میں نے عرض کیا تھا کہ اس کے دو سبب ہیں. ایک اصل‘ بنیادی ‘ داخلی اور خود کردہ سبب ہے‘ جبکہ دوسرا خارجی اور فوری ہے‘ جو باہر سے آیا ہے اور یہ فوری سبب ہے .اس کے پیچھے اصل قوت یہود اور اسرائیل کی ہے‘ جو پاکستان کا خاتمہ چاہتے ہیں یا کم از کم یہ کہ اس کا ایٹمی اثاثہ ختم کر دیں ‘چاہے عسکری حملہ کر کے یا کسی اور ذریعے سے‘ تاکہ اس کے ایٹمی دانت توڑ کر اسے ہندوستان کے سامنے ڈال دیا جائے اور یہ ا س کا تابع مہمل بن جائے. جان لیجئے اس وقت یہودیوں کو خطرہ صرف پاکستان سے ہے. میں بارہا بیان کر چکا ہوں کہ۱۹۶۷ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد‘ جس میں اسرائیل کو بڑی فتح حاصل ہوئی تھی‘ یہودیوں نے پیرس میں ایک جشن منایا اور اس میں بن گوریان نے اپنی تقریر میں کہا کہ ہمیں کسی عرب ملک سے کوئی خطرہ نہیں ہے‘ ہمیں خطرہ ہے تو صرف پاکستان سے ہے. اور یہ بات ۱۹۶۷ء کی ہے جبکہ ابھی پاکستان ایٹمی طاقت نہیں تھا‘ اس کے باوجود انہیں پتا تھا کہ یہاں کچھ ایسے جذبات ہیں جن کی بنا پر امکان موجود ہے کہ یہاں اسلام ایک سماجی‘ سیاسی اور معاشی نظام کی حیثیت سے سامنے آ جائے. اور بن گوریان ہی وہ شخص ہے جس نے اپنی کتاب میں لکھا ہے :
".The Golden Era of our Diaspora was Muslim Spain" 

کہ ہمارے عہد ِ انتشار (جس میں ہمیں فلسطین سے نکال دیا گیا تھا) کا بہترین دَور مسلم سپین کا دور تھا. سپین کی فتح میں یہودیوں نے طارق بن زیاد کی مدد کی تھی‘ اس لیے کہ عیسائی یہودیوں پر سخت ظلم ڈھاتے تھے. لہذا طارق بن زیاد اور بعد کے مسلمان حکمران یہودیوں کی بہت قدر کرتے تھے اور انہیں وہاں بڑا عروج حاصل ہوا. چنانچہ انہیں خوب اندازہ ہے کہ ان کے خلاف کہاں سے طاقت آئے گی. جان لیجئے کہ یہودی انبیاء کی پیشین گوئیوں کو خوب جانتے ہیں. حضور کی احادیث میں جو پیشین گوئیاں ہیں انہیں ان سے بھی پوری آگاہی ہے.

