نظریۂ پاکستان کا تاریخی پس منظر

نحمدہٗ ونصلی علٰی رَسولہِ 
الکریم … امَّا بَعد: 
اعوذ باللّٰہ من الشَّیطٰن الرَّجیم .
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَ اذۡکُرُوۡۤا اِذۡ اَنۡتُمۡ قَلِیۡلٌ مُّسۡتَضۡعَفُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ تَخَافُوۡنَ اَنۡ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ فَاٰوٰىکُمۡ وَ اَیَّدَکُمۡ بِنَصۡرِہٖ وَ رَزَقَکُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ ﴿۲۶﴾ 
(الانفال)

قَالَ عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یُّہۡلِکَ عَدُوَّکُمۡ وَ یَسۡتَخۡلِفَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ فَیَنۡظُرَ کَیۡفَ تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۲۹﴾٪ (الاعراف) اللّٰہ تعالیٰ کی حمد و ثنا‘رسول اللّٰہ  پر درود و سلام‘ 
آیاتِ قرآنی کی تلاوت اور دعا کے بعد: 

ہمارے ہاں ایک طویل عرصے سے ’’نظریۂ پاکستان‘‘ کے حوالے سے ایک خلط مبحث پیدا کر دیا گیا ہے کہ ’’نظریۂ پاکستان‘‘ فی الواقع کوئی شے تھی بھی یا نہیں‘ کیا اسے ایسے ہی گھڑ لیا گیا ہے یا اس کی کوئی حقیقت ہے؟ دراصل جب کسی بات کے بارے میں controversy پیدا ہو جائے تو وہ بات چاہے کتنی ہی یقینی ہو‘ اس پر یقین میں ضعف پیدا ہو جاتا ہے. ان حالات میں ضرورت اس بات کی ہے کہ ٹھنڈے دل سے غور و فکر کے ساتھ تجزیہ کیا جائے کہ پاکستان کی بنیادوں میں نظریۂ پاکستان نام کی کوئی شے تھی بھی یا نہیں‘ اور اگر تھی تو وہ نظریہ کیا تھا؟اور خاص طور پر یہ کہ اس نظریہ کا خالق کون تھا؟ اس لیے کہ ابھی پچھلے دنوں اخبارات میں ایم کیو ایم کے لیڈر الطاف حسین صاحب نے خاص طو رپر یہ بیان دیا کہ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ علامہ محمد اقبال نظریۂ پاکستان کے خالق ہیں وہ بہت بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہیں.

اس حوالے سے آج ہم اس مسئلے کو ذرا اچھی طرح سمجھنے کی کوشش کریں گے. لیکن اس کے لیے ہمیں تاریخ کا جائزہ لینا ہو گا ‘ اور خاص طور پر یہ کہ ہندوستان میں انگریزوں کے آنے کے بعد مسلم انڈیا کن مسائل سے دوچار ہو گیا تھا. انگریز ہندوستان میں تاجر کی حیثیت سے آیا تھا‘ لیکن اٹھارہویں صدی کے وسط میں اُس نے یہاں کی حکومت پر قبضہ کرنے کے عمل کا آغاز کیا. اس سے پہلے ہندوستان میں مسلمانوں کی حکومت رہی. بعض علاقوں اور خاص طور پر موجودہ پاکستانی علاقوں پر تو تقریباً آٹھ سو برس سے مسلمانوں کی حکومت چلی آ رہی تھی ‘ جبکہ پورے ہندوستان پر بھی تقریباً چار سو برس تک مسلمانوں نے حکومت کی ہے. یعنی انگریزوں کی ہندوستان آمد سے قبل ہندوستان پر مسلمانوں کا غلبہ تھا اور مسلمان حاکم تھے‘ جبکہ یہاں کے دوسرے ابنائے وطن محکوم تھے. لیکن عین اُس وقت جبکہ انگریز آ رہا تھا‘ صورتِ حال کچھ بدل چکی تھی اور مرکزی حکومت یا بالفاظِ دیگر مغلیہ حکومت انتہائی کمزور ہو چکی تھی. حضرت اورنگزیب عالمگیر کے انتقال کے بعد سے جو زوال کا عمل شروع ہوا ہے تقریباً سو برس میں وہ اپنی انتہا کو پہنچ گیا. اور ایک وقت تو وہ بھی آیا کہ محاورے کے طور پر یہ کہا جانے لگا کہ ’’حکومت شاہ عالم از لال قلعہ تا پالم‘‘ .پالم دہلی سے چند میل کے فاصلے پر ایک گاؤں تھا جہاں بعد میں پالم ایئر پورٹ کے نام سے ہوائی اڈہ بنا. تو گویا شاہ عالم کی حکومت لال قلعے سے صرف پالم تک تھی اور بقیہ پورے ہندوستان میں طوائف الملوکی تھی. شمالی ہند میں سکھا شاہی تھی‘ وسطی ہند میں مرہٹوں کی دہشت گردی چل رہی تھی. پورا ہندوستان ریاستوں میں منقسم تھا. ان میں مسلمان ریاستیں بھی تھیں اور ہندو ریاستیں بھی تھیں. 

