اس سب کے باوجود پاکستان کیسے معرض وجود میں آ گیا؟یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک معجزہ تھا ‘ورنہ کسی حساب کتاب کے ذریعے بھی پاکستان کا وجود میں آناممکن نہیں تھا (۱) . اس لیے کہ ہندو عددی اعتبار سے بھی مسلمانوں سے تین گنا تھے. وہ مسلمانوں سے تعلیم‘ تنظیم‘ پیسہ‘ تجارت‘ صنعت غرض ہر لحاظ سے آگے تھے. اس سے بڑھ کر یہ کہ خود مسلمانوں کے نہایت مؤثر حلقے پاکستان کے قیام کے خلاف تھے. ابوالکلام آزاد جیسا نابغہ (genius) شخص برہمو سماج کے زیر اثر آ گیا تھا. جیسے گاندھی خود کہتا ہے کہ میں راجہ رام موہن رائے کا چیلا ہوں اور وہ میرا گُرو ہے‘ اسی طرح مولانا ابوالکلام آزاد بھی اسی کے سحر سے متأثر ہوگئے تھے. جمعیت علماء ہند جو بہت بڑی جماعت اور بہت بڑی طاقت تھی‘ قیامِ پاکستان کے خلاف اور وطنی قومیت کی حامی تھی. چنانچہ علامہ اقبال کو یہ کہنا پڑا : ؎
عجم ہنوز نداند رموزِ دیں ورنہ
ز دیو بند حسین احمد ایں چہ بوا لعجبی است!
(۱) اس کی تفصیل ’’استحکام پاکستان‘‘ نامی کتاب میں دیکھی جا سکتی ہے.
سرود برسر منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبر ز مقامِ محمدؐ عربی است
بمصطفیٰ ؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی تمام بولہبی است!
(۱)پنجاب میں ’’احرار‘‘ ایک بہت بڑی عوامی طاقت تھی.جیسے مقررین اور خطیب اس نے پیدا کیے آج تک کسی اور جماعت نے پیدا نہیں کیے. وہ بھی قیام پاکستان کے خلاف تھی. سرحد میں سرحدی گاندھی کی خدائی خدمت گار تحریک جو بڑی عوامی تحریک تھی‘ پاکستان کی دشمن تھی. سب سے بڑھ کر یہ کہ قیام پاکستان کے وقت انگلستان میں لیبر پارٹی کی حکومت تھی جو اکھنڈ ہندوستان کی حامی تھی. وزیر اعظم لارڈ اٹیلی قائد اعظم سے شدید نفرت کرتا تھااور وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن گاندھی کا چیلا تھا. اس سب کے باوجود پاکستان کا وجود میں آنااللہ تعالیٰ کی خاص حکمت کا نتیجہ تھا اور یہ بہت اہم نکتہ ہے.
میرے نزدیک اس کی آخری دلیل یہ ہے کہ ۱۹۴۶ء میں قائد اعظم نے کیبنٹ مشن پلان قبول کر لیا تھا. وہ پلان یہ تھا کہ ہندوستان ایک وحدت کی حیثیت سے آزاد ہوگا‘ مرکزی حکومت ایک ہو گی لیکن تین زون ہوں گے. دس سال کے بعد اگر کوئی زون علیحدہ ہونا چاہے تو اسے اس کا اختیار ہو گا. قائد اعظم نے اسے مان لیا تو پورے ہندو پریس میں مذاق اڑایا گیا کہ بس پاکستان کا مطالبہ ختم ہوا. یہ مسلم لیگ اور قائداعظم کے لیے بہت ہی نازک وقت تھا.لیکن قائد اعظم کے اس پلان کو تسلیم کر لینے کا اصل سبب یہ تھا کہ وہ جانتے تھے کہ اب انگریز ہندوستان سے ہر قیمت پر جائے گا ‘ اس لیے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد انگریزی حکومت اتنی کمزور ہو چکی تھی کہ وہ اپنی
(۱) یہ دوسری بات ہے کہ جب مولانا مدنی ؒ نے یہ وضاحت فرمائی کہ : اوّلا انہوں نے لفظِ قوم کا استعمال کیا تھا ملت کا نہیں! اور ثانیاً:انہوں نے صرف موجودہ دور کی عام روش کا ذکر کیا تھا ‘نہ اُس کی وکالت کی تھی نہ ہی مسلمانوں کو اس کے قبول کرنے کی تلقین کی تھی تو علامہ اقبال نے فوراً اعتراف کیا کہ اس پر اعتراض کا مجھے کوئی حق حاصل نہیں ہے اور اپنے اشعار سے بھی رجوع کر لیا. دور دراز کی نوآبادیوں کو کنٹرول نہیں کر سکتی تھی. چنانچہ انگریز ۱۹۴۸ء میں ہندوستان چھوڑ دینے کا پروگرام بنا چکا تھا.
