الغرض عقل اور فطرت دونوں کا تقاضا ہے کہ دنیا کی اس زندگی کے بعد ایک اور زندگی ہونی چاہیے جس میں اخلاقی نتائج بھرپور طورپر برآمد ہوں‘ چنانچہ نیکوکاروں کو ان کی نیکیوں کا بھرپور صلہ ملے اور بدکاروں کو اُن کی بدی کی بھرپور سزا ملے. یہ بات سورۃ القلم میں بایں الفاظِ مبارکہ فرمائی گئی :
اَفَنَجۡعَلُ الۡمُسۡلِمِیۡنَ کَالۡمُجۡرِمِیۡنَ ﴿ؕ۳۵﴾مَا لَکُمۡ ٝ کَیۡفَ تَحۡکُمُوۡنَ ﴿ۚ۳۶﴾
’’کیا ہم فرماں برداروں اور مجرموں کو برابر کردیں گے؟ تم لوگوں کو کیا ہوگیا ہے؟ تم کیسی (غیر معقول) رائے قائم کر رہے ہو؟‘‘
چنانچہ یہ ہے ایمان باللہ سے ایمان بالآخرۃ تک کا عقلی سفر کہ جب اولوالالباب اللہ کو یاد رکھتے ہوئے تخلیق ِ کائنات پر غور و فکرکرتے ہیں تو اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ یہاں کوئی شے بے مقصد‘ بے کار‘ عبث اور بلاغایت نہیں ہے تو پھر کیسے ہو سکتا ہے کہ ہماری فطرت اورہمارے باطن میں نیکی اور بدی اور بِر و تقویٰ اور فسق و فجور کا جو شعور موجود ہے وہ بے نتیجہ اور لاحاصل رہے. اس دنیا میں ان کا منطقی اور معقول نتیجہ نہیں نکل رہا‘ لہذا لازماً ایک دوسری زندگی ہونی چاہیے جس میں نیکی اور بدی کے بھرپور نتائج برآمد ہوں‘ نیکوکاروں کو جزا اور بدکاروں کو سزا ملے. جب یہ لوگ اس عقلی نتیجے تک پہنچ جاتے ہیں تو وہ اللہ کے سامنے گھٹنے ٹیک کر استدعا کرتے ہیں:
رَبَّنَا مَا خَلَقۡتَ ہٰذَا بَاطِلًا ۚ سُبۡحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ﴿۱۹۱﴾رَبَّنَاۤ اِنَّکَ مَنۡ تُدۡخِلِ النَّارَ فَقَدۡ اَخۡزَیۡتَہٗ ؕ وَ مَا لِلظّٰلِمِیۡنَ مِنۡ اَنۡصَارٍ ﴿۱۹۲﴾
’’اے ربّ ہمارے! تو نے یہ سب کچھ بے مقصدپیدا نہیں کیا. تو پاک ہے (کہ کوئی عبث کام کرے) پس تو ہمیں(آخرت میں) آگ کے عذاب سے بچائیو. اے ربّ ہمارے! (اس آخرت کی زندگی میں) جسے بھی تو نے آگ میں جھونک دیااسے تو بدرجۂ کامل ذلیل و رسوا کر دیا .اور (ہمیں اس بات کا یقین ہے کہ وہاں) ظالموں کا کوئی مددگار نہیں ہوگا.‘‘
حاصل ِ کلام یہ کہ اِن آیات میں خلاصہ ہے ایمان باللہ اور ایمان بالآخرۃ کے عقلی سفر کا. یہ قرآن حکیم کا وہ مظہری استدلال ہے جو قرآن مجید کی طویل مکی سورتوںمیں تو نہایت شرح و بسط کے ساتھ طویل مباحث کی صورت میں سامنے آتا ہے‘ لیکن اس مقام پر اِن تین آیات میں جس جامعیت کے ساتھ سمو دیا گیا ہے اس کی کوئی دوسری نظیر میرے محدود مطالعے کی حد تک قرآن حکیم میں موجود نہیں ہے. چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ اِن آیاتِ مبارکہ کی عظمت و جامعیت کا بیان ایک مختصر صحبت میں قطعاً ممکن نہیں ہے‘ تاہم امید ہے کہ ان گزارشات کے ذریعے ان کے جلال و جمال کی ایک ادنی ٰ جھلک ضرور سامنے آگئی ہوگی اور اصولاً یہ حقیقت منکشف ہو گئی ہو گی کہ اللہ پر ایمان اور آخرت پر ایمان کے ضمن میں قرآن حکیم کا اپنا مخصوص طرزِ استدلال کیا ہے اور وہ تلاشِ حق کے ضمن میں غور و فکر کے لیے کون سا راستہ تجویز کرتا ہے. اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس راہ سے یقین ِ محکم عطا فرمائے. آمین!