تحریک ِپاکستان میں مسلمانانِ ہند کا جوش و جذبہ


قائد اعظم محمد علی جناح نے جب اسلام کا راگ الاپا اور قوالی گائی تو اس کے نتیجے میں قوم کو ’’حال‘‘ آ گیا. آپ ذرا سوچیے کہ مسلم اقلیتی صوبوں کے لوگوں نے مسلم لیگ کو کیوں ووٹ دیے؟ کیا اترپردیش اور مدراس پاکستان میں آ سکتے تھے؟ اور کیا بمبئی اور 
CP پاکستان کا حصہ بن سکتے تھے؟ یہ بات بظاہر عقل کے خلاف معلوم ہوتی ہے‘لیکن یہ دراصل مسلمانوں کے ’’حال‘‘ میں آنے کا نتیجہ تھا. جہاں جذبات کی حکمرانی ہو جاتی ہے وہاں عقل ایک طرف رہ جاتی ہے ‘ورنہ اور کوئی وجہ نہیں تھی کہ پاکستان کے ساتھ کسی تعلق کے نہ ہونے کے باوجود اقلیتی صوبوں کے مسلمان پاکستان کے لیے مسلم لیگ کو ووٹ دیتے. قرارداد پاکستان ۱۹۴۰ء میں منظور ہو چکی تھی . اس کے بعد ۱۹۴۶ء میں مسلم لیگ کامیاب ہو گئی اور اسے پورے ہندوستان میں نہ صرف اکثریتی صوبوں میں بلکہ اقلیتی صوبوں میں بھی مسلمانوں کی واحد نمائندہ جماعت ہونے کی حیثیت حاصل ہوگئی. 

اس دوران میں دعائیں بھی بہت مانگی گئیں اور نعرہ لگایا گیا: ’’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الا اللہ‘‘. اگرچہ کچھ لوگ کہہ دیتے ہیں کہ یہ کوئی سنجیدہ نعرہ نہیں تھا‘ بلکہ بچوں کا بنایا ہوا نعرہ تھا. بے شک یہ بچوں کا بنایا ہوا نعرہ ہو لیکن بہرحال یہ مسلمانانِ ہند کے دلوں کی آواز بنا ہے. میں تو خود اُن لوگوںمیں سے ہوں جنہوں نے یہ نعرے لگائے ہیں. اُس وقت میں ہائی سکول کے طالب علم کی حیثیت سے مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن ضلع حصار کا جنرل سیکرٹری تھا. ہم نے جلسوں ‘ جلوسوں میں یہ نعرے لگائے ہیں اور جمعہ اور عیدین کے اجتماعات میں گڑگڑا کر اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگی ہیں کہ اے اللہ! ہمیں انگریز اور ہندو کی دوہری غلامی سے نجات دے دے‘ ہمیں ایک آزاد خطہ ٔارضی عطا فرما‘ وہاں پر ہم تیرے دین کا بول بالا کریں گے اور تیرے نبی کی شریعت نافذ کریں گے. درحقیقت اگر یہ نعرہ اور پیغام نہ ہوتا تو پورے ہندوستان کے مسلمان ۱۹۴۶ء کے الیکشن میں مسلم لیگ کو ووٹ نہ دیتے. لہذا اس اعتبار سے یہی فیصلہ کن نظریہ تھا جو پاکستان کی بنیاد بنا. 

