نظریۂ پاکستان سے انحراف کے نتائج


یہ صورتِ حال درحقیقت اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے وعدے سے عظیم انحراف کا نتیجہ ہے. ہم نے اللہ تعالیٰ سے وعدہ کیا تھا کہ اے پروردگار! اگر تو ہمیں آزادی کی نعمت عطا کر دے تو ہم تیرے دین کا بول بالا کریں گے.ہمارے قائد نے دس برس تک اسلام کی قوالی گائی ‘ اسلام کے راگ الاپے .لیکن ہم نے ان کے رخصت ہونے کے بعد اس وعدے سے انحراف کیا اوراس انحراف کا نتیجہ نفاق کی صورت میں نکلا ہے.میں نے ’’نفاق‘‘ کا لفظ سورۃ التوبۃ کی تین آیات ۷۵ تا ۷۷ کے حوالے سے استعمال کیا ہے. ان آیات میں مدینہ کے منافقین کی ایک خاص قسم کا ذکر ہو رہا ہے . ارشادِالٰہی ہے : 
وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ عٰہَدَ اللّٰہَ لَئِنۡ اٰتٰىنَا مِنۡ فَضۡلِہٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَ لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۷۵﴾فَلَمَّاۤ اٰتٰہُمۡ مِّنۡ فَضۡلِہٖ بَخِلُوۡا بِہٖ وَ تَوَلَّوۡا وَّ ہُمۡ مُّعۡرِضُوۡنَ ﴿۷۶﴾فَاَعۡقَبَہُمۡ نِفَاقًا فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ اِلٰی یَوۡمِ یَلۡقَوۡنَہٗ بِمَاۤ اَخۡلَفُوا اللّٰہَ مَا وَعَدُوۡہُ وَ بِمَا کَانُوۡا یَکۡذِبُوۡنَ ﴿۷۷

’’ان میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے اللہ تعالیٰ سے عہد کیا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ انہیں اپنے فضل سے نواز دے گا (غنی کر دے گا) تو ہم لازماً صدقہ خیرات کریں گے اور نیک بن کر رہیں گے. پس جب اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے فضل سے نواز دیا تو انہوں نے اب بخل سے کام لیا اور پیٹھ موڑ لی اور وہ تھے ہی پھر جانے والے.تو (نتیجہ یہ نکلا کہ) ان کی اس بدعہدی کی وجہ سے جوانہوں نے اللہ کے ساتھ کی‘ اور اس جھوٹ کی وجہ سے جو وہ بولتے رہے ‘ اللہ نے ان کے دلوں میں نفاق بٹھا دیا جو اُس کے حضور ان کی پیشی کے دن تک ان کا پیچھا نہ چھوڑے گا.‘‘

تو یہ وہ سزا ہے جو آج اُمت مسلمہ پاکستان کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی جا چکی ہے. نفاق وہ چیز ہے جس کے بارے میں کہا گیا ہے : اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ فِی الدَّرْکِ الْاَسْفَلِ مِنَ النَّارِ (النساء:۱۴۵’’یقینا منافق تو جہنم کے سب سے نچلے طبقے میں ہوں گے.‘‘

اب میں تین قسم کے نفاق کا تذکرہ کر رہا ہوں . پہلا نفاق ’’نفاقِ باہمی‘‘ ہے. ہم ایک قوم ہوتے تھے لیکن اب قومیتوں میں تحلیل ہوچکے ہیں. اب تو عصبیتیں ہی عصبیتیں ہیں‘ صوبائی عصبیتیں ہیں‘ علاقائی عصبیتیں ہیں‘ لسانی عصبیتیں ہیں. پھر مذہبی اختلافات ہیں. ۱۹۷۱ء میں ملکِ خداداد پاکستان دولخت ہوا . یہ پاکستان کی تاریخ کی عظیم ترین ہزیمت تھی. اندراگاندھی نے اس موقع پر کہا تھا:

