سب سے پہلی بات جو قرآن مجید سے ذہنی مناسبت پیدا کرنے میں ممد ّ ہے وہ یہ ہے کہ قرآن حکیم کی طویل سورتوںمیں سے اکثر و بیشتر کے آغاز اور اختتام پر جو آیات وارد ہوتی ہیں وہ بالعموم نہایت جامع ہوتی ہیں. یہ بات عام دُنیوی ادب کے اصول کے مطابق بھی ہے. جیسے کسی قصیدے یا غزل کے مطلع اور مقطع کو بہت اہمیت حاصل ہوتی ہے اور کسی قادر الکلام خطیب کے خطبہ کے افتتاحی اور اختتامی کلمات بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں‘ اسی طرح قرآن مجید کی اکثر طویل سورتوں کے آغاز اور اختتام پر وارد ہونے والی آیات بھی بہت جامع ہوتی ہیں. انہیں اصطلاحاً فواتح و خواتیم ِ سُوَر کہا جاتا ہے. چنانچہ سورۃ البقرۃ کی ابتدائی اور آخری آیات کی بڑی فضیلت وارد ہوئی ہے. یہی وصف بتمام و کمال سورۂ آل عمران کی زیر نظر آیاتِ مبارکہ میں موجودہے.

ان آیات کی عظمت و فضیلت کے بارے میں جو روایات واردہوئی ہیں ان میں سے دو کے ذکر پر اکتفا کیا جاتا ہے .اِن دونوں روایات کو امام رازیؒ اپنی تفسیر ِکبیر میں لائے ہیں. پہلی روایت حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے مروی ہے ‘ جسے ان آیات کا شانِ نزول بھی کہا جا سکتا ہے. ان سے ایک مرتبہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے یہ فرمائش کی کہ اے اُمّ المؤمنینؓ ! مجھے آپ وہ واقعہ سنائیے جو نبی اکرم کے احوال و واقعات میں آپ کو سب سے پیارا لگا ہو. حضرت عائشہ صدیقہؓ نے ایک گہرے احساس کے ساتھ یہ فرمایا کہ ’’آنحضور کی تو ساری ہی باتیں نہایت پیاری تھیں اور آپؐ ‘کی تو ہر ادا دل آویز تھی‘ تاہم تم نے فرمائش کی ہے تو مَیں تمہیں ایک واقعہ سناتی ہوں.ایک شب آنحضور میرے پاس تشریف لائے‘ لیکن اچانک آپؐ نے مجھ سے فرمایا: ’’اے عائشہ ؓ ! مجھے اجازت دو‘ میں اِس وقت اپنے اللہ کی عبادت کرنا چاہتاہوں‘‘. میں نے 
عرض کیا : حضورؐ ! مجھے آپؐ کا قرب نہایت عزیز ہے‘ لیکن جو چیز آپؐ کو پسند ہو وہ اس سے بھی زیادہ محبوب ہے‘ لہذا آپؐ کو اجازت ہے. تو آپ نماز پڑھنے کھڑے ہوئے اور آپؐ پر رقت طاری ہوئی اور آپؐ روتے رہے‘ یہاں تک کہ آپ کی داڑھی مبارک آنسوؤں سے تر ہو گئی. پھر آپؐ نے بہت طویل سجدہ کیا‘ اس میں بھی گریہ طاری رہا جس کی بنا پر سجدہ گاہ تر ہوگئی. پھر آپ کچھ دیر لیٹے رہے‘ لیکن وہ کیفیت آپؐ پر برقرار رہی‘ یہاں تک کہ صبح صادق ہو گئی اور آپؐ پر رقت اور گریہ کی وہی کیفیت طاری رہی. حضرت بلال رضی اللہ عنہ جب فجر کی نماز کی اطلاع دینے کے لیے حاضر ہوئے اور انہوں نے بھی آنحضور کی اس کیفیت کو دیکھا تو انہوں نے عرض کیا: حضورؐ ! آپؐ پر یہ رقت اور یہ گریہ کیسا؟ حالانکہ اگر بالفرض آپؐ سے کوئی خطا اور لغزش ہوئی بھی ہو تو اللہ تعالیٰ آپؐ کی تمام خطاؤں کو بخش دینے کا اعلان فرما چکاہے. تو جواب میں آپ نے فرمایا: ’’اے بلال! میں کیوں نہ روؤں کہ آج کی شب میں میرے ربّ نے مجھ پر یہ آیات نازل فرمائی ہیں‘‘. پھر آپ نے ان آیات کی تلاوت فرمائی:

اِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الۡاَلۡبَابِ ﴿۱۹۰﴾ۚۙ...الخ
دوسری روایت کے راوی حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں. وہ فرماتے ہیں :’’نبی اکرم کے معمول میں یہ شامل تھا کہ جب آپؐ رات کے وقت تہجد کے لیے بیدار ہوتے تو آنکھ کھلتے ہی بے اختیار آپ کی زبانِ مبارک پر یہ آیات جاری ہو جاتی تھیں‘‘. اب آپ چشم ِ تصور سے دیکھئے کہ اللہ کا محبوب بندہ پچھلی رات کو اٹھا. اوپرآسمان ہے‘ ستارے ہیں اور ماحول پر تاریکی اور سکون کی کیفیت طاری ہے. اِس وقت جو واردات قلب پر طاری ہو رہی ہے اس کی بہترین ترجمانی مندرجہ بالا آیاتِ مبارکہ سے ہو رہی ہے. معلوم ہوا کہ آنحضور کو اِن آیاتِ مبارکہ سے خصوصی شغف تھا.