اس کے بعد یہی انجکشن علامہ اقبال نے لندن میں مسٹر محمد علی جناح کے ذہن و فکر میں لگایا .لندن میں تین گول میز کانفرنسیں ہوئی تھیں. محمد علی جناح پہلی اور دوسری کانفرنس میں تو شریک تھے لیکن تیسری کانفرنس جو ۱۹۳۲ء میں ہوئی اس میں شریک نہیں ہوئے‘ اس لیے کہ وہ سیاست کو خیرباد کہہ کر قانون کی پریکٹس کر رہے تھے. علامہ اقبال اس میں شریک ہوئے تو انہیں لندن میں محمد علی جناح سے ملاقاتیں کرنے اور گفتگوئیں کرنے کا موقع ملا. ان ملاقاتوں کے نتیجے میں علامہ اقبال نے محمد علی جناح کے ذہن و فکر کے اندر یہ انجکشن لگایا کہ آپ اسلام کے احیاء کی بات کریں‘ یہ چیز مسلمانوں کے جذبات کے اندر گرمی اور حرارت پیدا کر ے گی. اسی سے پھر محمد علی جناح کے مزاج میں ایک تبدیلی آئی اور ۱۹۳۴ء میں آپ ہندوستان واپس آ گئے اور انہیں مسلم لیگ کا تاحیات صدر بنا دیا گیا. انہوں نے مسلم لیگ کو ذرا سنبھالا تو دیا لیکن انہیں ابھی اسے سنبھالنے کا پوری طرح موقع نہیں مل سکا تھا. لہذا ۱۹۳۶ء کے انتخابات میں کانگریس فیصلہ کن اکثریت سے جیت گئی.اس دور میں کانگریس کی جو وزارتیں بنیں انہوں نے مسلمانوں کے ساتھ جو برا سلوک روا رکھا‘ جو مظالم ڈھائے اور ان کے حقوق کو جس طرح پامال کیا اس سے وہ منفی محرک اور بھی قوی ہو گیا .
اس سے بڑھ کر یہ کہ محمد علی جناح نے ۱۹۳۷ء سے لے کر ۱۹۴۷ء تک پورے دس برس اسلام کی قوالی گائی.یعنی دس برس تک مسلسل تکرار کے ساتھ صرف اسلام کی بات کی کہ ہمیں اسلام چاہیے‘ ہم اسلامی تہذیب ‘اسلامی قوانین چاہتے ہیں جو ہندو قوانین سے یکسر الگ ہیں. اسلام صرف ہمارا مذہب نہیں ہے‘ بلکہ دین ہے‘ یہ زندگی کے تمام معاملات پر حاوی ہے. اس چیز نے مسلمانوں کے اند ر ایک ولولۂ تازہ پیدا کر دیا. جیسے اقبال نے کہا : ؎
اِک ولولہ ٔتازہ دیا میں نے دلوں کو
لاہور سے تا خاکِ بخارا و سمرقند
اب محمد علی جناح کی زبان سے جب یہ آواز بلند ہوئی جو مسلمانوں کے دلوں کی آواز اور ان کی روح کی پکار تھی تو سب نے اس پر لبیک کہا اور اب مسلم لیگ ایک عوامی جماعت بن گئی اور محمد علی جناح اب ’’قائد اعظم‘‘ قرار پائے.