".We have avenged our thousand years defeat"

کہ ہم نے اپنی ہزار سالہ شکست کا بدلہ چکا دیا ہے. اُس نے یہ بھی کہا تھا کہ ہم نے دو قومی نظریے کو خلیج بنگال کے اندر غرق کر دیا ہے. ہمارے ۹۳ ہزار فوجی ہندوؤں کے قیدی بنے اور ہمارا سارا اسلحہ ان کے ہاتھ لگا. اُس وقت ہمارا مورال پاتال کو پہنچ چکا تھا.پاکستان اُسی وقت ختم ہو سکتا تھا‘ اس لیے کہ مغربی پاکستان میں بھی ہمارا دفاعی نظام بالکل ٹوٹ چکا تھا. سیالکوٹ سیکٹر اور راجستھان سیکٹر ٹوٹ چکے تھے. صرف ایک جنرل ٹکا خان سلیمانکی ہیڈورکس پر اپنی ٹاسک فورس لے کر بیٹھا ہوا تھا. ہماری فضائیہ مفلوج ہو چکی تھی. وہ تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں ابھی مزید مہلت دینی تھی‘ لہٰذا نکسن کی کوششوں سے جنگ بندی ہوگئی. اس طرح اللہ تعالیٰ نے ہمیں چھوٹا عذاب دکھا کر بڑا عذاب فی الحال ٹال دیا. ازروئے الفاظ قرآنی : وَ لَنُذِیۡقَنَّہُمۡ مِّنَ الۡعَذَابِ الۡاَدۡنٰی دُوۡنَ الۡعَذَابِ الۡاَکۡبَرِ لَعَلَّہُمۡ یَرۡجِعُوۡنَ ﴿۲۱﴾ (السجدۃ) ’’اور لازماً ہم انہیں بڑے عذاب سے پہلے چھوٹے عذاب کا مزا چکھائیں گے شاید کہ وہ لوٹ آئیں‘‘. اگرچہ یہ عذاب بہت بڑا تھا لیکن اس اعتبار سے ادنیٰ تھا کہ بہرحال مشرقی پاکستان کے نام سے نہ سہی بنگلہ دیش کے نام سے ہی سہی‘ ایک آزاد مسلمان ملک اب بھی موجود ہے. اس کی ماہیت بدل گئی ہے لیکن اب بھی وہاں پر مسلمان حکومت تو ہے. بہرحال اُس وقت پاکستان ختم ہونے سے بچ گیا تھا لیکن اب اس کے حصے بخرے ہونے (balkanization) کی خبریں آ رہی ہیں. 