امریکہ میں ۱۱؍ستمبر کا واقعہ اسرائیل کی ’’موساد‘‘ نے ہی امریکہ میں بہت اعلیٰ مناصب پر فائز یہودیوں کے تعاون سے کرایا جو وہاں کی انتظامیہ کے اندر گھسے ہوئے ہیں ‘ورنہ یہ ناممکن تھا. امریکہ کے حکمرانوں میں سے ایک بہت بڑے ذمہ دار شخص نے یہ تسلیم کیا ہے کہ یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ اسامہ کے پاس کوئی ایسا ساز و سامان نہیں ہے کہ وہ ۱۱؍ستمبر والا واقعہ کر سکے. یہ بات اُس وقت میں نے بھی کہی تھی کہ ایسی مہم جوئی اسامہ کے لیے ممکن نہیں. اب تواس پر کتابیں لکھی جا چکی ہیں‘ لیکن وہ ان چیزوں کو منظر عام پر نہیں آنے دیتے. اس فیصلے کے اندر امریکی حکومت کے لوگ موساد کے ساتھ شامل تھے. جہاز نے جیسے ہی ٹیک آف کیا تھا ایک گیس چھوڑ دی گئی تھی جس سے پائلٹ اور مسافر سب ہلاک ہو گئے اور اس جہاز کے اندر ایک کمپیوٹرائزڈ پروگرام پہلے ہی رکھا جاچکا تھا کہ جیسے ہی پائلٹ ختم ہو وہ کمپیوٹر جہازکا پورا نظام کنٹرول کرے گا اور اس میں سارا پروگرام کہ جہاز کو کہاں جانا ہے اور کہاں ٹکرانا ہے پہلے سے 
feed کر دیا گیا تھا. بہرحال یہ ۱۱؍ستمبر کا سانحہ یہودیوں کا کیا ہوا ہے‘ لیکن طاقتور ذرائع ابلاغ کے ذریعے اس کا رخ فوراً ’’القاعدہ‘‘ کی طرف پھیر دیا گیا .اور میں نے تو ’’القاعدہ‘‘ کا لفظ پہلی بار صدر بش کی زبان سے ہی سنا تھا ‘ ورنہ میرے علم میں نہیں تھا کہ یہ کون سی تنظیم ہے اور اس کا صغریٰ کبریٰ کیا ہے. جب ۱۱؍ستمبر کا حادثہ پیش آگیا تو صدر مشرف ایک ہی ٹیلی فون پر بتاشے کی طرح بیٹھ گئے اور ’’یوٹرن‘‘ لے لیا. گویا ؏ ’’دھمکی میں مر گیا‘ جو نہ بابِ نبرد تھا!‘‘ اس حادثے کے پانچ دن بعد ۱۶؍ستمبر ۲۰۰۱ء کو انہوں نے علماء و مشائخ کا ایک اجلاس بلایا اور اس میں مجھے بھی دعوت دی گئی ‘حالانکہ میں نہ تو سکہ بند علماء میں سے ہوں اور نہ مشائخ میں سے. بہرحال اللہ تعالیٰ کو میرے ذریعے سے کچھ کہلوانا تھا جس کی ایک شکل پیدا کر دی گئی. دراصل صدرصاحب نے ان لوگوں کو اپناہم خیال بنانے کے لیے بلایا تھا جو رائے عامہ ہموار کرنے میں حصہ لیتے ہیں. صدر صاحب کی تقریر کے بعد سب لوگوں نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا. ایک حق بات تو سب نے کہی کہ جناب ابھی تک اسامہ اور طالبان کے خلاف کوئی جرم ثابت نہیں ہوا ہے اور ثبوتِ جرم کے بغیر سزا دینا عدل و انصاف کے اصولوں کے خلاف ہے. لیکن اکثر حضرات نے یہ باتیں ذرا دبی زبان میں کہیں‘ جبکہ کچھ لوگوں نے تو بڑا چاپلوسانہ انداز اختیار کیا‘جس سے مجھے غصہ آنا شروع ہوگیا. جب میری باری آئی تو میں نے کہا ’’دیکھئے صدر صاحب! اگر آپ نے اِس وقت طالبان کے خلاف امریکہ کا آلہ کار بننا پسند کیا تو تین باتیں نوٹ کر لیجئے! اوّلاً یہ عدل و انصاف کے مسلمہ اصولوں سے بغاوت ہوگی‘ اس لیے کہ ابھی کوئی جرم ثابت نہیں ہوا. دوسری بات یہ کہ یہ غیرت اور حمیت کے خلاف ہوگا. ہم نے طالبان حکومت کی حمایت کی. پاکستان نے طالبان کو بے نظیر کے دورِ حکومت میں وزیر داخلہ نصیر اللہ بابر کے ذریعے سے سپانسر کیا اور خود امریکہ اسے سپانسر کرنے والوں میں شامل ہے ‘اور ہم نے طالبان حکومت کو تسلیم بھی کیا ہے اور اسلام آباد میں آج بھی اس کا سفارت خانہ موجود ہے‘ان کے سفیر ملا ضعیف موجود ہیں. بس صرف ایک دھمکی پر آپ ان سے پیٹھ پھیر لیں یہ سراسر غیرت و حمیت کے منافی ہے. آخر غیرت بھی کسی شے کا نام ہے ؎ 

غیرت ہے عجب چیز جہانِ تگ و دو میں 
پہناتی ہے درویش کو تاج سر دارا!