اس سب کے باوجود انگریز کی آمد کے وقت بحیثیت مجموعی مسلمانوں کا پلڑا بھاری تھا. لیکن ۱۸۵۷ء کے غدر کے فرو ہو جانے کے بعد اور ہندوستان کے براہِ راست تاجِ برطانیہ کے تحت آ جانے کے بعد ایک بڑا بنیادی فرق واقع ہوا. اس سے پہلے چونکہ شمشیر و سناں کا معاملہ چل رہا تھا تو گئے گزرے حالات میں بھی مسلمانوں کا پلڑا بھاری تھا. لیکن چونکہ تاج برطانیہ کے تحت حکومت شروع ہوئی قلم کے ذریعے سے (rule of law)‘ جیسے ایک وائسرائے کا قول ہے : 

"?Will you be governed by sword or by pen"

تو نتیجے کے طور پر صورتِ حال یہ پیدا ہوئی کہ اب تلوار تونیام میں چلی گئی اور صرف تعدادِ نفوس کا معاملہ رہ گیا. لہذا ہندوؤں کی عددی اکثریت کے اثرات ظاہر ہونے شروع ہو گئے اور مسلمانوں میں ایک خفیف سا خوف پیدا ہونا شروع ہوا کہ جن پر ہم نے تقریباً آٹھ سو برس حکومت کی ہے اب یہ ہم سے انتقام لیں گے.

اس سب پر مستزاد ایک بڑا عجیب معاملہ (phenomenon) سامنے آیا‘ جس پر میں چاہتا ہوں کہ آپ توجہ سے غور فرمائیں. ہندوستان میں انگریزی حکومت کے خلاف مسلمانوں اور ہندوؤں کے ردّعمل میں فرق تھا. ہندوؤں کا معاملہ یہ تھا کہ وہ پہلے بھی غلام تھے اور اب بھی غلام ہو گئے ‘ ان کے لیے کوئی نیا معاملہ نہیں تھا‘ بس آقاؤں کی تبدیلی کا معاملہ تھا کہ پہلے حاکم مسلمان تھے اور اب حاکم انگریز تھے. وہ توپہلے بھی محکوم تھے اور اب بھی محکوم رہے. لہذا اُن کے لیے کسی نفسیاتی صدمے اور رنج و غم کی بات نہیں تھی. لیکن اس کے برعکس مسلمانوں کے لیے بہت زیادہ صدمے اور غم کا معاملہ تھا. اس لیے کہ وہ ابھی ابھی تخت حکومت سے اتارے گئے تھے اور انہیں اپنی سابقہ کیفیت یاد تھی. یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر بغاوت کے جراثیم پیدا ہوئے . انگریز ابھی بنگال سے آگے بڑھ ہی رہا تھا کہ سید احمد شہید بریلویؒ اور شاہ اسماعیل شہیدؒ کی عظیم تحریک ’’تحریک شہیدینؒ ‘‘ شروع ہوئی. ان کے پیش نظر یہ تھا کہ پہلے شمالی ہند کو سکھا شاہی سے نجات دلائی جائے‘ اور پھرچونکہ یہ علاقہ عالم ِاسلام کے ساتھ مسلسل اور متصل ہو گا تو ادھر سے آ کر پھر ہندوستان کو ازسر ِنو ہندوؤں کے غلبے سے بھی اور انگریزوں کے غلبے سے بھی نجات دلائی جائے اور دار الاسلام کا جو سٹیٹس چلا آ رہاتھا اسے دوبارہ بحال کیا جائے.اگرچہ یہ تحریک بظاہر ۱۸۳۱ء میں شہادت گہ ِبالا کوٹ پر ختم ہوگئی‘ لیکن اس کے باقیات الصالحات تقریباً ایک صدی تک چلتے رہے. چنانچہ بہت سے علماء نے پھانسیوں کی سزائیں پائیں. مولانا جعفر تھانیسری جیسے بہت سے لوگ پھانسی دیے گئے یا کالا پانی بھیجے گئے. بے شمار لوگوں نے قید و بند کی سزائیں بھی برداشت کیں. اس کے علاوہ ہندوستان کے شمال مغرب میں ابھی تک تحریک مجاہدین کے جو جہادی اثرات باقی تھے انہوں نے ایک عرصے تک انگریزوں کے ناک میں دم کیے رکھا. 