اسی زمانے میں ہندو مسلم کشاکش بھی انتہا کو پہنچ گئی. چونکہ ہندوؤں کے لیے بھارت ماتا نہایت مقدس تصور ہے اور الگ وطن کا مطالبہ کر کے مسلمان گویا بھارت ماتا کو ٹکڑے کرنا چاہتے تھے لہٰذا ہندوؤں کے دلوں میں مسلمانوں کے خلاف شدید نفرت اور دشمنی پیدا ہو گئی اور اس دشمنی کا ظہور تقسیم ہند کے وقت ہوا. چنانچہ مسلمانوں کا قتل عام ہوا‘انسان بھیڑیوں سے بڑھ کر سفاک بنا‘ چھوٹے چھوٹے بچوں کو اچھال کر نیزوں میں پرویا گیا‘ لاکھوں عورتوں کی عصمت دری ہوئی‘ بے شمار عورتیں اغوا ہوئیں‘ لاکھوں آدمی قتل ہوئے.ایک کروڑ انسان اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھرمنتقل ہوئے. آبادی کی اتنی بڑی ہجرت تاریخ انسانی میں کبھی نہیں ہوئی. 

اس کے حوالے سے میں قائد اعظم کا ایک اور اقتباس پیش کر رہا ہوں‘ جو ۱۸جنوری۱۹۴۶ء کو سول اینڈ ملٹری گزٹ میں شائع ہوا.حبیبیہ ہال ‘ اسلامیہ کالج لاہور میں مسلمان خواتین کا ایک اجلاس ہوا جس میں قائد اعظم نے فرمایا:

"If we do not succeed in our struggle for Pakistan, the very trace of Muslims and Islam will be obliterated from the face of India.
’’اگر ہم پاکستان کے حصول کی کوشش میں کامیاب نہ ہو سکے تو ہندوستان سے مسلمانوں اور اسلام کا نام و نشان مٹ جائے گا.‘‘

اور یہ کوئی انہونی بات نہیں تھی. بلکہ یوں سمجھئے کہ اس طرح ہسپانیہ کی تاریخ دہرائی جاتی. وہاں بھی مسلمانوں نے آٹھ سو برس حکومت کی تھی‘ لیکن پھر وہ وقت آیا کہ پندرہویں صدی کے آخر اور سولہویں صدی کے شروع میں وہاں مسلمانوں کاایک بچہ تک باقی نہیں رہا. سارے کے سارے مسلمان یا تو قتل کر دیے گئے‘ یا زندہ جلا دیے گئے یا انہیں جہازوں میں بھر بھر کر افریقہ کے شمالی ساحل پر پھینک دیا گیا. وہاں غرناطہ کے محل اور مسجد قرطبہ اب بھی قابل دید ہیں‘ جومسلمانوں کی آٹھ سو برس کی تہذیب کا مرثیہ کہتے ہیں . علامہ اقبال نے کہا تھا : ؎

ہسپانیہ تو خونِ مسلماں کا امیں ہے
مانندِ حرم پاک ہے تو میری نظر میں!

وہی معاملہ ہندوستان میں بھی ہو سکتا تھا. یہ قائد اعظم کے الفاظ ہیں جن کی میں تائید کرتا ہوں‘ اس لیے کہ اُس وقت ہندوجارحیت اور تشدد پرستی اپنی انتہا کو پہنچ چکی تھی اور ہندو کے جذبات بھی انتہا کو پہنچ گئے تھے ‘ اوراس کے بعد یہ کوئی انہونی بات نہیں تھی.

پاکستان کا معجزانہ قیام

اس پس منظر میں مَیں جو بات کہنا چاہ رہا ہوں وہ یہ ہے کہ پاکستان کا قیام اصل میں اللہ تعالیٰ کی حکمت عملی‘ اس کی مشیت اور اس کی تدبیر سے ہوا ہے. اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ اگر کوئی قوم اللہ تعالیٰ سے وعدہ کرے کہ اے اللہ! ہمیں آزادی دے دے ‘ ہم تیرے دین کا بول بالا کریں گے ‘ تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور آزادی دیتا ہے.

