اب حکومت کی سطح پر توبہ کا آغاز کیا ہے؟پاکستان کے دستور میں قراردادِ مقاصد پہلے ایک دیباچے کی شکل میں تھی اور ا ب وہ دفعہ ۲.الف کی حیثیت سے دستور کا حصہ بن چکی ہے. پھر ایک موقع پر دفعہ ۲۲۷ آئی تھی جس کے الفاظ ہیں: 

"No Legislation will be done repugnant to the Quran and Sunnah"
یعنی ’’پاکستان میں قرآن و سنت کے خلاف نہ کوئی قانون نافذ رہے گا نہ مزید بنے گا‘‘. 

گویا موجودہ (existing) قوانین بھی اگر خلافِ شریعت ہیں تو انہیں ختم کیا جائے گا اور مزید قانون سازی بھی قرآن و سنت کے خلاف نہیں کی جائے گی لیکن ایک چور دروازہ ایسا کھلا ہوا ہے کہ دونوں آرٹیکل غیر مؤثر (defunct) ہیں. قراردادِ مقاصد کو ہمارے جسٹس نسیم حسن شاہ صاحب نے یہ کہہ کر ردّ کر دیا کہ یہ بھی باقی دفعات کی طرح دستور کی بس ایک دفعہ ہے‘ دستور کی باقی دفعات کے اوپر حاکم تو نہیں ہے .لہذا یاتو اس کے ساتھ اضافہ کیا جائے کہ: .Not withstanding anything against it 

یعنی قراردادِ مقاصد (دفعہ ۲ .الف) پورے دستور پر حاوی رہے گی.لیکن ایسا نہیں کیا گیا‘ بلکہ ایک مزید چور دروازہ فراہم کر دیا گیا کہ دفعہ ۲۲۷ کو اسلامی نظریاتی کونسل کے ساتھ نتھی کر دیا کہ وہ جن قوانین کو خلافِ شریعت سمجھے گی اُن پر مسلسل غور کرتی رہے گی اور مسلسل رپورٹیں پیش کرتی رہے گی. لیکن اس سے آگے کچھ صراحت نہیں کہ ان رپورٹوں کا حشر کیا ہوگا. اس کونسل پر مسلمانوں کا کروڑوں روپیہ خرچ ہو چکا ہے ‘ کیونکہ پاکستانی خزانہ مسلمانوں کا ہی ہے. اس کونسل نے جتنی سفارشات بھی پیش کیں ان میں سے آج تک ایک کی بھی تنفیذ (implementation) نہیں کی گئی‘ان سفارشات اور رپورٹوں کے مسودات سے وزارتِ قانون ‘ وزارتِ داخلہ ‘ وزارتِ مذہبی امور اور وزارتِ مالیات کی الماریاں بھری پڑی ہیں. تو پہلا کام یہ ہو جانا چاہیے کہ دستور میں موجود اِس چور دروازے کو بند کر دیا جائے‘ تاکہ اصلاح کا مرحلہ شروع ہو جائے. 

ضیاء الحق صاحب نے فیڈرل شریعت کورٹ کے نام سے ایک بہترین ادارہ قائم کیا تھا کہ کسی قانون کے خلافِ شریعت ہونے کے بارے میں عدالت فیصلہ کرے گی. اس صورت میں ہر شخص عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاسکتا ہے کہ فلاں قانون اسلام کے خلاف ہے ‘ اسے ختم کرو. اب اگر شریعت کورٹ اسے کتاب و سنت کے منافی قرار دے دیتی ہے تو اسے اختیار ہو گاکہ وہ اسے ختم کر دے. البتہ اگر وہ قانون مرکزی حکومت سے متعلق ہو گا تو اسے مہلت دے گی کہ اتنے مہینوں کے اندر اندر اس قانون کا کوئی بدل بنا لو ورنہ فلاں تاریخ سے یہ دفعہ ساقط ہو جائے گی. اسی طرح اگر وہ معاملہ صوبائی حکومت سے متعلق ہو گا تو یہ نوٹس صوبائی حکومت کو چلا جائے گا اور مہلت ِ مدت گزرنے کے بعد وہ فیصلہ نافذ ہو جائے گا. لیکن ضیاء الحق صاحب نے ساتھ ہی شریعت کورٹ کو دو ہتھکڑیاں بھی پہنا دیں اور دو بیڑیاں بھی ڈال دیں ‘کہ دستورِ پاکستان اُس کے دائرے سے خارج ہے‘ عائلی قوانین اُس کے دائرہ کار سے خارج ہیں‘ کریمینل اور سول کوڈ بھی اُس 
کے دائرے سے خارج ہیں اور مالی معاملات بھی دس سال کے لیے اُس کے دائرے سے خارج ہیں. دس سال کی مدت چونکہ ٹائم بم کی طرح تھی لہذا وہ پھٹ گئی اور ہماری شرعی عدالت نے بینک انٹرسٹ کو ’’ربا‘‘ قرار دے کر حرام قرار دے دیا. لیکن دس سال کے بعد اس کا جو حشر ہوا ہے وہ انتہائی افسوس ناک ہے . کم سے کم ۱۵ سال کی مشقت اور محنت کو ایک فیصلے نے صفر کر دیا. وفاقی شرعی عدالت کے ایک جج تقی عثمانی صاحب کو بھی نکال کر باہر پھینک دیا گیاکہ شریعت کے معاملے میں یہ ایک روڑا ہے جو چبایا نہیں جاسکے گا. اس کے بعد دو جج اور لائے گئے‘ لیکن گمانِ غالب ہے کہ ان سے پہلے ہی وعدہ لے لیا گیا کہ تم بینک انٹرسٹ کو سود نہیں کہو گے‘ تب ان سے حلف اٹھوایا گیا (واللہ اعلم!). تو پہلے نمبر پر یہ ضروری ہے کہ دفعہ ۲۲۷ کو قراردادِ مقاصد کے ساتھ نتھی کر دیا جائے‘ یعنی ۲.اے کے بعد ۲.بی کر دیا جائے‘ تاکہ معلوم ہو کہ قراردادِ مقاصد میں جو کچھ لکھا گیا ہے یہ اس کی تنفیذ کا ذریعہ ہے. اور اسلامی نظریاتی کونسل (Council of Islamic Idealogy) کو چاہے ختم کر دیا جائے چاہے اسے اپنے لیے سفارشات حاصل کرنے کے لیے باقی رکھا جائے‘ لیکن فیڈرل شریعت کورٹ کی یہ ہتھ کڑیاں اور بیڑیاں کھول دی جائیں. اس لیے کہ اسلام مکمل نظامِ حیات ہے‘ اس کے حصے بخرے نہیں ہو سکتے. قرآن کریم میں اس طرزِ عمل پرشدیدوعید وارد ہوئی ہے:

اَفَتُؤۡمِنُوۡنَ بِبَعۡضِ الۡکِتٰبِ وَ تَکۡفُرُوۡنَ بِبَعۡضٍ ۚ فَمَا جَزَآءُ مَنۡ یَّفۡعَلُ ذٰلِکَ مِنۡکُمۡ اِلَّا خِزۡیٌ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یُرَدُّوۡنَ اِلٰۤی اَشَدِّ الۡعَذَابِ ؕ (البقرۃ:۸۵

’’کیا تم کتاب (اور سنت) کے ایک حصے کو مانتے ہو اور ایک کو ردّ کرتے ہو؟تو تم میں سے جو کوئی بھی یہ حرکت کرے گا اُس کی سزا دنیا کی زندگی میں رسوائی کے سوا اور کچھ نہیں ہے. اور آخرت میں انہیں شدید ترین عذاب میں جھونک دیا جائے گا.‘‘ 

کیونکہ اس طرح تو وہ منافق ہوئے! شریعت ِ الٰہی کے ایک حصے کو ماننا اورایک کو نہ ماننا منافقت ہے‘ اور منافقین کے بارے میں ارشادِ الٰہی ہے : اِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ فِی الدَّرۡکِ الۡاَسۡفَلِ مِنَ النَّارِ (النساء:۱۴۵)
’’یقینا منافقین آگ کے سب سے نچلے درجے میں ہوں گے.‘‘

مزید برآں شریعت کورٹ کے ججوں کا سٹیٹس ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کے برابر رکھا جائے. کسی جج کو معطل نہیں کیا جا سکتا ‘ چاہے ہائی کورٹ کا جج ہو یا سپریم کورٹ کا‘ ایک دفعہ کوئی جج بن گیا ہے تو چاہے وہ حکامِ بالا کی پسند کے خلاف فیصلہ دے دے اسے نکالا نہیں جا سکتا‘ اس سے تقی عثمانی جیسا سلوک نہیں کیا جا سکتا.البتہ اس کے فیصلوں کے ضمن میں ریویو کی گنجائش کشادہ رکھی جائے. پھر شریعت کورٹ کے ججوں کی تنخواہیں اور مراعات بھی ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کے ججوں کے برابر کر دی جائیں. یہ کام اگر ہو جائے تو یوں سمجھئے حکومتی اور ریاستی سطح پر ’’توبہ‘‘ کا آغاز ہو جائے گا.
 
ہم نے نوازشریف کے زمانے میں سود کے خلاف ایک مہم چلائی تھی.میاں محمد شریف‘ نواز شریف‘ شہباز شریف اور عباس شریف چاروں ’’شرفاء‘‘ دو مرتبہ میرے پاس تشریف لائے اور پکا قول و قرار کر کے گئے کہ ہم سود کو ختم کریں گے. میاں شریف صاحب نے اپنے بیٹوں سے کہا تھا کہ چھ مہینے کے اندر اندر سود کو ختم کرو. اگرچہ میں نے کہا تھا کہ ایک سال کی مہلت بھی ٹھیک ہے‘ لیکن انہوں نے کہا نہیں‘ ہمیں صرف چھ مہینے میں اسے ختم کرنا ہے. لیکن ختم کیا کرنا تھا ‘ اس مسئلے کا تو بیڑا ہی غرق کروا دیا.