لیکن ہمارا حال بحیثیت مجموعی یہ ہو گیا ہے کہ اب کوئی غیرت و حمیت باقی نہیں رہی. ؏ ’’حمیت نام تھا جس کا گئی تیمور کے گھر سے‘‘ . اور تیسری بات میں نے یہ کہی کہ یہ اللہ اور اس کے دین اسلام کے خلاف بغاوت ہو گی. اس لیے کہ ایک مسلمان ملک کے خلاف ایک غیر مسلم کی مدد کرنا اسلام سے بغاوت ہے.

صدر صاحب نے اپنی تقریر میں تین مصلحتیں بیان کی تھیں کہ ’’امریکہ کا ساتھ دینے سے (i)ہمارا کشمیر کا مسئلہ حل ہوجائے گا ‘ امریکہ اسے حل کرا دے گا. (ii)ہمارا ایٹمی اثاثہ محفوظ رہے گا. (iii)ہم اس وقت کسی خطرے سے دوچار نہیں ہوں گے‘‘. میں نے کہا کہ آپ کی یہ تینوں باتیں ٹھیک ہیں‘ لیکن یہ عارضی ہیں. بہت جلد آپ کی باری بھی آکر رہے گی. اس لیے کہ ان تمام واقعات کے پیچھے اصل سازش اسرائیل کی ہے‘ امریکہ کی نہیں ہے اور اسرائیل کا سب سے بڑا ہدف پاکستان ہے. اسرائیلیوں کو توقع یہ تھی کہ امریکہ ایک دم افغانستان اور اس کے حمایتی پاکستان پر جھپٹے گا ‘لہذا آپ کی باری تو آ کر رہے گی‘ یہ نہ سمجھئے کہ آپ بچ جائیں گے.

اب مجھے قطعاً خوشی نہیں ہے کہ میری پیشین گوئی حرف بہ حرف صحیح ثابت ہوئی. مجھے افسوس ہے‘ لیکن مجھے بھی یہ توقع نہیں تھی کہ اتنی جلدی معاملہ یہاں تک پہنچ جائے گا. آج صورت حال یہ ہے کہ وہ تمام مصلحتیں ایک ایک کر کے دامن چھڑاتی جا رہی ہیں. 
سب سے پہلے مسئلہ کشمیر کو لیجئے! اوّلاًیہ کہ بھارت کے مقابلے میں ہمیشہ سے ہمارا موقف یہ رہا ہے کہ پہلے کشمیر پر بات ہو گی پھر کسی اور مسئلے پر ! اور یہ بات بہت عرصے سے چلی آ رہی ہے. لیکن اب ہم اس سطح پر آ گئے ہیں کہ باقی ساری باتیں ہو رہی ہیں مگر کشمیر کے مسئلہ پر بحث و مذاکرہ کہیں آس پاس بھی نہیں ہے. ہمارے وزیر خارجہ بھی کہہ رہے ہیں یہ کوئی ایک دو دن یا دوچار مہینوں میں حل ہونے والا مسئلہ نہیں ہے. کشمیر پر بات کرنے سے قبل بھارت جو 
Full Normalization چاہتا تھا آج ہم نے اس کے سامنے ہتھیار ڈال دیے ہیں. ثانیاً یہ کہ جس جہاد کو ہم چودہ سال سے سپانسر کر رہے تھے اور اسے جہاد فی سبیل اللہ قرار دے رہے تھے اس سے بھی ہم نے ہاتھ اٹھا لیا .