اس مرحلے پر ’’ آیت‘‘ کا مفہوم سمجھنا ضروری ہے. آیت کے لغوی معنی ہیں ’’ نشانی‘‘. اب غور کیجیے کہ ہم ’’ نشانی‘‘ کسے کہتے ہیں!کسی شے ‘یا کسی شخص یا کسی ہستی کی نشانی وہ ہے کہ جس کو دیکھتے ہی ذہن بے اختیار اور بلا ارادہ اُس شے یا شخص یا ہستی کی طرف منتقل ہو جائے. فرض کیجیے کہ آپ کے پاس آپ کے کسی دوست کی ایک نشانی تھی. بہت عرصہ سے آپ کی اپنے اُس دوست سے ملاقات نہیں ہوئی‘ نہ کسی نوع کا ربط و تعلق رہا. اب آپ کا وہ دوست آپ کی یادداشت کے انبار میں گم ہو گیا ہے یا اس کی یاد شعور کی سطح سے محو ہو چکی ہے. لیکن کسی روز آپ کو اپنے سوٹ کیس یا کسی دوسرے سامان میں وہ رومال یا قلم یا کوئی دوسری چیز اچانک نظر آجاتی ہے جو آپ کے دوست نے اپنی نشانی کے طور پر آپ کو دی تھی تو اس نشانی کو دیکھتے ہی دفعتہ آپ کو اپنا وہ دوست یاد آجاتا ہے. یہ ہے نشانی کا حقیقی مفہوم اور اس کی اصل غایت. قرآن مجید کے نزدیک اس کائنات کاذرّہ ذرّہ اللہ کی نشانی ہے. یہ نشانیاں آفاق میں بھی ہیں اور اَنفس میں بھی. گویا یہ نشانیاں کائنات میں بھی ہر چہار طرف پھیلی ہوئی ہیں اور خود ہمارے اندر بھی موجود ہیں. جیسے کہ قرآن حکیم میں ایک مقام پر فرمایاگیا: سَنُرِیۡہِمۡ اٰیٰتِنَا فِی الۡاٰفَاقِ وَ فِیۡۤ اَنۡفُسِہِمۡ (حٰمٓ السجدۃ:۵۳’’ہم عنقریب انہیں دکھائیں گے اپنی نشانیاں آفاق میں بھی اور خود اُن کے اپنے وجود میں بھی‘‘. گویا اس کائنات کی وسعت اور انسان کے اپنے وجود کے باطن میں اللہ کی اَن گنت اور بے شمار نشانیاں موجود ہیں جن کو دیکھ کر اورجن پر غور و فکر کے نتیجے میں ایک صاحب ِ عقل وخرد کو اللہ یاد آسکتا ہے اور اس کی معرفت اس کے اپنے قلب کی گہرائیوں سے اُبھر کر اس کے شعور پر جلوہ آرا ہو سکتی ہے.