آغازِ خطاب میں جو دو آیات تلاوت کی گئیں وہ مسلم لیگ اور تحریک پاکستان پر کافی حد تک منطبق ہوتی ہیں. ایک آیت سورۃ الانفال کی ہے : وَ اذۡکُرُوۡۤا اِذۡ اَنۡتُمۡ قَلِیۡلٌ مُّسۡتَضۡعَفُوۡنَ فِی الۡاَرۡضِ ’’یاد کرو وہ وقت جبکہ تم تعداد میں کم تھے‘ زمین میں تم کو دبا لیا گیا تھا‘‘ … ہندوستان میں مسلمانوں کی بعینہٖ یہی کیفیت تھی کہ ہندو مسلمانوں کو کمزور سمجھتے ہوئے ان پر غالب آ رہا تھا. تَخَافُوۡنَ اَنۡ یَّتَخَطَّفَکُمُ النَّاسُ ’’تم ڈرتے رہتے تھے کہ کہیں لوگ تمہیں مٹا نہ دیں‘‘… ہندوستان میں مسلمانوں کو یہی خوف لاحق تھا کہ اگر ہندوستان ’’ایک فرد ایک ووٹ‘‘ کے اصول پر آزاد ہو گیا تو ہندو انہیں مٹا دے گا اور ختم کر دے گا. فَاٰوٰىکُمۡ وَ اَیَّدَکُمۡ بِنَصۡرِہٖ وَ رَزَقَکُمۡ مِّنَ الطَّیِّبٰتِ لَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ ﴿۲۶﴾ ’’تو اللہ نے تم کو جائے پناہ مہیا کر دی‘ اور اپنی مدد سے تمہارے ہاتھ مضبوط کیے اور تمہیں پاکیزہ رزق پہنچایا تاکہ تم شکر کرو‘‘. اور شکر کا تقاضا ہے کہ اس ملک خداداد میں اللہ کا دین قائم کرو جس کا تم نے وعدہ کیا تھا‘ جس کے لیے دعائیں کی تھیں. 

دوسری آیت سورۃ الاعراف کی ہے. بنی اسرائیل نے حضرت موسیٰ علیہ السلام سے شکایت کی تھی کہ اے موسیٰ! آپ کے آنے سے پہلے بھی فرعونی ہم پر ظلم ڈھا رہے تھے اور آپ کے آنے کے بعد بھی ہماری تقدیر میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی‘ تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے جواب دیا: عَسٰی رَبُّکُمۡ اَنۡ یُّہۡلِکَ عَدُوَّکُمۡ وَ یَسۡتَخۡلِفَکُمۡ فِی الۡاَرۡضِ فَیَنۡظُرَ کَیۡفَ تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۱۲۹﴾ ’’قریب ہے وہ وقت کہ تمہارا رب تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے اور تم کو زمین میں خلیفہ بنائے‘پھر وہ دیکھے گا کہ تم لوگ‘کیسے عمل کرتے ہو‘‘. پاکستان کا معرض وجود میں آ جانا بھی ایک طرح سے ہندوؤں کی ہلاکت تھی. مہاتما گاندھی چند مہینے پہلے کہہ چکا تھا کہ پاکستان صرف میری لاش پر بن سکتاہے.

اس سب کے باوجود پاکستان کیسے معرض وجود میں آ گیا؟یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک معجزہ تھا ‘ورنہ کسی حساب کتاب کے ذریعے بھی پاکستان کا وجود میں آناممکن نہیں تھا (۱. اس لیے کہ ہندو عددی اعتبار سے بھی مسلمانوں سے تین گنا تھے. وہ مسلمانوں سے تعلیم‘ تنظیم‘ پیسہ‘ تجارت‘ صنعت غرض ہر لحاظ سے آگے تھے. اس سے بڑھ کر یہ کہ خود مسلمانوں کے نہایت مؤثر حلقے پاکستان کے قیام کے خلاف تھے. ابوالکلام آزاد جیسا نابغہ (genius) شخص برہمو سماج کے زیر اثر آ گیا تھا. جیسے گاندھی خود کہتا ہے کہ میں راجہ رام موہن رائے کا چیلا ہوں اور وہ میرا گُرو ہے‘ اسی طرح مولانا ابوالکلام آزاد بھی اسی کے سحر سے متأثر ہوگئے تھے. جمعیت علماء ہند جو بہت بڑی جماعت اور بہت بڑی طاقت تھی‘ قیامِ پاکستان کے خلاف اور وطنی قومیت کی حامی تھی. چنانچہ علامہ اقبال کو یہ کہنا پڑا : ؎
عجم ہنوز نداند رموزِ دیں ورنہ