اس کا ردّعمل کشمیریوں میں یہ ہوا ہے کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان نے ہم سے دھوکہ کیا ہے اس نے ہم کو مروایا ہے. میں جہاد کے نام پر کشمیر میں خفیہ مداخلت کا ہمیشہ سے مخالف تھا‘ اب میں بڑی تلخ بات کہہ رہا ہوں کہ پاکستان نے کشمیریوں سے ۱۹۶۵ء کا بدلہ لیا ہے. پاکستان نے ۱۹۶۵ء میں اپنے بہترین کمانڈوز کو اس توقع پر کشمیر میں داخل کر دیا تھاکہ کشمیری مسلمان مدد کریں گے‘ لیکن کشمیریوں نے کوئی حمایت نہیں کی اور وہ تقریباً سارے کے سارے شہید ہوگئے. اس کے برعکس یہ ہوا کہ بھارت پلٹ کر لاہور پر حملہ آور ہو گیااور ہماری ساری کوشش ناکام ہوگئی. کشمیریوں کے جہادِ حریت میں اگرچہ پاکستان سے بھی بہت سوں نے وہاں جا کر جانیں دی ہیں‘ لیکن مصائب کا اصل پہاڑ تو کشمیریوں پر ٹوٹتا رہاہے‘ عصمت دری تو ان کی عورتوں اور بیٹیوں کی ہوئی ہے‘ انہی کے گھروں کو مسمار کیا گیا ہے‘ انہی کی آبادیاں تھیں جو تھوک کے حساب سے جلا دی گئیں اور انہی کی دکانیں ختم ہوئی ہیں. میرے نزدیک پاکستان نے کشمیریوں سے گویا ۱۹۶۵ء کا بدلہ لیا ہے جبکہ انہوں نے پاکستان کی حمایت نہیں کی تھی.

دوسرے یہ کہ اس وقت ایٹمی پروگرام کی بھی جو صورت بن چکی ہے نہایت مخدوش ہے. ہمارے خلاف بھرپور مقدمہ تیار ہو چکا ہے کہ دنیا میں جو بھی ایٹمی پھیلاؤ ہوا ہے پاکستان اس کا مرکزہے. اور ہم نے اپنے ٹیلی ویژن پر اپنے سب سے بڑے ایٹمی سائنس دان سے اقرار کروا کر یہ الزام تسلیم بھی کر لیا ہے. اس کے علاوہ ایران اور لیبیا نے بھی ہمارے خلاف چغلی کھائی ہے. تو اب ہمارے خلاف مقدمہ تیار ہے. اور ان کے پاس اس وقت سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ پاکستان میں اس بات کا خطرہ موجود ہے کہ مولوی برسراقتدار آ جائیں . متحدہ مجلس عمل کو جو کامیابی حاصل ہوئی ہے اور بڑی بڑی داڑھیوں اور پگڑیوں والے حضرات کی معتدبہ تعداد پاکستان کی پارلیمنٹ میں پہنچ چکی ہے‘ جبکہ اس سے پہلے صرف دو تین ہوا کرتے تھے‘تو اس سے انہیں خطرہ لاحق ہو گیا ہے کہ کسی مرحلے پر بھی حکومت غیر مستحکم ہو کر ان کے پاس جا سکتی ہے. مشرف کو مارنے کی دو مرتبہ نہیں کئی مرتبہ کوشش کی جا چکی ہے‘ لہذا ان کو یہ اندیشہ ہے کہ یہ ایٹمی ہتھیار بنیاد پرستوں (ان کے بقول دہشت گردوں) کے ہاتھ نہ لگ جائیں. لہذا وہ چاہتے ہیں 
ہیں کہ اپنا ایٹمی پروگرام یا تو ہمارے حوالے کر دو یا ہمارا کنٹرول قبول کرو‘ تاکہ ہم کسی بھی وقت آکر معائنہ کر سکیں کہ تم کوئی قابل اعتراض حرکت تو نہیں کر رہے ہو. اور اب یہ مطالبہ آئے گا کہ اس کو رول بیک کرو‘ کیپ کرو ‘ورنہ تمہارا حشر بھی وہی ہو گا جو افغانستان و عراق کا ہوچکا ہے.