۱۹۹۲ء میں ایک مسلمان مصنف ابوالمعالی سید نے "Twin Eras of Pakistan" کے نام سے ایک کتاب لکھی جو نیویارک سے چھپی تھی .یہ شخص بہار میں پیدا ہواتھا‘ تقسیم ہند کے وقت مشرقی پاکستان چلا گیا تھا‘ پھر مغربی پاکستان آ گیا. کراچی سے ایم اے کیا اور پھر جا کر مغربی یونیورسٹیوں سے کئی پی ایچ ڈیز کیں. اس نے اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ۲۰۰۶ء تک پاکستان چھ سات ٹکڑوں میں تقسیم ہو چکا ہو گا. ۲۰۰۶ء تک اللہ کے فضل سے ایسا نہیں ہوا ہے لیکن ع ’’سن تو سہی جہاں میں ہے تیرا فسانہ کیا!‘‘دنیا اس ملک کے بارے میں کیا سوچ رہی ہے! رینڈ کارپوریشن کی پیشین گوئی ہے کہ۲۰۲۰ء میں پاکستان کے نام سے دنیاکے نقشے پر کوئی ملک نہیں ہو گا. اس وقت حالات تو اسی رخ پر جا رہے ہیں. بلوچستان علیحدگی کے دہانے پر کھڑا ہے. ۱۹۸۳ء میں ایم آر ڈی کی تحریک کے دوران جب ضیاء الحق کی حکومت تھی‘ سندھو دیش بھی بن سکتا تھا. علیحدگی پسند ریلوے لائن کے سلیپرز کو آگ لگا رہے تھے. وہ تو اندرا گاندھی اُس وقت چوک گئی کہ ان کو مدد فراہم نہ کی‘ ورنہ وہ ریلوے لائن اور سڑک کا رابطہ منقطع کر سکتے تھے. بہرحال اللہ تعالیٰ نے ابھی تک مہلت دے رکھی ہے اور اس مہلت کی قدر کی جانی چاہیے.اور یہ نہ سمجھئے گا کہ پنجاب میں صوبائی عصبیت نہیں ہے. پنجاب میں شدید ترین صوبائی عصبیت موجود ہے‘جس کی وجہ سے پنجاب کی مزید تقسیم نہیں ہو سکی. حالانکہ پاکستان میں ہر سوچنے سمجھنے والے شخص نے یہ کہا کہ پنجاب کو تقسیم ہونا چاہیے‘ تاکہ ملک میں ایک ہموار قسم کا فیڈرل نظام بن سکے. یہ صوبہ اتنا بڑا ہے کہ باقی تینوں صوبوں کی آبادی سے بھی اس کی آبادی زیادہ ہے.لیکن کوئی سننے کو تیار نہیں ہے.

دوسرا نفاق ’’عملی نفاق‘‘ ہے کہ ہمارے اخلاق کا دیوالیہ نکل گیا ہے. صحیح بخاری و صحیح مسلم میں وارد حدیث نبویؐ ہے کہ ’’منافق کی تین نشانیاں ہیں: جب بولے جھوٹ بولے‘ جب وعدہ کرے تو خلاف ورزی کرے‘ جب امین بنایا جائے تو خیانت کرے‘‘. دوسری حدیث میں ایک چوتھی نشانی بھی ہے کہ ’’اگر جھگڑا ہو جائے تو فوراً آپے سے باہر ہو جائے‘‘. اب ان چار علامات کے حوالے سے اپنے معاشرے کا جائزہ لے لیجیے. آپ دیکھیں گے کہ جو جتنا بڑا ہے اتنا ہی جھوٹا ہے‘ جو جتنا بڑا ہے اتنا ہی وعدہ خلاف اور اتنا ہی بڑا خائن ہے. یہاں اربوں اور کھربوں کے غبن ہوئے ہیں ‘ ہمارے اعلیٰ افسروں نے ڈاکو بن کر اس ملک کولوٹا ہے. لڑائی جھگڑے اور قتل و غارت روز مرہ کا معمول بن چکا ہے. دو آدمی ذرا سا جھگڑیں تو فوراً چاقو یا پستول نکل آتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ انسانی جان کی قدر و قیمت مکھی کی جان سے زیادہ نہیں ہے. 

تیسرا اور سب سے بڑا نفاق ہمارے ہاں دستور کا نفاق ہے. کسی ملک میں اہم ترین دستاویز اس کا دستور ہوتا ہے. میں معذرت کے ساتھ یہ الفاظ استعمال کر رہا ہوں کہ پاکستان کا دستور منافقت کا پلندا ہے. منافق وہی ہوتا ہے ناجو ظاہر میں مسلمان ہو اور باطن میں کافر! اور پاکستان کے دستور کا معاملہ بھی بالکل ایسا ہی ہے. میں نے عرض کیا کہ اس ملک میں اسلامی نظام کے قیام کے لیے قراردادمقاصد بھی کافی تھی ‘ اگر اس میں ایک جملے کا اضافہ کر دیا جاتا کہ یہ بقیہ تمام دستور پر حاوی ہو گی. جسٹس نسیم حسن شاہ نے اس قرارداد مقاصد کو ٹھوکر مار کر ردّ کر دیا کہ اس آرٹیکل کا دوسرے آرٹیکلز کے اوپر کوئی اثر نہیں ہو سکتا اور بات ختم ہو گئی. دفعہ ۲۲۷ کے بڑے خوبصورت الفاظ ہیں:

"No Legislation will be done repugnant to the Quran and the Sunnah."