ز دیو بند حسین احمد ایں چہ بوا لعجبی است!
(۱) اس کی تفصیل ’’استحکام پاکستان‘‘ نامی کتاب میں دیکھی جا سکتی ہے.

سرود برسر منبر کہ ملت از وطن است
چہ بے خبر ز مقامِ محمدؐ عربی است
بمصطفیٰ ؐ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نرسیدی تمام بولہبی است!

(۱)
پنجاب میں ’’احرار‘‘ ایک بہت بڑی عوامی طاقت تھی.جیسے مقررین اور خطیب اس نے پیدا کیے آج تک کسی اور جماعت نے پیدا نہیں کیے. وہ بھی قیام پاکستان کے خلاف تھی. سرحد میں سرحدی گاندھی کی خدائی خدمت گار تحریک جو بڑی عوامی تحریک تھی‘ پاکستان کی دشمن تھی. سب سے بڑھ کر یہ کہ قیام پاکستان کے وقت انگلستان میں لیبر پارٹی کی حکومت تھی جو اکھنڈ ہندوستان کی حامی تھی. وزیر اعظم لارڈ اٹیلی قائد اعظم سے شدید نفرت کرتا تھااور وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن گاندھی کا چیلا تھا. اس سب کے باوجود پاکستان کا وجود میں آنااللہ تعالیٰ کی خاص حکمت کا نتیجہ تھا اور یہ بہت اہم نکتہ ہے. 

میرے نزدیک اس کی آخری دلیل یہ ہے کہ ۱۹۴۶ء میں قائد اعظم نے کیبنٹ مشن پلان قبول کر لیا تھا. وہ پلان یہ تھا کہ ہندوستان ایک وحدت کی حیثیت سے آزاد ہوگا‘ مرکزی حکومت ایک ہو گی لیکن تین زون ہوں گے. دس سال کے بعد اگر کوئی زون علیحدہ ہونا چاہے تو اسے اس کا اختیار ہو گا. قائد اعظم نے اسے مان لیا تو پورے ہندو پریس میں مذاق اڑایا گیا کہ بس پاکستان کا مطالبہ ختم ہوا. یہ مسلم لیگ اور قائداعظم کے لیے بہت ہی نازک وقت تھا.لیکن قائد اعظم کے اس پلان کو تسلیم کر لینے کا اصل سبب یہ تھا کہ وہ جانتے تھے کہ اب انگریز ہندوستان سے ہر قیمت پر جائے گا ‘ اس لیے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد انگریزی حکومت اتنی کمزور ہو چکی تھی کہ وہ اپنی 

 (۱) یہ دوسری بات ہے کہ جب مولانا مدنی ؒ نے یہ وضاحت فرمائی کہ : اوّلا انہوں نے لفظِ قوم کا استعمال کیا تھا ملت کا نہیں! اور ثانیاً:انہوں نے صرف موجودہ دور کی عام روش کا ذکر کیا تھا ‘نہ اُس کی وکالت کی تھی نہ ہی مسلمانوں کو اس کے قبول کرنے کی تلقین کی تھی تو علامہ اقبال نے فوراً اعتراف کیا کہ اس پر اعتراض کا مجھے کوئی حق حاصل نہیں ہے اور اپنے اشعار سے بھی رجوع کر لیا. دور دراز کی نوآبادیوں کو کنٹرول نہیں کر سکتی تھی. چنانچہ انگریز ۱۹۴۸ء میں ہندوستان چھوڑ دینے کا پروگرام بنا چکا تھا.

