صفحات گزشتہ میں ہم یہ اہم بات دیکھ آئے ہیں کہ محمد علی جناح دسمبر ۱۹۳۰ء میں ہندوستان کی سیاست سے مایوس ہو کر ملک چھوڑ کر انگلستان میں جا کر آباد ہو گئے تھے. اس ضمن میں ایک واقعہ آپ کے علم میں لانا چاہتا ہوں . شیخ محمد اکرام کا نام آپ حضرات کے علم میں ہو گا ‘ ان کی تین کتابیں آبِ کوثر‘ موجِ کوثر اور رودِ کوثر بڑی معرکۃ الآراء کتابیں ہیں. ادارۂ ثقافت اسلامیہ کے بہت عرصے تک ڈائریکٹر رہے‘ بہت پڑھے لکھے آدمی تھے. وہ اُس زمانے میں آکسفورڈ میں پڑھتے تھے. وہ لندن گئے توانہوں نے وہاں محمد علی جناح سے ملاقات کی اور دریافت کیا کہ آپ ہندوستان کیوں چھوڑ کر آ گئے؟ ہندوستان کے مسلمانوں کو تو آپ کی رہنمائی کی ضرورت ہے.محمد علی جناح کا جواب نوٹ کرنے کے قابل ہے. آپ فرماتے ہیں کہ ہندو ناقابل اصلاح (incorrigible) ہیں اور مسلمانوں کا حال یہ ہے کہ ان کا ایک لیڈر مجھ سے جو بات صبح کو کرتا ہے وہ شام کو ڈپٹی کمشنر کو بتا دیتا ہے. تو اب میں ایسی قوم کی راہنمائی کیسے کروں؟ جناح صاحب کی مایوسی کا یہ عالم ہے اور انہوں نے یہ نتیجہ اپنی چوبیس برس کی محنت شاقہ کے بعد نکالا ہے. 

ہندوستان کی تاریخ میں ۱۹۳۰ء اس اعتبار سے بہت اہم ہے کہ اس سال مسلم انڈیا کا ایک سورج تو غروب ہو رہا تھا اور مغرب میں جا کر بیٹھ گیاتھا (سورج مغرب ہی میں غروب ہوتا ہے) لیکن اسی سال مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر علامہ محمد اقبال کے نام سے ایک سورج طلوع ہوا. ان کا۱۹۳۰ء کا خطبہ ٔالٰہ آباد بہت اہم ہے. ایک تو یہ کہ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے وطنیت کی جو نفی کی تھی اور مسلم قومیت کا جو اثبات کیاتھا اسے فلسفیانہ انداز میں عمرانیات (Socialogy) کے مسلمہ اصولوں کی روشنی میں جس انداز سے مدلل طور پر بیان کیا ہے‘ اس اعتبار سے وہ ایک بہت قیمتی دستاویز ہے‘لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایک تجویز پیش کی. یہ گویا ایک پیشین گوئی تھی کہ ہندوستان کے شمال مغرب میں ایک مسلمان ریاست قائم ہو گی.علامہ اقبال کے الفاظ تھے:

"I would like to see the Punjab, the North-West Frontier Province, Sindh and Baluchistan amalgamated into a single state. Self-government within the British Empire or without the British Empire, the formation of a consolidated North West-Indian Muslim State appears to me to be the final destiny of the Muslims, at least of North-West India."
’’میں پنجاب‘ سرحد‘ سندھ اور بلوچستان کو متحد ہو کر ایک واحد ریاست کی شکل میں دیکھنا چاہتا ہوں‘ جس کی اپنی حکومت ہو خواہ سلطنت برطانیہ کے تحت یا اس سے الگ. اور مجھے نظر آ رہا ہے کہ یہ متحدہ شمال مغربی مسلم ریاست کم از کم شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے تقدیر مبرم ہے.‘‘

اس ضمن میں اعتراض یہ کیاجاتا ہے کہ علامہ اقبال نے تو ہندوستان کے اندر برطانیہ کی حکومت کے تحت ایک ریاست کی تجویز دی تھی‘ لیکن یہ بات غلط ہے. اصل میں نوٹ کیجیے کہ ۱۹۳۰ء تک تو اس کا کوئی امکان ہی نظر نہیں آتا تھا کہ انگریز ہندوستان چھوڑ کر چلا جائے گا. تو اُس وقت کے لیے ان کی تجویز یہ تھی کہ ہندوستان میں ایک صوبہ بنا دیا جائے ‘ جیسے آج کا پاکستان ہے یا کچھ عرصہ پہلے ون یونٹ کے طور پر مغربی پاکستان تھا‘ برٹش انڈیا میں بھی ون یونٹ کی حیثیت سے ایک سٹیٹ بن جائے تاکہ اس علاقے میں مسلمانوں کے اندر قومیت‘ کلچر اور زبانوں کے تھوڑے بہت فرق کے باوجود مل جل کر رہنے سے ایک قوم کا تصور باقاعدہ پیدا ہو جائے. اسی لیے وہ کہتے ہیں:

"I therefore demand the formation of a consolidated Muslim State in the best interests of India and Islam."
’’لہذا میں ہندوستان اور اسلام کے بہترین مفاد میں ایک الگ مسلم ریاست کے بنانے کا مطالبہ کرتا ہوں.‘‘

