بھارت کی جانب سے محبت کی پینگیں!

اس ضمن میں خاص طور پر ایک نکتہ اور جان لیجئے کہ بھارت کی طرف سے پچھلے دو تین سالوں سے جو باتیں سننے کو مل رہی ہیں اس سے قبل کے پچاس سالوں میں وہ باتیں کبھی سننے میں نہیں آئیں. کیا کبھی کسی نے کہا تھا کہ یہ لکیر (باؤنڈری) اٹھا دینی چاہیے؟ یا کسی نے کہا تھا کہ کنفیڈریشن بن جانی چاہیے؟ لیکن اب ان کے حوصلے بڑھ رہے ہیں. وہ دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان اب بین الاقوامی حالات کے شکنجے میں آ چکا ہے‘ پاکستان کے خاتمے کا امکان موجود ہے. لہذا ان کا اب آخری ہتھیار آ رہا ہے کہ دشمن کو گڑ دے کر مارو. اب وہ محبت کے راگ الاپ رہے ہیں کہ ہم تو ایک تھے‘ ہمیں تو انگریزوں نے لڑوایا تھا‘ لہذا ہمیں پھر سے ایک ہو جانا چاہیے. مشرقی پنجاب کا سکھ وزیر اعلیٰ یہاں آ کر یہ کہہ گیا ہے کہ پاکستانی پنجاب کو بھارتی پنجاب سے مل جانا چاہیے ‘ہماری بولی ایک ہی ہے‘ صرف رسم الخط کا فرق ہے. اس کا مطلب یہی ہے کہ پاکستان اس پنجاب سے دستبردار ہو جائے اور اسے اپنے ملک سے کاٹ کر اور مشرقی پنجاب سے جوڑ کر ایک ملک بنا دے. سوچئے یہ سب کیوں ہو رہا ہے؟ سونیا گاندھی نے صاف کہا تھا ہم پاکستان کو تمدنی اور ثقافتی لحاظ سے تو فتح کر ہی چکے ہیں. کراچی میں ویڈیوز کی دکانیں جا کر دیکھ لیں‘ وہ انڈین فلموں کی ویڈیوز سے بھری ہوئی ہیں. یہ ان کی ثقافتی فتح ہے. اب صحافیوں کے طائفے آ رہے ہیں‘ پارلیمنٹ کے ممبران کے طائفے اور وفود آ رہے ہیں‘ دانشور چلے آرہے ہیں. یہ سب محبت کا راگ الاپتے ہوئے آ رہے ہیں. 

ہم مانتے ہیں محبت بڑی اچھی چیز ہے اور محبت کا جواب محبت سے دیا جانا چاہیے‘ لیکن بحالاتِ موجودہ یہ محبت ہمارے لیے خودکشی کا ذریعہ ہے. ہماری مثبت بنیاد اور وجہ جواز تو پہلے ختم ہو چکی ہے‘ ایک دوسری منفی بنیاد ہندو کا خوف تھی‘ اگر وہ بھی ختم ہو جائے تو پھر پاکستان کی بقا کے لیے توکوئی بنیاد بھی باقی نہیں رہے گی! اسے تو پھر بھارت کھینچ کر 
لے جائے گا. بھارت بہت بڑا ملک ہے ‘اس کے وسائل بہت زیادہ ہیں‘ اگرچہ اس کے مسائل بھی ہم سے دس گنا زیادہ ہیں ‘لیکن اس نے ایک ایسا دستوری نظام بنایا ہوا ہے کہ وہاں آج تک مارشل لاء نہیں لگا. ایک سال کے لیے ایمرجنسی لگی تھی اور وہ بھی دستور کے اندر تھی. ہندوستان میں آج تک کوئی ایک قدم بھی بالائے دستور نہیں اٹھایا گیا. تو اُس کا دستوری نظام بہت مستحکم ہے. انہوں نے پہلے دن سے ہی جاگیرداری ختم کر دی تھی‘ چنانچہ وہاں کی سیاست عوام کے ہاتھ میں ہے‘ وہاں کوئی جاگیردارنہیں ہے . انہوں نے ریاستیں ختم کیں اور جاگیردار ختم کیے. اب وہاں عوام کی طاقت ہے. اس حوالے سے اِس وقت پاکستان کے لیے ہندوستان کی محبت کے نغمے ’’kiss of death‘‘ یا ’’embrace of death‘‘ کے مترادف ہیں. 

ہندوؤ ں کے بارے میں مشہور ہے (معلوم نہیں وہ مائیتھالوجی ہے یا حقیقت) کہ وہ یہودیوں کی طرح اپنے دشمن کو زیر کرنے کے لیے خوبصورت عورتوں کا سہارا لیتے ہیں. لیکن ان کا طریق کار یہ ہوتا ہے کہ خوبصورت دوشیزاؤ ں کو سنکھیا دیتے ہیں اور تھوڑا تھوڑا کر کے اس کی مقدار کو بڑھاتے چلے جاتے ہیں جس سے ان کے اندر مزاحمت کی قوت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ زہر اُن کے لیے مہلک نہیں رہتا‘ لیکن اس طرح اُن کا خون زہر کا بہتا ہوا دریا بن جاتا ہے. تو جو بھی اُن دوشیزاؤں سے اختلاط کرتا ہے زہر اُسے ہلاک کردیتا ہے. ان دوشیزاؤں کو وہ ’’وِش کنیائیں‘‘ کہتے ہیں‘ یعنی زہریلی دوشیزائیں. یہودی بھی مسلمان نوجوانوں کو خوبصورت جوان لڑکیاں پیش کرکے انہیں اُن کے دامِ محبت میں گرفتار کر لیتے ہیں اور ان کے ذریعے سے اپنے مقاصد پورے کرتے ہیں. شاہ فیصل کو شہید کرنے والا ان کا اپنا بھتیجا تھا جو ایک یہودی لڑکی کے دامِ محبت میں گرفتار تھا اور وہ یہودی لڑکی اس کے سرپر سوار تھی. میں نے اس کا فوٹو دیکھا ہے کہ وہ لڑکی اس کے کندھے پر سوار ہے. چنانچہ اس وقت بھارت کی محبت کا معاملہ پاکستان کے حق میں انتہائی خطرناک ہے. ہاں اگر ہم نے یہاں اسلام نافذ کیا ہوتا تو محبت کے علمبردار سب سے بڑھ کر ہم ہوتے اورہم ایک پیغامِ ہدایت لے کر ان کے پاس جاتے. اور سلامتی و اسلام کا 
پیغام لے کر جانے والے مخلص ہونے چاہئیں ‘ لوگوں کے ہمدرد اور اُن سے محبت کرنے والے ہونے چاہئیں کہ وہ ہم سے نفرت کریں اور ہم محبت کریں‘ وہ پتھر ماریں اور ہم پھول پیش کریں. محمد رسول اللہ اور آپؐ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اجمعین کا یہی رویہ تھا. اگر ہم نے پاکستان کی تعمیر اُس کی نظریاتی بنیادوں پر کی ہوتی تو محبت کے پیغام بر بن کر ہم جاتے‘ لیکن اب جبکہ ہماری کوئی بنیاد ہی نہیں ہے‘ تووہ محبت تو ہمیں کھینچ کر لے جائے گی.