یہ بھی واضح رہے کہ ہندوستان میں انگریزوں کے ہاتھوں سب سے آخر میں جو صوبہ فتح ہوا وہ سندھ تھا اور سندھی مسلمانوں نے انگریز کی اس حکومت کو ذہناً تسلیم نہیں کیا‘ لہذا وہاں’’حر ُتحریک‘‘ کے نام سے ایک بہت بڑی تحریک شروع ہوئی. ۱۹۴۰ء کی دہائی تک اخبارات میں اس طرح کی خبریں پڑھنے کو ملتی تھیں کہ آج حروں نے فلاں ریلوے اسٹیشن کو آگ لگا دی ہے اور آج فلاں تھانے کو جلا دیا ہے. موجودہ پیر پگاڑا 
صاحب کے والد صاحب کو انگریز نے پھانسی دے دی اور پھر اُن کی لاش تک نہیں دی‘ بلکہ ان کی قبر کا بھی کہیں نشان تک نہیں. اور اِن دونوں بھائیوں کو وہ انگلستان لے گئے تاکہ ان کی برین واشنگ کی جائے اور وہاں کی تہذیب و تمدن کا ان کے اوپر رنگ چڑھایاجائے .بہرحال یہ کیفیات تھیں جن کی وجہ سے انگریز کو مسلمانوں سے خوف اوراندیشہ تھا کہ کہیں یہ اپنی کھوئی ہوئی حکومت واپس حاصل کرنے کے لیے بڑے سے بڑا قدم نہ اٹھا دیں. 

بیسویں صدی کے آغاز تک ہمیں علماء کی ان تحریکوں کا سلسلہ نظرآتاہے. مثلاً بیسویں صدی کے آغاز میں ریشمی رومال کی تحریک ایک عظیم تحریک تھی. شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی ؒ نے ایک طرف اپنے نائب مولانا عبیداللہ سندھی ؒ ‘کو افغانستان بھیجا تھا کہ وہ افغانستان کی حکومت کو آمادہ کریں کہ وہ ہندوستان پر حملہ آور ہو. دوسری طرف آپ خود حجاز مقدس تشریف لے گئے تھے. اُس وقت تک تُرک خلافت قائم تھی اور مدینے میں ترک گورنر موجود تھا . آپ چاہتے تھے کہ دار الخلافہ تک رسائی حاصل ہو سکے‘ وہاں سے ہندوستان پر حملہ ہو اور ہم اندر سے بغاوت کر کے انگریز کو ختم کریں‘ لیکن یہ رازفاش ہو گیا اور پکڑ دھکڑ شروع ہو گئی. حضرت شیخ الہند کو مکہ مکرمہ سے گرفتار کر لیا گیا اور چار سال تک مالٹا کی اسیری میں رکھا گیا‘ اندازہ کیجیے کہ ایک ہندی مسلمان کو ہندوستان لا کر جیل میں نہیں رکھا گیا‘ صرف اس اندیشے کے پیش نظر کہ کہیں ان کے زیر اثر مسلمانوں کی طرف سے ہنگامہ آرائی نہ ہو جائے. جیسے علامہ اقبال کا شعر ہے : ؎
اقبال کے نفس سے ہے لالے کی آگ تیز
ایسے غزل سرا کو چمن سے نکال دو!