لیکن اسے اسلامی نظریاتی کونسل کے ساتھ نتھی کر دیا گیا. اس کونسل پر کروڑوں روپیہ صرف ہوا اور ان لوگوں نے بڑی محنت سے اچھی سے اچھی رپورٹیں تیار کیں‘ لیکن وہ رپورٹیں مختلف وزارتوں کے دفاتر میں جا کر dump ہو گئیں‘کوئی وزارتِ مالیات کی الماریوں میں ہیں‘ کوئی وزارتِ داخلہ کی الماریوں میں ہیں اور آج تک کسی ایک پر بھی کوئی کارروائی نہیں ہوئی.

ضیاء الحق صاحب نے فیڈرل شریعت کورٹ بنا کر ایک کارنامہ انجام دیا. اصولی اعتبار سے اسلام کے نفاذ کا یہ بہترین طریقہ ہے کہ ایک اعلیٰ عدالت ہو جسے یہ اختیار ہو کہ اگر وہ کسی شے کوقرآن و سنت کے خلاف پائے تو وہ فتویٰ دے دے کہ یہ خلافِ اسلام ہے. وہ اگر مرکزی حکومت کے دائرے کی چیز ہے تو اس کو نوٹس چلا جائے کہ اتنے مہینے کے اندر اندر اس کو ختم کر دو اور اس کی جگہ اسلام کے مطابق متبادل قانون سازی کر لو ‘ ورنہ یہ کالعدم ہو جائے گی اور ایک خلا پیدا ہو جائے گا. اسی طرح اگر صوبائی حکومت کا معاملہ ہے تو اس کو نوٹس جاری کر دیا جائے. لیکن اس فیڈرل شریعت کورٹ کو دو ہتھ کڑیاں اور دو بیڑیاں ڈال دی گئیں کہ:(۱) دستورِ پاکستان اس کے دائرئہ اختیار سے خارج ہے. گویا ہم دستور کے معاملے میں اسلام کی کوئی رہنمائی قبول کرنے کو تیار نہیں. (۲) عدلیہ کے طریق کار سے متعلق قوانین‘ ضابطہ دیوانی‘ ضابطہ ٔفوجداری اس کے دائرئہ کار سے خارج ہیں. (۳) دس سال تک مالی معاملات اس کے دائرہ کار سے خارج ہوں گے. (۴) عائلی قوانین بھی اس کے دائرۂ اختیار سے خارج کر دیے گئے جو ایک منکر حدیث غلام احمد پرویز نے ایک فوجی ڈکٹیٹر ایوب خان سے بنوائے تھے اور آج تک چلے آ رہے ہیں.ضیاء الحق صاحب گیارہ برس تک اسلام اسلام کرتے ہوئے چلے گئے لیکن وہ قوانین جوں کے توں موجود رہے. 

میں نے ضیاء الحق صاحب کی توجہ اس طرف مبذول کرانے کی کوشش کی تھی ‘ لیکن ان کے کان پر جوں تک نہیں رینگی. انہوں نے مجھے مرکزی وزارت کی پیشکش کی تھی تو میں نے اُن سے کہا کہ ایک تومیں اس کا اہل نہیں ہوں.دوسرے یہ کہ آپ نے ہمیں کوئی کام کرنے نہیں دینا‘ آپ کی تو فوجی حکومت ہے اور الزام ہم پر آئے گا کہ یہ نکمّے ہیں. جیسے پہلی وزارتوں میں جماعت اسلامی اور جمعیت علماء اسلام کے جو وزرا ء بنے تھے ان کو داغ دار کر کے وہاں سے نکال باہر کیا گیا تھا کہ یہ نکمے لوگ ہیں‘ کچھ کر نہیں سکے. تاہم جب انھوں نے مجھے مجلس شوریٰ میں شمولیت کی دعوت دی تو وہ میں نے اس خیال سے قبول کر لی کہ یہ واقعی اسلام کا کچھ کام کرنا چاہتے ہیں . لیکن دو سیشنز کے اندر ہی میں نے سمجھ لیا کہ ان کا کچھ کرنے کا ارادہ نہیں ہے‘ یہ تو بس امریکی رائے عامہ کو یہ دکھانے کے لیے ہے کہ میری حکومت خالص فوجی حکومت نہیں ہے‘ بلکہ سول نمائندے بھی میرے ساتھ ہیں. 

