یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن حکیم میں تمثیلوں اور تشبیہوں کو اِس قدر کثرت سے کیوں استعمال فرمایا گیا ہے! یہ بات ہمیں جان لینی چاہیے کہ یہ معاملہ صرف قرآن مجید ہی کا نہیں ہے‘ بلکہ یہ تمام آسمانی کتابوں کا مشترک وصف ہے. خصوصاً انجیل میں تمثیلیں نہایت کثرت سے بیان ہوئی ہیں‘ جو نہایت اعلیٰ اور حد درجہ معنی خیز ہیں اور دنیا کی اکثر زبانوں کے کلاسیکل ادب میں ضرب المثل کے طور پر استعمال ہوتی ہیں.آسمانی ادب میں ان تمثیلوں کے بکثرت استعمال کا سبب یہ ہے کہ بعض مضامین اتنے لطیف ہوتے ہیں اور فہم و ادراک کی عمومی سطح سے اتنے بلند ہوتے ہیں کہ اوّلاً تو اُن کو صراحت کے ساتھ بیان کرنا ممکن ہی نہیں ہوتا. ثانیاً اگر انہیں عام انداز میں بیان کیا جائے تو ہو سکتا ہے کہ فائدے سے زیادہ نقصان ہو جائے اور عوامُ الناس کسی مغالطے میں مبتلا ہو جائیں. دوسری طرف ان لطیف اور ماورائی حقائق کا ایک اجمالی تصور انسان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے ضروری اور ناگزیر ہے. لہذا آسمانی کتابوں میں ایسے حقائق کے ضمن میں تمثیل یا تشبیہہ کا پیرایہ اختیارکیاگیا ہے ‘ تاکہ اس سے ہر شخص اپنے فہم و شعور کی سطح کے مطابق استفادہ کرے. چنانچہ انجیل میں مذکور ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ایک حواری نے سوال کیا کہ ’’استاد! آپ تمثیلوں میں گفتگو کیوں کرتے ہیں؟‘‘ حضرت مسیح ؑ نے جواب میں ارشاد فرمایا : ’’تا کہ وہی سمجھیں جن کا سمجھنا مفید ہے‘‘. حاصلِ کلام یہ کہ تمثیل کی احتیاج انسان کو ہے ‘اللہ کو نہیں. جیسے زیر ِمطالعہ آیت ِمبارکہ کے آخر میں فرمایا گیا : وَ یَضۡرِبُ اللّٰہُ الۡاَمۡثَالَ لِلنَّاسِ ؕ وَ اللّٰہُ بِکُلِّ شَیۡءٍ عَلِیۡمٌ ﴿ۙ۳۵﴾ ’’اوراللہ مثالیں بیان فرماتاہے لوگوں کے لیے‘ اور اللہ کو تو تمام چیزوں کا علم ہے‘‘. اور یہ علم ’’کَمَاحَقُّـہٗ‘‘ بھی ہے اور ’’کَمَاہِیَ‘‘ بھی. ہر شے کی اصل حقیقت اس پر روشن ہے. پس تمثیل کی احتیاج ‘معاذ اللہ ‘ثم معاذ اللہ‘ اللہ کو نہیں‘ بلکہ اس کی ضرورت اصلاً ہمیں ہے.
اس کی ایک اور مثال بھی آپ کے سامنے آجائے تو مناسب ہوگا. جب یہ کہا جاتا ہے کہ قانونِ اسلامی کی بنیاد صرف قرآن مجید پر نہیں ہے‘ بلکہ سنت ِرسولﷺ بھی اس کی دوسری لازمی بنیاد ہے ‘تو بعض لوگ ناسمجھی کے باعث یہ اعتراض کر بیٹھتے ہیں کہ اس کامطلب تو یہ ہوا کہ قرآن مجید کو سنت کی ضرورت ہے‘ گویا قرآن سنت کا محتاج ہے. معاذاللہ!‘ اصل بات یہ ہے کہ ہم قرآن مجید کو سمجھنے اور زندگی کے پیچیدہ مسائل و معاملات میں عملی رہنمائی کے حصول کے لیے سنت ِ رسولﷺ کے محتاج ہیں. قرآن مجید میں فرمایاگیا:
وَ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَیۡکَ الذِّکۡرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ اِلَیۡہِمۡ (النحل: ۴۴)
’’اور(اے نبیؐ !) ہم نے آپؐ کی جانب یہ ذکر (یعنی قرآن مجید) نازل فرمایا ہے‘ تا کہ آپؐ لوگوں کے لیے واضح کر یں جو اُن کے لیے نازل کیا گیا ہے.‘‘
اس آیت ِمبارکہ کی رو سے قرآن کی تبیین اس کی تشریح و توضیح اور اس کے اوامر و نواہی پر عمل کا واضح اور روشن اسوہ اور نمونہ پیش کرنا‘ یہ تمام امور حضرت محمد ٌرسول اللہﷺ کے فرمودات و ارشادات نیز آپؐ کے عمل اور آپؐ کی سنت کی رہنمائی کے محتاج ہیں. بالکل یہی بات یہاں ہے کہ تمثیلوں کی احتیاج اللہ کو نہیں ہے بلکہ انسان کو ہے. اللہ تو ہر شے سے واقف ہے‘ ہر شے کا علم رکھتا ہے.