اور اس ضمن میں وہ یہ بات کہتے ہیں کہ:

"For Islam (it will be) an opportunity to rid itself of the stamp that Arabian Imperialism was forced to give it, to mobilize its laws, its education, its culture and to bring them into closer contact with its own original spirit and with the spirit of the modern times."
’’اسلام کے لیے یہ ایک موقع ہوگا کہ عرب ملوکیت کے تحت اس پر جو پردے پڑ گئے تھے ان سے چھٹکارا حاصل کر سکے اور اپنے قوانین‘ تعلیمات اور ثقافت کو اپنی اصل روح کے ساتھ روحِ عصر سے ہم آہنگ کر سکے.‘‘ 

ویسے تو اور بھی بہت سے لوگوں نے ہندوستان کی تقسیم کی باتیں کی ہیں‘ لیکن اس ضمن میں اقبال کی حیثیت بہت نمایاں ہے. اس لیے کہ انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں صدر کی حیثیت سے خطبہ دیتے ہوئے یہ بات کی ہے. اور اس کا ایک اہم اور مثبت عنصر یہ ہے کہ اقبال کے بقول عرب دورِ ملوکیت میں اسلام کے چہرے پر جو بدنما داغ دھبے پڑ گئے تھے ہمیں موقع مل جائے گا کہ انہیں ہٹا کر اسلام کا روشن چہرہ لوگوں کو دکھا سکیں.یہاں نوٹ کیجیے کہ اقبال نے عرب دورِ ملوکیت کی بات کی ہے‘ اور عرب دورِ ملوکیت سے پہلے خلافت راشدہ تھی جو اصل اسلام تھا. دورِ بنوامیہ تو اسلام نہیں تھا .یہ تو وہی دَور ہے جس میں سانحۂ کربلا ہوا ہے‘ واقعہ ٔ حر ّہ ہوا ہے‘ ظلم کی انتہا ہوئی ہے اور سینکڑوں تابعین کو حجاج بن یوسف نے شہید کیا ہے. اس کو حدیث کے اندر بھی مُلکًا عاضًّا (کاٹ کھانے والی ملوکیت) کہا گیا ہے. بنو اُمیہ کے بعد بنو عباس کا دَور آیا ہے جس میں شاندار محل بنے ہیں. اقبال کے بقول اب دنیا تو اسلام کو ملوکیت کے آئینے میں دیکھتی ہے کہ یہی اسلام ہے ‘جبکہ اس میں تو کوئی شے ایسی نہیں ہے جو کسی قوم کو اسلام کی طرف کھینچ سکے. چنانچہ دَورِ ملوکیت سے پہلے دَورسے اقبال کی مراد خلافت ِراشدہ ہی ہے ‘اگرچہ انہوں نے خلافت راشدہ کا نام نہیں لیا اور اس میں بھی اقبال نے بڑی حکیمانہ بات کی ہے کہ اس زمانے کے جو تقاضے ہیں ان کے مطابق اجتہاد کے دروازے کھول کر یہاں پر خلافت ِراشدہ کی طرز کا نظام قائم کیا جائے.

یہ ہے وہ چیز جس نے تحریک مسلم لیگ کے اندر ایک مثبت جذبہ پیدا کیا. ورنہ ۱۹۰۶ء سے لے کر ۱۹۳۰ء تک تحریک مسلم لیگ صرف ایک منفی محرک (negative motive) پر چل رہی تھی اور وہ منفی محرک تھا ہندو کا خوف کہ ہندو ہمیں دبا لے گا‘ وہ معاشی‘ تہذیبی‘ ثقافتی اورمذہبی ہر لحاظ سے ہمارا استحصال کرے گا. شدھی کی تحریک کے ذریعے ہمیں راستہ دکھایا جا رہا ہے کہ ہندوستان چھوڑ کر بھاگ جاؤ. یہ سارا خوف کا عنصر تھا اور پیش نظر یہ تھا کہ ہمارے خدشات دور ہوجائیں اور ہمیں یقین دہانی ہو جائے کہ مسلمانوں کو دبایا نہیں جائے گا ‘ بلکہ مسلمانوں کے حالات بہتر ہو جائیں گے. دوسرے یہ کہ مسلم لیگ اُس وقت تک کوئی عوامی جماعت تھی ہی نہیں‘ بلکہ کچھ خواص (elite) درجے کے لوگوں مثلاً نوابوں اور نواب زادوں کی جماعت تھی. لیکن ۱۹۳۰ء کے خطبہ ٔالٰہ آباد میں اقبال نے اس میں ایک انجکشن لگا کر مثبت جذبہ پیدا کیا اور اس نے ایک عوامی جماعت کی حیثیت اختیار کر لی. میں اس کے لیے مثال دیا کرتا ہوں کہ کوئی مریض بستر پر پڑا ہوا ہے اور اسے گلوکوز کی بوتل لگی ہوئی ہے‘ اب اسے کوئی انجکشن لگانا ہے تو اسی بوتل میں لگا دیتے ہیں تاکہ مریض کو مزید تکلیف نہ ہو. تو گویا مسلم لیگ کا جو نظام چل رہا تھا اقبال نے اس میں ایک انجکشن لگا دیا.