ایمان چند ماورائی حقائق اور چند امورِ غیبی کو مان لینے کا نام ہے. لیکن اس ایمان کے دو درجے ہیں‘ ایک درجہ قانونی اور فقہی ایمان کا ہے جس کی بنیاد پرہم اس دنیا میں ایک دوسرے کو مسلمان سمجھتے ہیں. اس کا سارا دارومدار ’’اِقْرَارٌ بِاللِّسَان‘‘ پر ہے. یعنی زبان سے اقرار کرنا کہ میں مانتا ہوں اللہ کو‘ اُس کی صفاتِ کمال کو‘ اُس کی توحید کو میں مانتا ہوں آخرت کو ‘ قیامت کو‘ بعث بعد الموت کو‘ حشر و نشر کو‘ حساب کتاب کو‘ جزا و سزا کو‘ جنت و دوزخ کو اور میں مانتا ہوں نبوت و رسالت کو‘ ملائکہ کو‘ وحی کو‘ کتابوں کو ‘ نبیوں اور رسولوں کو اور حضرت محمدﷺ کے خاتم النبیین و المرسلین ہونے کو. ان امور کا زبانی اقرار دُنیا میں ہمارے مسلمان ہونے کی بنیادہے. ایمان کا دوسرا رُخ‘ یا دوسرا پہلو یا دوسرا درجہ ہے حقیقی ایمان کا اور وہ عبارت ہے قلبی یقین سے. یعنی ان تمام امور پر دل میں پختہ یقین پیدا ہو جائے. اس کا اصطلاحی نام ہے ’’تصدیقٌ بِالقلب‘‘. اور واقعہ یہ ہے کہ آخرت میں کامیابی و کامرانی اور فلاح و نجات کا دارومدار اس حقیقی و قلبی ایمان پرہے.
جہاں تک پہلے ایمان یعنی اقرارٌ باللّسان کا تعلق ہے‘ اس کے بارے میں گفتگو کی ہمیں خاص حاجت نہیں ہے. وہ تو ہمیں موروثی طور پر مل ہی گیا ہے. ہم مسلمانوں کے گھر میں پیدا ہوئے تو وراثت میں یہ عقائد ہمیں منتقل ہو گئے. لیکن اصل چیز وہ یقینِ قلبی ہے جس پر آخرت میں نجات کا انحصار ہے. ہمیں اس کی فکر کرنی چاہیے. چنانچہ وہ یقین ِ قلبی اور ایمانِ حقیقی ان آیات کا موضوع ہے.
اس ضمن میں یہ نکتہ نوٹ کر لینا چاہیے کہ اگر ایک انسان جس نے مسلمان معاشرے میں آنکھ کھولی اور وہ دین کے اوامر و نواہی پر کاربند ہے تو چاہے ذہن‘ فکر اور شعور کی سطح پر اسے ان ماورائی حقائق اور امورِ غیبی کا حقیقی ادراک حاصل نہ ہو تب بھی اسلامی شعائر و احکام پر مسلسل عمل کرنے سے اس کوایک نوع کے قلبی یقین کی کیفیت حاصل ہو جاتی ہے. اس لیے کہ جس طرح انسان کا باطن اس کے ظاہر پر اثر انداز ہوتا ہے اسی طرح اس کا ظاہری طرزِ عمل اور اس کا ظاہری رویہ بھی اس کے باطن پر عکس ڈالتاہے. چاہے آپ اسے ایک غیر شعوری یقین کہہ لیں لیکن وہ ہوتی یقین ہی کی کیفیت ہے. تاہم ہمیں اِس وقت اس سے بحث نہیں ہے. ان آیات میں جو گفتگو ہو رہی ہے وہ اکتسابی اور شعوری ایمان کی ہے جس کو ایک ذہین و فطین اور صاحب ِ شعور و ادراک انسان اپنے ذاتی غور و فکر کے نتیجے میں حاصل کرتا ہے. ایسے لوگوں کو اِن آیاتِ مبارکہ کی پہلی آیت میں’’اُولوالالباب‘‘ قرار دیا گیا ہے‘ یعنی ہوش مند لوگ‘ عقل سے کام لینے والے لوگ‘ صاحب ِ خرد لوگ. ان لوگوں کے متعلق فرمایا گیا ہے:
اِنَّ فِیۡ خَلۡقِ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضِ وَ اخۡتِلَافِ الَّیۡلِ وَ النَّہَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُولِی الۡاَلۡبَابِ ﴿۱۹۰﴾ۚۙ
’’یقینا آسمانوں اور زمین کی تخلیق میں اور رات اور دن کے الٹ پھیر میں نشانیاں ہیں ہوش مند (اور باشعور) لوگوں کے لیے.‘‘