قائد اعظم مرحوم : شرافت و مروّت کے پیکر اور ان کے آخری کلمات

پاکستان کی منزل ’’نظامِ خلافت ِراشدہ‘‘ قائداعظم کے معالج ڈاکٹر ریاض علی شاہ
پروفیسر آف امراض ٹی بی ‘کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج‘ لاہور

قیامِ پاکستان کے ٹھیک ایک سال بعد قائد اعظم انتہائی علالت کے عالم میں‘ زیارت ریذیڈنسی میں‘گویا بستر مرگ پر اپنی زندگی کے آخری ایام گزار رہے تھے تو اُن کا علاج کرنل الٰہی بخش اور ڈاکٹر ریاض علی شاہ پوری توجہ اور جانفشانی سے کر رہے تھے. دونوں معالجوں نے بعد میں اپنی یادداشتیں بھی تحریر کی ہیں. ڈاکٹر ریاض علی شاہ کی یادداشت کا ایک اقتباس روزنامہ ’’جنگ‘‘ نے اپنی ۱۱؍ستمبر۱۹۸۸ء کی ایک خصوصی اشاعت میں شائع کیا تھا‘ جس میں قائد اعظم نے پاکستان کے مستقبل کا پورا خاکہ اہلِ پاکستان کے سامنے رکھ دیا ہے:

’’میرے لیے یہ بات حیرت کا باعث تھی کہ لاہور سے زیارت تک کا سفر طے کر کے میں شدید بیماری میں مبتلا قائد اعظم کے کمرے میں داخل ہوا تو اس کے باوجود کہ بانی ٔ پاکستان انتہائی کمزور ہو چکے تھے اور ان کا جسم کمبل میں لپٹا ہوا تھا‘ انہوں نے اپنا ہاتھ باہر نکالتے ہوئے مجھ سے نہایت گرم جوشی سے مصافحہ کیا اور پوچھا ’’آپ کو راستے میں کوئی تکلیف تو نہیں ہوئی؟‘‘ مرض الموت میں مبتلا اس عظیم انسان کے اخلاق‘ تواضع اور انکساری کی یہ اچھوتی مثال تھی‘ حالانکہ مجھ سے ہاتھ ملانے اور مزاج پرسی کرنے ہی سے وہ ہانپنے لگے اور بعد میں کئی منٹ تک آنکھیں بند کیے لیٹے رہے. برصغیرکے مسلمانوںکو ایک آزاد وطن سے روشناس کرانے والے قائد اعظم کا خدا پر ایمان اور اصولوں پر یقین ہمارے لیے خوشگوار حیرت کا باعث تھا. قائد اعظم بظاہر ان معنوں میں مذہبی رہنما نہ تھے جن معنوں میں عام طو رپر ہم مذہبی رہنماؤں کو لیتے ہیں ‘لیکن مذہب پر اُن کا یقین کامل تھا. ایک بار دوا کے اثرات دیکھنے کے لیے ہم ان کے پاس بیٹھے. میں نے دیکھا کہ وہ کچھ کہنا چاہتے ہیں ‘لیکن ہم نے بات چیت سے منع کر رکھا تھا‘ اس لیے الفاظ لبوں پر آ کر رک جاتے ہیں. اس ذہنی کشمکش سے نجات دلانے کے لیے ہم نے خود انہیں دعوت دی تو وہ بولے:

’’تم جانتے ہو‘ جب مجھے یہ احساس ہوتا ہے کہ پاکستان بن چکا ہے تو میری روح کو کس قدر اطمینان ہوتا ہے! یہ مشکل کام تھا اور میں اکیلا اسے کبھی نہیں کر سکتا تھا. میرا ایمان ہے کہ یہ رسولِ خدا کا روحانی فیض ہے کہ پاکستان وجود میں آیا. اب یہ پاکستانیوں کا فرض ہے کہ وہ اسے خلافت راشدہ کا نمونہ بنائیں‘تاکہ خدا اپنا وعدہ پورا کرے اور مسلمانوں کو زمین کی بادشاہت دے. 

پاکستان میں سب کچھ ہے. اس کی پہاڑیوں‘ ریگستانوں اور میدانوں میں نباتات بھی ہیں اور معدنیات بھی. انہیں تسخیر کرنا پاکستانی قوم کا فرض ہے. قومیں نیک نیتی‘ دیانت داری ‘ اچھے اعمال اور نظم و ضبط سے بنتی ہیں اوراخلاقی برائیوں‘ منافقت‘ زرپرستی اور خودپسندی 
سے تباہ ہو جاتی ہیں.‘‘ 

پاکستان کی نظریاتی اساس کو مستحکم کرنے کا واحد طریقہ

یہ ہے کہ اس حقیقت کا ادراک و اعتراف کر لیا جائے کہ پاکستان کی بقا اور استحکام اور ملک میں قومی یکجہتی کی بحالی دوسرے تمام عوامل سے بڑھ کر اسلام کے نظامِ عدلِ اجتماعی کے قیام اور شریعتِ اسلامی کے نفاذ پر منحصر ہے 

اور بحمد اللہ دستورِ پاکستان میں اس کی بنیاد بھی پڑ چکی ہے! 