اب ۱۹۴۶ء میں جب کیبنٹ مشن پلان آیا تو قائد اعظم کو محسوس ہوا کہ اگر ہم نے اس وقت اس پلان کو نہ ماناتو عین ممکن ہے کہ انگریزی حکومت کانگریس کو یکطرفہ طور پر اقتدار منتقل کر کے رخصت ہو جائے. اس صورت میں ایک دفعہ مرکزی حکومت اگر ہندوؤں کے ہاتھ میں آ گئی تو پھر پاکستان کے قیام کا کوئی امکان باقی نہیں رہے گا. لہذا قائد اعظم نے سوچا کہ کیبنٹ مشن پلان میں دس سال کے بعد تو پاکستان کا خاکہ موجود ہے کہ کوئی زون اگر علیحدہ ہونا چاہے تو ہو سکتا ہے .لہذا اسے قبول کر لیا جائے. لیکن اس معاملے میں اللہ تعالیٰ کی خصوصی مداخلت (Divine intervention) کی بنا پر کانگریس کے صدر پنڈت جواہر لال نہرو کے منہ سے سچی بات نکل گئی کہ ایک دفعہ ہندوستان ایک وحدت کی شکل میں آزادہو جائے اور مرکزی حکومت قائم ہو جائے تو پھر کون کسی کو علیحدہ ہونے دیتا ہے! حدیث شریف میں الفا ظ آئے ہیں کہ تمام انسانوں کے دل اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں‘ وہ انہیں جدھر چاہتا ہے پھیر دیتا ہے. چنانچہ پنڈت نہرو کے منہ سے سچی بات نکل گئی : ؎
نکل جاتی ہے جس کے منہ سے سچی بات مستی میں
فقیہہ مصلحت بیں سے وہ رندِ بادہ خوار اچھا!
اس پر قائد اعظم نے اس مشن کو فوراً رد کر دیا کہ اگر تمہاری نیتیں یہی ہیں تو پھر ہم اسے ہرگز تسلیم نہیں کرتے. اس کے نتیجے میں پاکستان بننے کی راہ ہموار ہوئی اور پاکستان بن گیا.بالفاظِ دیگریہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر اس موقع پر نہرو خاموش رہ جاتا تومرکزی حکومت بننے کی صورت میں پاکستان کبھی وجود میں نہ آتا. ساٹھ برس گزرنے کے باوجود بھی انھوں نے ہمیں کشمیر کا ایک انچ نہیں دیا تو زون کی شکل میں پورا ملک کیسے دے دیتے؟ یہ ناممکنات میں سے تھا. پنڈت جواہر لعل نہرو اپنی نیت کا کھوٹ دل میں نہ رکھ سکا اور بول پڑا جس کے نتیجے میں پورا نقشہ تبدیل ہو گیا اور پاکستان کے نام سے کرۂ ارضی پر ایک ریاست وجود میں آ گئی. مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی کتاب ’’India Wins Freedom‘‘ میں اپنے سیاسی کیریئر کی بس ایک ہی غلطی تسلیم کی ہے کہ میرا کانگریس کی صدارت سے استعفاء دینا ایک غلطی تھی. یعنی اُس وقت کانگریس کا صدر پنڈت جواہر لعل نہرو کے بجائے اگر میں ہوتا تو ہندوستان ’’کیبنٹ مشن پلان‘‘ کے تحت آزاد ہوتا اور پاکستان وجود میں نہ آتا.دراصل یہ پلان ابوالکلام آزاد ہی کے ذہن کی پیداوار تھا. بہرحال پاکستان کا وجود اللہ تعالیٰ کی خاص مشیت تھی. اور اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ جب کچھ لوگ اس سے اُس کی بندگی کے لیے آزادی مانگتے ہیں تو اللہ انہیں آزادی دے کر آزماتا ہے کہ اب تم کیا کرتے ہو.