البتہ نجات کی ایک راہ ابھی کھلی ہوئی ہے. قرآن مجید کی ایک آیت ہے :

وَ ہُوَ الَّذِیۡ فِی السَّمَآءِ اِلٰہٌ وَّ فِی الۡاَرۡضِ اِلٰہٌ ؕ (الزخرف:۸۴)
’’اللہ وہ ہے جو آسمان میں بھی الٰہ ہے (معبود ہے‘ حاکم ہے) اور زمین میں بھی الٰہ ہے.‘‘ 

ایسانہیں کہ زمین کا خدا کوئی اور ہے اور آسمان کا خدا کوئی اور. لیکن اِس وقت امریکہ دعوے دار ہے کہ زمین کا خدا میں ہوں. گویایہ دنیا میں نائب دجال کی حیثیت میں آگیا ہے. جیسے امام خمینی نے کہا تھا کہ امام مہدی تو جب آئیں گے آئیں گے‘ کوئی نائب مہدی بھی کھڑا ہو اور کام کرے. چنانچہ انہوں نے اپنے آپ کو نائب امام قرار دیا .تو یہ دجال کا نائب ہے جوپوری زمین پر قبضہ کرنے کے ارادے سے سامنے آ گیا ہے. لہذا چونکہ اللہ ہی آسمانوں کا بھی خدا ہے اور زمین کا بھی تو اُس کی مدد کو پکارو‘ وہ مدد کرے گا تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا. غیر مرئی ذریعوں سے تمہاری مدد ہو گی‘ فرشتے تمہاری مدد کو آئیں گے ‘اللہ تعالیٰ معجزے دکھا کر بھی تمہیں بچائے گا‘ بشرطیکہ ثابت قدم رہو. لیکن اللہ کی امداد کے حصول کے لیے ایک لازمی شرط ہے اور اس کا نام ہے ’’توبہ‘‘ کہ پلٹو اللہ کی طرف! تم نے پاکستان کی منزل بھلا دی تھی‘ اسے دوبارہ یاد کرو. پاکستان کے مقصد کو پورا نہیں کیا تھا اب اس کا کم سے کم آغاز کر دو! مجھے اُمید ہے کہ محض آغاز پر بھی اللہ کی رحمت ہمارے شامل حال ہوجائے گی. میں یہ نہیں کہتا کہ اسلام ایک دم نافذ کر دو‘ پوری شریعت ایک دم نافذ کر دو ‘میں بھی مانتا ہوں کہ یہ ایک دم ہونے والی بات نہیں ہے. لیکن ایک عزم صادق کے ساتھ آغاز تو کرو. 

اللہ تعالیٰ توبہ کو 
reciprocate کرتا ہے. یعنی اللہ اور بندے کے مابین توبہ کا معاملہ دو طرفہ ہوتا ہے. بندے بھی تواب بھی ہوتے ہیں اللہ بھی تواب ہے. بندے اُس کی طرف پلٹتے ہیں تو اللہ بھی پلٹتا ہے. بندے اپنے گناہ اور عصیان کی وجہ سے اللہ سے رخ موڑ لیتے ہیں تو اللہ بھی ان کی جانب سے رُخ موڑ لیتا ہے. بندے اللہ کی طرف دوبارہ متوجہ ہو جائیں تو اللہ بھی اپنی رحمت کے ساتھ دوبارہ متوجہ ہو جاتا ہے. اور اس کی شان کیا ہے؟ ایک حدیث ِقدسی میں آیا ہے : 

اِنْ تَقَرَّبَ مِنِّیْ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ اِلَیْہِ ذِرَاعًا وَاِنْ تَقَرَّبَ اِلَیَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ مِنْہُ بَاعًا ‘ وَاِنْ اَتَانِیْ یَمْشِیْ اَتَیْتُہٗ ھَرْوَلَۃً (متفق علیہ)

’’میرا بندہ اگر میری طرف بالشت بھر آئے مَیں ہاتھ بھر آؤ ں گا‘ اگر وہ ہاتھ بھر آئے تو میں بازو بھر آؤ ں گا اور اگر وہ چل کر آئے تو میں دوڑ کر آؤ ں گا.‘‘
 
یہ ہے اللہ تعالیٰ کی طرف سے دو طرفہ معاملہ .