محمد علی جناح کا مزاج بنیادی طو رپر سیکولر اور قوم پرستانہ تھا. چنانچہ ۱۹۰۶ء میں جب مسلم لیگ قائم ہوئی تو اس میں شامل نہیں ہوئے. ان کا کہنا یہ تھا کہ اس کا نصب العین بلند اور مقصد اعلیٰ نہیں ہے‘ یہ صرف ہندوستان میں مسلمانوں کی جداگانہ نمائندگی کے حصول کے لیے اور انگریز کو اپنی وفاداری کا یقین دلانے کے لیے قائم ہوئی ہے. مسلم لیگ کے بجائے آپ کانگریس میں تھے اور کانگریس کے صدر دادا بھائی نوروجی کے سیکرٹری تھے. مسلم لیگ کے قیام کے سات برس بعد ۱۹۱۳ء میں جب مسلم لیگ نے بھی خود اختیاری کے حصول کو اپنا نصب العین بنا لیا تب مولانا محمد علی جوہر کے بہت زیادہ اصرار پر مسلم لیگ میں شامل ہوئے. اس کے بعد بھی ۱۹۲۰ء تک انہوں نے دوہری رکنیت اختیار کیے رکھی‘ کانگریس کی بھی اور مسلم لیگ کی بھی. اور اس پورے عرصے میں ان کی کوشش یہی تھی کہ کسی طرح ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مصالحت ہو جائے اور کوئی ایسا فارمولاطے ہو جائے جو فریقین کے لیے قابل قبول ہو‘ جس سے مسلمانوں کی تشویش ختم ہو اور انہیں اطمینان حاصل ہو کہ ہمارا مستقبل خطرے میں نہیں ہے. اس مقصد کے لیے انہوں نے سرتوڑ کوشش اور جاں گسل محنت کی اور ان خدمات کے طفیل میں انہیں ہندو مسلم اتحاد کا سفیرکہا گیا. اور یہ کہنے والا بھی ایک ہندو لیڈر گوکھلے تھا‘ لیکن اس قدر محنت کے باوجود انہیں قدم قدم پر مایوسی کا سامنا کرنا پڑا. چونکہ ۱۹۲۰ء تک ان کے پاس کانگریس اور مسلم لیگ دونوں کی ممبر شپ تھی لہذا انہوں نے کوشش کی کہ کانگریس اور مسلم لیگ کا اجلاس ایک ہی مقام پر ہو‘تاکہ طرفین کے لیڈروں کا آپس میں میل جول ہوسکے اور باہم گفت و شنید سے اس مقصد کی طرف پیش رفت ہوسکے. چنانچہ ۱۹۱۵ء میں بمبئی میں اور ۱۹۱۶ء میں لکھنؤ میں اجلاس ہوئے. لکھنؤکے اجلاس میں پہلی مرتبہ ہندوؤں نے مسلمانوں کے مطالبے کو تسلیم کر لیا کہ انتخابات جداگانہ اصول پر ہوں گے اور مسلمانوں کو اُن کی آبادی کی تعداد کی نسبت سے سیٹیں ملیں گی.
یہ محمد علی جناح کی بہت بڑی کامیابی تھی‘ لیکن اس کے پس منظر میں ایک اور چیز بڑی اہم تھی. ۱۹.۱۹۱۸ء سے ہندوستان میں ایک عظیم تحریک ’’تحریک ِخلافت‘‘ شروع ہو چکی تھی‘ اس لیے کہ خلافت ِعثمانیہ کو ختم کرنے کے لیے عالمی سطح پر بڑی سازشیں چل رہی تھیں اور یہودی سرگرم تھے کہ برطانیہ کے ذریعے سے خلافت کا خاتمہ کر دیا جائے. اُس وقت ہندو اور مسلمان ایک ہو گئے تھے اور گاندھی جی بھی خلافت کی تحریک میں شامل ہوئے تھے‘ حالانکہ گاندھی اور خلافت کا باہم رشتہ ہی کیا تھا! لیکن انہوں نے محسوس کیا کہ اس وقت مسلمانوں کا ساتھ دینا چاہیے‘ اس لیے کہ اس تحریک کا ترانہ پورے ہندوستان میں گونج رہا تھا:
بولیں اماں محمد علی کی
جان بیٹا خلافت پہ دے دو!
ساتھ ہیں تیرے شوکت علی بھی
جان بیٹا خلافت پہ دے دو!!
یہ یقینا ایک عظیم تحریک تھی اور اسی کے پس منظر میں مَیں سمجھتا ہوں کہ ۱۹۱۶ء میں لکھنؤ پیکٹ ہوا اور قائد اعظم کو اس میں اپنی کامیابی کی صورت نظر آئی. لیکن ۱۹۲۴ء میں مصطفی کمال پاشا نے خود ہی خلافت کا خاتمہ کر دیا‘ بقول علامہ اقبال : ؎
چاک کر دی ترکِ ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی اپنوں کی دیکھ ‘اوروں کی عیاری بھی دیکھ!
خلافت کے خاتمے کے ساتھ ہی تحریک خلافت کا سارا جوش و خروش ختم ہو گیا اور صورتِ حال یکسر تبدیل ہو گئی. اب ہندوؤں کے اندر اپنی عصبیت اور مسلمانوں کی مخالفت کے جذبات ابھر کر سامنے آ گئے. چنانچہ ۱۹۲۸ء میں نہرو رپورٹ شائع ہوئی جس نے مسلمانوں کی ہندوؤں سے تمام امیدوں کا قلع قمع کر دیا اور ان پر واضح ہو گیا کہ ہندو کسی درجے میں بھی مسلمانوں کو کوئی حیثیت دینے کو تیار نہیں . یہ نہرو رپورٹ گویا ایک اہم موڑ‘ ( turning point) ثابت ہوئی. اس کے بعد محمد علی جناح صاحب نے ایک کوشش اور کی اور ’’تجاویز دہلی‘‘ کے نام سے ایک خاکہ پیش کیا‘ لیکن وہ تجاویز بھی ردّکر دی گئیں. پھر انہوں نے ’’چودہ نکات‘‘ پیش کیے تو وہ بھی ردّ کر دیے گئے. اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انتہائی مایوس‘ دل گرفتہ اور دل شکستہ ہو کر محمد علی جناح نے ہندوستان کو خیرباد کہہ دیا اور ان کی زندگی کا ایک دَور یہاں ختم ہوگیا.محمد علی جناح ۱۹۳۱ء میں انگلستان منتقل ہوئے ‘وہاں ایک کوٹھی خرید لی‘ اپنی لیگل پریکٹس شروع کر دی اور ہندوستان کی سیاست سے بالکل کنارہ کشی اختیار کر لی.