اب ۱۹۴۶ء میں جب کیبنٹ مشن پلان آیا تو قائد اعظم کو محسوس ہوا کہ اگر ہم نے اس وقت اس پلان کو نہ ماناتو عین ممکن ہے کہ انگریزی حکومت کانگریس کو یکطرفہ طور پر اقتدار منتقل کر کے رخصت ہو جائے. اس صورت میں ایک دفعہ مرکزی حکومت اگر ہندوؤں کے ہاتھ میں آ گئی تو پھر پاکستان کے قیام کا کوئی امکان باقی نہیں رہے گا. لہذا قائد اعظم نے سوچا کہ کیبنٹ مشن پلان میں دس سال کے بعد تو پاکستان کا خاکہ موجود ہے کہ کوئی زون اگر علیحدہ ہونا چاہے تو ہو سکتا ہے .لہذا اسے قبول کر لیا جائے. لیکن اس معاملے میں اللہ تعالیٰ کی خصوصی مداخلت (Divine intervention) کی بنا پر کانگریس کے صدر پنڈت جواہر لال نہرو کے منہ سے سچی بات نکل گئی کہ ایک دفعہ ہندوستان ایک وحدت کی شکل میں آزادہو جائے اور مرکزی حکومت قائم ہو جائے تو پھر کون کسی کو علیحدہ ہونے دیتا ہے! حدیث شریف میں الفا ظ آئے ہیں کہ تمام انسانوں کے دل اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں‘ وہ انہیں جدھر چاہتا ہے پھیر دیتا ہے. چنانچہ پنڈت نہرو کے منہ سے سچی بات نکل گئی : ؎ 

نکل جاتی ہے جس کے منہ سے سچی بات مستی میں
فقیہہ مصلحت بیں سے وہ رندِ بادہ خوار اچھا!

اس پر قائد اعظم نے اس مشن کو فوراً رد کر دیا کہ اگر تمہاری نیتیں یہی ہیں تو پھر ہم اسے ہرگز تسلیم نہیں کرتے. اس کے نتیجے میں پاکستان بننے کی راہ ہموار ہوئی اور پاکستان بن گیا.بالفاظِ دیگریہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر اس موقع پر نہرو خاموش رہ جاتا تومرکزی حکومت بننے کی صورت میں پاکستان کبھی وجود میں نہ آتا. ساٹھ برس گزرنے کے باوجود بھی انھوں نے ہمیں کشمیر کا ایک انچ نہیں دیا تو زون کی شکل میں پورا ملک کیسے دے دیتے؟ یہ ناممکنات میں سے تھا. پنڈت جواہر لعل نہرو اپنی نیت کا کھوٹ دل میں نہ رکھ سکا اور بول پڑا جس کے نتیجے میں پورا نقشہ تبدیل ہو گیا اور پاکستان کے نام سے کرۂ ارضی پر ایک ریاست وجود میں آ گئی. مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی کتاب ’’India Wins Freedom‘‘ میں اپنے سیاسی کیریئر کی بس ایک ہی غلطی تسلیم کی ہے کہ میرا کانگریس کی صدارت سے استعفاء دینا ایک غلطی تھی. یعنی اُس وقت کانگریس کا صدر پنڈت جواہر لعل نہرو کے بجائے اگر میں ہوتا تو ہندوستان ’’کیبنٹ مشن پلان‘‘ کے تحت آزاد ہوتا اور پاکستان وجود میں نہ آتا.دراصل یہ پلان ابوالکلام آزاد ہی کے ذہن کی پیداوار تھا. بہرحال پاکستان کا وجود اللہ تعالیٰ کی خاص مشیت تھی. اور اللہ تعالیٰ کا یہ قانون ہے کہ جب کچھ لوگ اس سے اُس کی بندگی کے لیے آزادی مانگتے ہیں تو اللہ انہیں آزادی دے کر آزماتا ہے کہ اب تم کیا کرتے ہو.