۵؍جولائی ۱۹۸۲ء کو گورنر ہاؤس لاہورمیں میری اُن سے ملاقات ہوئی اور میں نے کہا جنرل صاحب! آپ اپنے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ لیے پھر رہے ہیں کہ آپ نے فیڈرل شریعت کورٹ بنائی اور خود اپنے منتخب کردہ علماء کو وہاں جج بنایا‘ تو کیا آپ کو ان کے فہم‘ علم اور دیانت پر اعتماد نہیں ہے؟ کہنے لگے کیوں نہیں؟ میں نے کہا پھرآپ نے ان کے ہاتھ کیوں باندھ دیے ہیں کہ فیملی لاز پر بھی وہ بات نہیں کرسکتے! آپ نے مالی معاملات میں دس سال کی قید لگائی ہے‘ اس کے لیے یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ مالیاتی نظام میں ایک دم تبدیلی نہیں آ سکتی‘ لیکن ہمارے فیملی لاز کو تو انگریز نے بھی نہیں چھیڑا‘ یہ ہمارے اپنے علماء کے فتووں کے مطابق چلتے رہے. اسی طرح ہندوستان میں مسلمانوں نے آج تک ان میں کوئی مداخلت گوارا نہیں کی‘حالانکہ وہاں پر بی جے پی حکومت کا بڑا اہم حصہ رہی ہے اور ’’کامن سول کوڈ‘‘ ان کے منشور کا حصہ تھا‘ یعنی عائلی قوانین سب کے لیے یکساں ہونے چاہئیں. لیکن آج تک وہاں پر مسلمانوں نے ایسا نہیں ہونے دیا. میں نے کہا آپ نے جو عدالت بنائی اور جو علماء بٹھائے ہیں ان کے ہاتھ کھول دیں ‘اور اگر غلام احمد پرویز بھی عدالت میں جا کر ثابت کر دیں کہ ان میں کوئی چیز کتاب و سنت کے منافی نہیں ہے تو میں خوش‘ میرا ربّ خوش! کہنے لگے پھر ان خواتین کو کون مطمئن کرے گا؟ میں نے کہا کہ اگر آپ کی سوچ کا یہی معیار ہے تو یہ میرا استعفاء حاضر ہے.

دس سال کی مدت گزرنے کے بعد وفاقی شرعی عدالت نے بڑا معرکۃ الآراء فیصلہ کیا کہ بینک انٹرسٹ کو سود قرار دے دیا. لیکن حکومت کی طرف سے ایک اپیل دائر کروا دی گئی‘ پھر مہلت لی گئی ‘ پھر جسٹس تقی عثمانی صاحب کو وہاں سے نکال باہر کیا گیا جو لوہے کا چنا تھے اور دو نئے جج لائے گئے. اور کہا جاتا ہے کہ ان سے پہلے ہی یہ بات طے ہو گئی تھی کہ انہوں نے یہی کہنا ہے کہ بینک انٹرسٹ ابھی تک سود ثابت نہیں ہوا‘ لہٰذا شریعت کورٹ از سر ِنو اس پر غور کرے.

