطان اس کے پیچھے لگ گیا‘‘. یہ بڑا اہم مقام ہے‘ پہلے انسان خود غلط حرکت کرتا ہے تب شیطان اُس کے پیچھے لگتا ہے. پہلا فیصلہ انسان کا اپنا ہوتا ہے . فَکَانَ مِنَ الۡغٰوِیۡنَ ﴿۱۷۵﴾ ’’پھر وہ ہو گیا بہت ہی گمراہ لوگوں میں‘‘. وَ لَوۡ شِئۡنَا لَرَفَعۡنٰہُ بِہَا ’’اور اگر ہم چاہتے تو اسے مزید بلندی عطا فرماتے‘‘ وَ لٰکِنَّہٗۤ اَخۡلَدَ اِلَی الۡاَرۡضِ ’’لیکن وہ تو زمین میں دھنستا چلا گیا‘‘ وَ اتَّبَعَ ہَوٰىہُ ۚ ’’اور وہ اپنی خواہشات (حیوانی خواہشات) کی پیروی میں لگ گیا‘‘. فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ الۡکَلۡبِ ۚ اِنۡ تَحۡمِلۡ عَلَیۡہِ یَلۡہَثۡ اَوۡ تَتۡرُکۡہُ یَلۡہَثۡ ؕ ’’اس کی مثال کتے کی سی ہے‘ اس پر اگر تم بوجھ لاد دو گے تب بھی وہ ہانپے گا اور اگر اسے چھوڑ دو گے (کوئی چیز نہ لادو گے) تب بھی وہ ہانپے گا‘‘. اس کے اندر حرص اتنی زیادہ ہے کہ ہر وقت اس کی زبان باہر نکلی رہے گی اور رال ٹپکتی رہے گی. اب آگے فرمایا: ذٰلِکَ مَثَلُ الۡقَوۡمِ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا ۚ ’’یہی مثال اس قوم کی ہے جو ہماری آیات کو جھٹلا دے‘‘. فَاقۡصُصِ الۡقَصَصَ لَعَلَّہُمۡ یَتَفَکَّرُوۡنَ ﴿۱۷۶﴾ ’’آپ یہ واقعہ بیان کر دیجئے شاید کہ یہ کچھ غور و فکر کریں‘‘. اگلی آیت میں فرمایا: سَآءَ مَثَلَاۨ الۡقَوۡمُ الَّذِیۡنَ کَذَّبُوۡا بِاٰیٰتِنَا وَ اَنۡفُسَہُمۡ کَانُوۡا یَظۡلِمُوۡنَ ﴿۱۷۷﴾ ’’بہت ہی بری مثال ہے اس قوم کی جس نے ہماری آیات کو جھٹلایا اور وہ اپنے اوپر ہی ظلم کرتے رہے‘‘.

قرآن حکیم کی یہ مثال پاکستان پر صادق آتی ہے. پاکستان اللہ کی جانب سے ایک معجزہ تھا اور یہ باکرامت ملک تھا. اب دیکھئے پاکستان کی کرامات کیا تھیں .پہلے نمبر پر یہ کہ اُمت کی تاریخ کے دوسرے ہزار سال کے آغاز سے اللہ تعالیٰ نے سلسلۂ مجددین عرب سے منتقل کر کے ہندوستان میں جاری کیا. مجددِ الف ثانی شیخ احمدسرہندیؒ یہیں کے مجدد ہیں ‘جن کے بارے میں اقبال نے کہا ؏ ’’وہ ہندمیں سرمایۂ ملت کا نگہباں! اللہ نے بروقت کیا جس کو خبردار‘‘ … ورنہ ہمہ اوستی تصور کے زیر اثر ہندوستان میں اسلام ختم ہونے کے قریب تھا. اس لیے کہ ’’دین الٰہی‘‘ کی صورت میں اسلام کا حلیہ بگاڑ دیا گیا تھا. دوسری کرامت یہ ہے کہ بیسویں صدی عیسوی میں جتنے اعاظم رجال ہندوستان میں پیدا ہوئے کہیں اور پیدا نہیں ہوئے. علامہ اقبال جیسے مفکر‘ مولانا مودودیؒ جیسے مصنف‘ مولانا الیاسؒ جیسے مبلغ کی ٹکر کا شخص پوری دنیا میں کوئی نہیں ہے. تیسرے یہ کہ خلافت کی تحریک چلی تو صرف ہندوستان میں. حالانکہ خلافت تو پوری دنیا کے مسلمانوں کا مسئلہ تھا‘لیکن کسی اور ملک کے مسلمانوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگی اور یہاں ایسے زور سے چلی کہ مہاتما گاندھی کو بھی اس میں شریک ہونا پڑا اور ؎ 

بولیں اماں محمد علی کی
جان بیٹا خلافت پہ دے دو!
ساتھ ہو تیرے شوکت علی بھی
جان بیٹا خلافت پہ دے دو! 

کی صداؤں سے پورا ہندوستان گونج گیا. 