تو حضرت شیخ الہند کا معاملہ بھی ایسا ہی تھا کہ ان کے نفس تیز سے جو گرمی پیدا ہو رہی تھی اس کے پیش نظر انگریز نے انہیں ہندوستان کے بجائے چار سال تک مالٹا میں اسیر رکھا اور اُس وقت چھوڑاجبکہ ان کی ٹی بی اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی اور انہیں اندیشہ تھا کہ اگرہماری اسیری کے دوران میں ان کا انتقال ہو گیا تو اس پر کوئی بہت بڑا ردّعمل پیداہو سکتا ہے.

بہرحال ایک تو یہ عامل تھا جس کی بنا پر انگریز ہندوؤں کی حوصلہ افزائی کر رہا تھا اور انہیں اپنے سے قریب لا رہا تھا ‘جبکہ مسلمانوں سے کشیدہ تھا اور انہیں دور رکھ رہا تھا. اس کا ایک دوسرا فیکٹر بھی تھا. ہندوؤں کا اپنی تہذیب اور اپنے فکر و فلسفہ سے تعلق بڑا پرانا ہو چکا تھا. کیونکہ مسلمانوں کے دورِ حکومت میں سرکاری ملازمتوں کے حصول کے لیے ہندوؤں کو بھی فارسی پڑھنی پڑتی تھی‘ جیسے انگریزی دَور میں مسلمانوں کو انگریزی پڑھنی پڑی. فارسی پڑھنے سے ہندوؤں کے اندر اس کے ثقافتی اثرات بھی لازمی طور پر مترتب ہوئے تھے اور وہ اپنی اصل تہذیب و تمدن سے بہت فاصلے پر آ چکے تھے. لہذا جب انگریز نے ہندوستان میں تہذیبی و ثقافتی انقلاب (cultural revolution) کا آغاز کیا تو ہندوؤں نے آگے بڑھ کر اس کا استقبال کیا. انگریز کا منصوبہ تھا کہ اپنے نظامِ تعلیم کے ذریعے ہندوستان کے رہنے والے مسلمانوں اور ہندوؤں کے فکر اور سوچ کو بدلا جائے‘ ان کے ذہن کے اندرتبدیلی لائی جائے . لارڈ میکالے جو اُس پورے نظامِ تعلیم کا بانی تھا‘نے کہا تھا کہ ہمارے نظامِ تعلیم کا مقصد یہ ہے کہ ہندوستانی اپنی چمڑی کی رنگت کے اعتبار سے تو ہندوستانی رہ جائیں لیکن اپنے ذہن و فکر‘ تہذیب و ثقافت اور اپنی معاشرت کے اعتبار سے یورپی بن جائیں. تو ہندوؤں نے اس تہذیبی و ثقافتی انقلاب کا خیر مقدم کیا اور فوراً انگریزی زبان اور یورپی علوم پڑھنے شروع کر دیے. جبکہ اُن کے مقابلے میں مسلمان اس حوالے سے د و حصوں میں تقسیم ہوگئے . علماء کے ایک بہت مؤثر طبقے نے انگریزی زبان ‘ انگریزی علوم اور انگریزی تہذیب و تمدن کاکلی بائیکاٹ کیا‘ جس کا بہت بڑا مرکز دیوبند بنا.