اس اعتبار سے اب جو بات میں کہہ رہا ہوں وہ بہت کڑوی ہے کہ پاکستان اپنا جواز کھو رہا ہے. بیرسٹر فاروق حسن کی یہ بات ابھی میرے سامنے آئی ہے‘ اور یہ کتنی بڑی بات ہے کہ بھارت پاکستانیوںسے پوچھ رہا ہے کہ تم نے پاکستان کس لیے بنایا ہے؟ وہاں کیا ہے جو یہاں نہیں ہے؟ بلکہ وہ اس اعتبار سے بہتر رہے کہ انہوں نے جاگیرداریاں تو ختم کر دیں اور وہاں عوامی سیاست ہے. جبکہ پاکستان میں تو جاگیردار بیٹھا ہے اور کتنا ہی شفاف الیکشن ہو ساٹھ ستر فیصد تو وہی جاگیردار ہی منتخب ہوتے ہیں‘ باپ نہیں تو بیٹا اور چچا نہیں تو بھتیجا‘ اللہ اللہ خیر صلا. پاکستان کی سیاست تو میوزیکل چیئرز گیم ہے‘ جاگیرداروں کا ایک مشغلہ ہے. اس اعتبار سے فرنچ زبان کا ایک لفظ ہے جسے انگریزی میں ایسے پڑھتے ہیں : ’’raison detre‘‘ یعنی کسی چیز کا جواز کہ یہ کیوں ہے؟ پاکستان اپنا جواز کھو رہا ہے‘ اس لیے کہ یہاں اس نظام کی طرف کوئی پیش قدمی نہیں ہوئی جس کے لیے یہ پاکستان بنا. حالانکہ قائد اعظم نے ۱۰ برس تک اسلام ہی کی بات کی جس کی وجہ سے مسلم لیگ کو مسلمانانِ ہند کی واحد نمائندہ جماعت کا مقام حاصل ہوا.

ایک تو یہ کہ پاکستان کی جو مثبت اساس تھی یعنی اسلام اور دورِ خلافت ِ راشدہ کو دوبارہ لانے کا اہتمام‘ اس کی طرف کوئی پیش قدمی نہیں ہوئی. دوسرے یہ کہ امریکہ کے دباؤ کے تحت بھارت کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی باتیں ہو رہی ہیں. بھارت کا موقف ہمیشہ سے یہ تھا کہ پہلے normalization کرو‘ پھر کشمیر کی بات کرو‘ لیکن ہم نے کہا نہیں‘ پہلے کشمیر پھر کوئی اور بات. خود ہمارے موجودہ صدر یہ کہہ کر آگرہ سے واپس آ گئے تھے کہ پہلے کشمیر کی بات ہو گی‘ پھر اور کوئی بات ہو گی. لیکن اب کیا ہو رہا ہے کہ آمد و رفت ہے‘ایک دوسرے کو سینے سے لگایا جا رہا ہے‘ بسنت منائی جا رہی ہے. اور صورت حال یہ ہو چکی ہے کہ مشرقی پنجاب کا وزیر اعلیٰ دو دفعہ لاہور میں آ کر کہہ گیا ہے کہ یہ لکیر مصنوعی ہے‘ اسے ختم ہونا چاہیے اور مشرقی پنجاب اور مغربی پنجاب کو ایک ہی ہو جانا چاہیے. کسی اور ملک میں کبھی ایسی بات نہیں ہوتی. ایل کے ایڈوانی پاکستان آیا اور اس نے قائد اعظم کے مزار پر جا کر تو پھول چڑھا دیے‘ لیکن ساتھ یہ بھی کہہ گیا کہ اب تو بس کنفیڈریشن ہو جانی چاہیے.
 