چوتھی کرامت یہ ہے کہ یہاں آزادی کی تحریک چلی تو مذہب کی بنیاد پر چلی‘ ورنہ باقی پوری دنیا میں مقامی نیشنل ازم کی بنیاد پر تحریکیں چلیں. انڈونیشیا اور ملائیشیا میں ملائی نیشنلزم اور عالمِ عرب میں عرب نیشنل ازم کی تحریک چلی ہے‘ اسلام کی نہیں. مصطفی کمال اتا ترک نے ترک نیشنل ازم کی بنیاد پر ترکی کو بچایا‘ سلطنت عثمانیہ ختم ہوئی لیکن کم سے کم ترکی بچ گیا‘ ورنہ ترکی کا نام و نشان مٹ جاتا کیونکہ یورپ والوں میں انتقام کی آگ بھری ہوئی تھی کہ انہوں نے ہم پر ۴۰۰ برس تک حکومت کی ہے. اس لیے کہ پورا مشرقی یورپ 
سلطنت عثمانیہ کے ماتحت تھا.

پانچویں کرامت یہ کہ پاکستان معجزانہ طور پر بنا ہے. اس لیے کہ گاندھی جیسے لیڈر‘ کانگریس جیسی جماعت اور ہندوؤ ں کی اکثریت کے علی الرغم پاکستان بن گیا. ہندو مسلمانوں سے زیادہ مالدار اور تعلیم یافتہ تھے. ان کے مقابلے میں مسلمانوں کی کوئی حیثیت نہیں تھی. یہاں تک کہ مسلمانوں میں بھی بہت سے مضبوط طبقات کانگریس کے ساتھ تھے. جمعیت علماء ہند بہت بڑی طاقت تھی. پنجاب میں احرار بہت بڑی طاقت تھے. سرحد میں سرخ پوش اور سرحدی گاندھی خان عبدالغفار خان بڑی طاقت تھے اور یہ سب کانگریس کے ساتھ تھے. گاندھی نے پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے سے صرف چند ہفتے پہلے کہا تھا کہ ’’پاکستان صرف میری لاش پر بن سکتا ہے ‘‘لیکن پاکستان بن گیا. حالانکہ قائد اعظم ایک سال پہلے کم از کم دس سال کے لیے علیحدہ اور آزاد پاکستان کے مطالبے سے دستبردار ہو گئے تھے اور انہوں نے کیبنٹ مشن پلان قبول کر لیا تھا جس کی رو سے ہندوستان تین زونوں پر مشتمل ہوتا اور مرکزی حکومت ایک ہوتی. 

ان سب کے علاوہ ایک بڑی کرامت یہ ہے کہ پاکستان ۲۷ رمضان المبارک کو لیلۃ القدر میں گویا ’’نازل ‘‘ہوا ہے. اور ان سب سے بڑی کرامت یہ ہے کہ قیامِ پاکستان کے کچھ ہی عرصے کے بعد یہاں قراردادِ مقاصد پاس ہو گئی اور اس میں یہ اعلان ہو گیا کہ حاکمیت صرف اللہ کی ہے. یہ گویا سیکولرزم کے خلاف بغاوت تھی کہ ہمارا حاکم اللہ ہے اور ہم اپنے اختیارات کو کتاب و سنت کی حدود کے اندر اندر استعمال کریں گے . ان ساری کرامات کے ہوتے ہوئے بھی ہم سیکولرزم کی طرف چلے گئے اور آج تک چلے جا رہے ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ 
فَاَتۡبَعَہُ الشَّیۡطٰنُ کے مصداق عالم انسانی کا سب سے بڑا شیطان (یہودی) ہمارے پیچھے لگ گیا. قراردادِ مقاصد کے مصنف لیاقت علی خان کو قتل کر دیا گیا جس کی جرأت اور مردانگی کا یہ عالم تھا کہ جب ان کے دورۂ امریکہ کے دوران یہودیوں نے ایک بڑے استقبالیہ میں ان سے کہا کہ اگر آپ اسرائیل کو تسلیم کر لیں تو ہم آپ کو یہ یہ مراعات دیں گے تو انہوں نے جواباً کہا : ".Gentlemen! our souls are not for sale"
یعنی ’’حضرات!ہماری روحیں بکاؤ مال نہیں ہیں ‘‘اور ان کو اس کا مزہ انہوں نے یہ چکھایا کہ ایک مسلمان کے ہاتھوں قتل کرا دیا. تو اب شیطان پیچھے لگ گیا. ۱۹۵۶ء کے دستور میں کچھ اسلام آنے لگا تھا تو ایوب خان کو بلا کر اس کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا گیا کہ ۵۶ء کا دستور بھی ختم کرو اور اس دستور ساز اسمبلی کو بھی ختم کردو‘ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری. یہ سب یہودیوں کی طرف سے ہو رہا ہے. بہرحال یہ آیاتِ الٰہی سے ہمارا نکل بھاگنا تھا جس کی وجہ سے شیطان ہمارے پیچھے لگ گیا اور آج ہم اس جگہ پر آ گئے ہیں کہ پاکستان شاید نسیاً منسیاً ہو جائے‘ یعنی بالکل ختم ہو جائے اور اس کا وجود تک نہ رہے. ؏ ’’تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں‘‘. یا پھر یہ کہ بھارت کا تابع مہمل بن کر رہ جائے اور سر جھکا کر رہے .