تاہم دستور کی اسلامی دفعات کے پوری طرح مؤثر ہونے کی راہ میں چند چور دروازے حائل ہیں 
جن کی بنا پر ہمارا دستور ’’منافقت کا پلندہ‘‘ بن کر رہ گیا ہے‘ چنانچہ 


اب ضرورت اس امر کی ہے کہ دستور میں ترمیم کے ذریعے

۱) قراردادِ مقاصد (دفعہ ۲.الف) کو پورے دستور پر حاوی قرار دیا جائے!
۲) دفعہ ۲۲۷ کو دفعہ ۲.ب کی حیثیت سے قراردادِ مقاصد سے ملحق کر دیا جائے اور اسلامی نظریاتی کونسل کو ختم کر دیا جائے!
۳) البتہ فیڈرل شریعت کورٹ کو زیادہ مستحکم کیا جائے اور اس کے لیے : (i)اس کے دائرہ کا رپر عائد جملہ تحدیدات کو ختم کر دیا جائے!(ii)اس کے کئی بنچ تشکیل دیے جائیں اور اس مقصد کے لیے موجودہ اسلامی نظریاتی کونسل میں شامل جید علماء کرام کی خدمات حاصل کی جائیں!
(iii)اس کے جج صاحبان کی شرائط ملازمت اور مراعات ہائی کورٹ کے ججوں کے مساوی کی جائیں! 

تاکہ اسلامی نظام کے قیام اور شریعت کے نفاذ کا عمل ہموار اور تدریجی طور پر آگے بڑھ سکے 

واضح رہے کہ اس وقت پاکستان کے وجود کو جو داخلی اور خارجی خطرات و خدشات لاحق ہیں ان کے لیے ہمیں اللہ کی مدد کی شدید ضرورت ہے. اور ان شاء اللہ العزیز پاکستان کے عوام کی انفرادی ’’توبہ‘‘ کے ساتھ ساتھ جس کے لیے تحریک خلافت پاکستان اور تنظیم اسلامی کوشاں ہیں 


اس دستوری اور آئینی ’’توبہ‘‘

اور مسئلہ کشمیر کے منصفانہ حل کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت لازماً ہمارے شامل حال ہو جائے گی. اور بھارت کے ساتھ تعلقات کی بحالی اور دوستی اور محبت کی پینگیں بڑھانے سے پاکستان کے وجود کے لیے کوئی خطرہ نہیں رہے گا. اس امر کی urgency کے پیش نظر اس مقصد کے لیے ایک دستوری ترمیم کا بل بھی پیش خدمت ہے تاکہ پاکستان کے قانون ساز اداروں میں شامل کوئی جماعت یا کوئی درد مند فرد اسے لے کر کھڑا ہو جائے اور بقیہ سب لوگوں کو اللہ اس کی تائید کی توفیق عطا فرما دے اور اس طرح ملت اسلامیہ پاکستان پر سے حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کے مانند عذابِ الٰہی کے بادل چھٹ جائیں!

N.A. BILL NO. 18 OF 2005

A Bill further to amend the constitution of Islamic Republic of Pakistan 

Whereas Islam has been declared to be the State Religion of Pakistan and it is obligatory for all Muslims to regulate and order their lives in accordance with the injunctions of the Holy Qur`an and Sunnah.
And whereas in order to achieve the aforesaid objective and goal, it is expedient further to amend the Constitution of Islamic Republic of Pakistan, 1973 (here inafter referred to as the Constitution). Now therefore, it is hereby enacted as following:-

1. Short Title and Commencement:-
(1) This act may be called the Constitution (Eighteenth Amendment) Act. 2005.
(2) It shall come into force at once.

2. Addition of the following words in Article 2-A: - It will take precedence over all the provisions of the CONSTITUTION.

3. Addition of New Article 2B in the Constituion:- After Article 2A, the following new Article 2B shall be added in the Constitution, namely:-
"2(B) (1) All existing laws shall be brought in conformity with the injunctions of Islam as laid down in the Holy Qur`an and Sunnah and no Law shall be enacted which is repugnant to such injunctions.
(2) Nothing contained in any Article of the Constitution shall affect the personal law, regligious freedom and customs of non-Muslims.
(3) The Provisions of this Article shall have effect and shall be operative and self executory."

4. Article 227 of the Constitution with Explanation and clauses (2) and (3) shall be omitted.

5. Amendment of Article 203-B:- In the Constitution in clause "C" of the Article 203-B, after the words "force of law" all the words up to the last word "and" shall be substituted by the following, namely:-
"shall include the Constitution, Muslim personal law and also any law relating to the procedure of any court or tribunal and any fiscal law or any law relating to the levy and collection of taxes and fee or banking insurances practice and procedure."

6. Amendment of Article 303-C:- In the Constitution after clause (3A) of Article 203-C, the following clause (3B) shall be added, namely.-
"(3B) The Ulema judges shall be entitled to the same remuneration, allowances pension and privileges as are admissible to a permanent judge of a High Court."

7. Amendments of Article 203-F:-
Amendment No. 1:- In the Constitution, in Article 203-F. sub-clause (b) of clause (3) shall be substituted by the following, namely.-
"Two Ulema shall be appointed by the President as permanent Judges of the Supreme Court form amongst the Ulema judges of the Federal Shariah Court or from out of panel of Ulema to be drawn up by the President in consultation with the Chief Justice. The Ulema judges shall be entitled to the same remuneration, allowances pension and privileges as are admissible to a judge of the Supreme Court."
Amendment No.2:- In the Constitution, in Article 203-F sub-clause (4) and sub-clause (6) shall be omitted.

8. In the Constitution Article 230 and Article 231 shall be omitted.