اب یہ جو محبت کے ترانے گائے جارہے ہیں اور طائفے اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے ادھر آ رہے ہیں اس سے پاکستان کے وجود کا منفی محرک بھی ختم ہو رہا ہے. ہندوستان میں جمہوریت کے ساتھ ساتھ سیکولرزم بھی ہے اور وہاں پر پہلے جیسی مذہبی دشمنی نہیں ہے‘ لیکن اس بات کو فراموش مت کیجیے کہ ہر ہندو کے دل میں پاکستان کا ایک زخم ہے. کوئی ہندو کتنا ہی روادار ہو‘ کتنی ہی میٹھی میٹھی باتیں کرے‘ لیکن اس کے دل کاناسور یہی ہے کہ پاکستان تو بھارت ماتا کے ٹکڑے کر کے بنایا گیا ہے. لہذا انہیں کوئی بھی موقع ملا تو وہ اس سے فائدہ اٹھانے میں ذرا تأمل نہیں کریں گے. جیسے ۱۹۷۱ء میں سبرامنیم نے حکومت کورپورٹ لکھی کہ ایسا موقع تو صدیوں بعد ہاتھ آتا ہے. اسے ضائع مت کریں! (This is the chance of centuries, use it!)

بہرحال تعلقات کو معمول پر لانے کا عمل اگر اس کے بعد ہوتا کہ ہم اپنی نظریاتی اساس کو مضبوط کر چکے ہوتے تو یہ خوش آئند بات تھی. محبت ‘خیر سگالی اور اچھے تعلقات کو کون برا کہے گا؟ آمد و رفت ضرور ہونی چاہیے. لیکن یہ سب کچھ اسی صورت میں مفید ہوتا اگر ہماری نظریاتی اساس مضبوط ہوتی. بلکہ پھر تو محبت اور امن کا قدم ہماری طرف سے اٹھتا‘ پھر ہم داعی ہوتے. دنیا میں جہاں بھی اسلام کا نظام قائم ہو گا اُس کی حیثیت پوری دنیا کے لیے داعی کی ہو گی کہ یہ نظام اختیار کیا جائے . یہ ہمار ے باپ کی جاگیر نہیں ہے‘ یہ رحمۃٌللعالمین  کا دیا ہوا نظام ہے‘ یہ پوری نوعِ انسانی کے لیے رحمت ہے. لیکن اِن حالات میں تو اس سب کچھ کا مطلب پاکستان کی نفی (negation) ہے.

اِس وقت جو آخری صلیبی جنگ شروع ہو چکی ہے‘ جس کا میدان افغانستان بنا ہوا ہے اس کے تھپیڑے اب پاکستان کے اندر آ چکے ہیں. صدر پرویز مشرف کے لیے بڑا سخت وقت آنے والا ہے. ان سے کہا جا رہا ہے ابھی اور کچھ کرو (Do more!)‘ اگر تم نہیں کرو گے تو ہم خود کریں گے. چنانچہ امریکی ایوان نمائندگان میں ایک جنرل اپنی تقریر میں یہ بات کہہ چکا ہے کہ ہمیں پاکستانی علاقے پر حملے کرنے چاہئیں. اِدھر مشرقی سرحد کے اوپر ہمارا ازلی دشمن بیٹھا ہے‘ جب موقع ملے گا وہ اس لکیر کو ختم کرنے کی کوشش کرے گا‘ اور ہماری مغربی سرحد بھی محفوظ نہیں رہی.افغانستان کی حکومت شروع سے پاکستان کی مخالف تھی. پاکستان کے اقوام متحدہ تنظیم کا ممبر بننے کی تجویز کی صرف افغانستان نے مخالفت کی تھی‘ باقی پوری دنیا نے کہا تھا کہ پاکستان کو اس کا ممبر ہونا چاہیے.ایک دور میں جب افغان نیشنلزم پروان چڑھ رہا تھا اور ہمارے ہاں پختونستان کے نعرے لگ رہے تھے اُس وقت بعض لیڈر یہ کہہ رہے تھے کہ وہ زنجیر جو طور خم پر لگی ہوئی ہے ہم اسے وہاں سے ہٹا کر اٹک پر لگا دیں گے. پھر ایک دور وہ بھی آیا جب افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی. اس دور میں پاک افغان تعلقات بہت بہتر ہوئے اور ہماری مغربی سرحد محفوظ ہو گئی.۱۱ ستمبر کے واقعے کے بعد پاکستان نے امریکی دھمکیوں میں آ کر اپنی افغان پالیسی سے یوٹرن لے لیا. اب وہاں آخری صلیبی جنگ شروع ہو چکی ہے اور پاکستان میں اس کے تھپیڑے شاید اس لیے آ رہے ہیں کہ ایک حدیث نبویؐ میں اس علاقے کے بارے میں کہا گیا ہے : کون برا کہے گا؟ آمد و رفت ضرور ہونی چاہیے. لیکن یہ سب کچھ اسی صورت میں مفید ہوتا اگر ہماری نظریاتی اساس مضبوط ہوتی. بلکہ پھر تو محبت اور امن کا قدم ہماری طرف سے اٹھتا‘ پھر ہم یَخْرُجُ مِنْ خُرَاسَانَ رَأیَاتٌ سُوْدٌ لَا یَرُدُّھَا شَیْ ءٌ حَتّٰی تُنْصَبَ بِاِیْلِیَاءَ (۱)