اس سے یہ فرق واقع ہوا کہ ہندو ہر معاملے میں مسلمانوں سے آگے نکلنے لگے.ہندو ملازمتوں میں آگے جا رہا تھا ‘ اسے انگریزوں کا تقرب حاصل ہو رہا تھا اوراس کی سرکار دربار میں رسائی ہو رہی تھی‘ جبکہ مسلمان دور ہوتا چلا جا رہا تھا. ایک مشہورانگریزی مصنف ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر 
(W.W.Hunter) نے اپنی ایک کتاب ’’Our Indian Musalmans‘‘ میں لکھا کہ اگر یہی صورت حال برقرار رہی تو ہندوستان میں مسلمان یا تو منڈیوں کے اندر پلّے دار اور مزدور رہ جائیں گے یا سرکاری دفتروں میں ہوں گے بھی تو محض چپڑاسی یا زیادہ سے زیادہ دفتری‘ اس کے علاوہ برٹش انڈیا میں ان کا کوئی سٹیٹس نہیں ہو گا.

اس موقع پر سرسید احمد خان کی عظیم شخصیت منظر عا م پر آئی. اگرچہ ہمیں ان سے بہت سی باتوں میں اختلاف ہے‘ ّمفسر قرآن اور متکلم کی حیثیت سے جو باتیں انہوں نے کی ہیں وہ ہمارے لیے بہت تکلیف دہ ہیں‘ لیکن ان کے ایک محب قوم مسلمان ہونے میں ہمیں کوئی شک نہیں ‘مسلمانوں کی محبت ان کے دل میں انتہائی زیادہ تھی اور وہ مسلمانوں کے لیے بہت دردمند تھے. سرسید احمد خان نے اس معاملے میں دو کام کیے. ایک تو بڑی عظیم کتاب لکھی: ’’اسبابِ بغاوتِ ہند‘‘ . اس میں انہوں نے انگریزوں کو بتایا کہ یہاں ہندوستان میں بغاوت کس طرح ہوئی ہے اور اس کے اصل اسباب کیا تھے. اور ساتھ ہی مسلمانوں کی طرف سے انگریزوں کو اطمینان دلانے کی کوشش کی کہ مسلمانوں کو باغی مت سمجھا جائے‘ یہ بھی پُرامن شہریوں کی حیثیت سے زندگی گزار سکتے ہیں. 

دوسرا کام انہوں نے یہ کیا کہ مسلمانوں کو اس بات پر ابھارا کہ وہ انگریزی پڑھیں اور انگریزی علوم حاصل کریں ‘اور انہیں متنبہ کیا کہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ان کا وہی حال ہو جائے گا جو ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر نے اپنی کتاب میں تحریر کیا ہے. لہذا وہ انگریزی علوم پڑھیں‘ انگریزی زبان سیکھیں‘ نئی سائنس سیکھیں. ان چیزوں میں جو غلط ہوں انہیں ردّکر دیں اور جو صحیح ہوں انہیں اختیار کریں. بہرحال مسلمان تو انگریز کے تہذیبی و ثقافتی انقلاب کو قبول کرنے کے اعتبار سے منقسم ہو گئے جبکہ ہندوؤں نے یکسو ہو کر اسے قبول کر لیا. لہذا انگریزوں نے بھی ان کی زیادہ دلجوئی کی اور انہیں اپنے قریب کیا ‘جبکہ مسلمانوں کو دُور رکھا. اس اعتبار سے اب ہندوؤں کی طاقت کا پلڑا بھاری ہونا شروع ہو گیا اور مسلمانوں میں ایک احساس اور خوف پیدا ہوا کہ ہندو اگر اسی طریقے سے آگے بڑھتے چلے گئے تو یہ ہم پر فیصلہ کن غلبہ حاصل کر لیں گے ‘ اور ممکن ہے کہ ہم سے اپنی آٹھ سو سالہ غلامی کا انتقام بھی لیں . اس احساس کو میں چاہتا ہوں کہ آپ بالخصوص نوٹ کر لیں.