خود مشرف صاحب نے حالیہ علماء کنونشن میں کہا ہے کہ پاکستان پر حملہ بھی ہو سکتا ہے. ان کی ایک بات کی میں ہمیشہ تعریف کرتا رہا ہوں کہ یہ صاف گو انسان ہیں منافق نہیں ہیں ‘جو اُن کے دل میں ہوتا ہے کھل کر کہہ دیتے ہیں‘ البتہ ان کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے. وہ پاکستان کی نظریاتی بنیادوں سے واقف نہیں ہیں‘وہ پاکستان کی وجہ جواز کو نہیں جانتے‘ لیکن پاکستان سے مخلص ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ مستحکم رہے. اور اس اعتبار سے وہ صاف گو ہیں. لہذا انہوں نے صاف کہہ دیا کہ ہم پر حملہ ہو سکتا ہے‘ یہ نہ سمجھو کہ یہ کوئی بہت ہی بعید بات ہے. البتہ اب انہوں نے ایٹمی ہتھیاروں کے بارے میں جو یہ بات کہی ہے کہ ہم جان د ے کر بھی ان کی حفاظت کریں گے‘ میں نے اس پر جمعۃ المبارک کے خطبے میں انہیں مبارک باد دی اور میں نے دعا بھی کی کہ اللہ تعالیٰ انہیں اور پوری فوج کو استقامت عطا کرے. لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا معروضی حقائق بدل گئے ہیں؟ ہمارے دانشور اور کالم نویس یہ کہتے رہے ہیں کہ احمق لوگ ہیں جن کا موقف یہ ہے کہ ہمیں ڈٹ جانا چاہیے تھا‘ جو زمینی حقائق سے واقف ہی نہیں ہیں. زمینی حقائق تو اب پہلے سے زیادہ خوفناک ہیں. یہ بھی مشرف صاحب کی ہمت ہے کہ اگرچہ خود اُن کا مقصد پورا کر رہے ہیں لیکن ابھی تک انہوں نے امریکی افواج کو پاکستانی علاقے میں آپریشن کرنے کی اجازت نہیں دی‘ حالانکہ ان پر شدید دباؤ ہے. ایک بڑا امریکی اہلکار تو کہہ کر بھی گیا ہے کہ مشرف ابھی نہیں مانتے‘ لیکن مسکرا کر کہا کہ ’’مان جائیں گے‘‘. اس مسکراہٹ میں یہ پیغام مضمر تھا کہ ہم نے ذوالفقار علی بھٹو کو دھمکی دی تھی اور پوری کر کے دکھا دی تھی‘ لیاقت علی خان نے ہمارے نظام کو چیلنج کرنا چاہا تھا تو اس کا انجام تم خوب جانتے ہو. شاہ فیصل شہید نے ہمارے خلاف تیل کاہتھیار استعمال کیا تھا‘ اُن کا حشر بھی 
تمہیں یاد ہے! تو ذرا ایک اور دھمکی دیں گے. ایک دھمکی میں اس نے پہلے بھی سرتسلیم خم کر دیا تھا تو دوسری دھمکی میں یہ بات بھی مان جائے گا. ؏ ’’دھمکی میں مر گیا ‘جو نہ بابِ نبرد تھا!‘‘ …اللہ کرے ایسا نہ ہو‘ اللہ کرے کہ وہ ثابت قدم رہیں … لیکن کیا آپ امریکہ کا مقابلہ کر سکتے ہیں؟ زمینی حقائق کو دیکھئے تو کوئی امکان ہی نہیں ہے. دنیا کی کوئی طاقت بھی اس کا مقابلہ نہیں کر سکتی ‘ ہم تو کچھ بھی نہیں ہیں.