’’خراسان سے سیاہ جھنڈے لے کر فوجیں نکلیں گی ‘ کوئی ان کا رخ نہیں موڑ سکے گا ‘یہاں تک کہ ایلیاء (بیت المقدس) میں جا کر وہ جھنڈے نصب ہو جائیں گے.‘‘

گویا حدیث کی رو سے بیت المقدس پر یہودیوںکا قبضہ ہو گا اور خراسان سے فوجیں جاکر اسے واگزار کرائیں گی. یہ باتیں یہودی ہم سے زیادہ جانتے ہیں‘ اس لیے انہوں نے اس علاقے (خراسان) میں آخری صلیبی جنگ (The Last Crusade) کا آغاز کیا ہے.واضح رہے کہ رسول اللہ کے زمانے میں جو علاقہ خراسان تھا اس میں افغانستان بھی شامل ہے اور پاکستان کا بھی کچھ علاقہ شامل ہے. افغانستان کو اس لیے بھی میدانِ جنگ بنایا گیا کہ طالبان نے افغانستان میں اسلامی نظام کی ایک جھلک دکھا دی تھی‘اگرچہ پورا اسلامی نظام نہیں تھا‘ نہ وہاں اسلام کا سیاسی نظام تشکیل پایا تھا نہ معاشی نظام‘ صرف چند ایک اسلامی سزائیں نافذ کی گئی تھیں اور افغانستان کا نوے فیصدعلاقہ جرائم سے پاک ہو گیا تھا. لیکن یہودیوں نے اپنے تئیں "Nip the evil in the bud" کے طور پر اسے تہس نہس کر کے رکھ دیا . ہمارے ہاں کے سیکولر دانشوروں میں پسر ِاقبال ڈاکٹر جاوید اقبال کو بہت نمایاں مقام حاصل ہے. وہ طالبان کے زمانے میں کابل میں آٹھ دس دن گزار کر واپس آئے اور جامعہ حقانیہ اکوڑہ خٹک میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جو حالات میں وہاں دیکھ کر آیا ہوں اگر چند اورمسلمان ملکوں میں بھی یہی کچھ ہو جائے تو پوری دنیا اسلام لے آئے گی. اور یہی وہ بات ہے جو شیطان اور اس کے ایجنٹوں کو پسند نہیں. حقیقت یہ ہے کہ اس وقت شیطان کے سب سے بڑے ایجنٹ یہودی ہیں اور پوری عیسائی دنیا اِن کی آلۂ کار بنی ہوئی ہے. اور یہ بات اب پاکستان کے سامنے بھی کھل کر آ چکی ہے. (۱) سنن الترمذی‘ کتاب الفتن‘ باب ما جاء فی النھی عن سبّ الریاح.