اے اہلِ نظر ذوقِ نظر خوب ہے لیکن
جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا!
تو وہ جو ایک بصیرتِ باطنی ہے‘ اسے ایک نورِ باطنی کی ضرورت ہے اور وہ نورِ باطنی ہے نورِ معرفت ِ خداوندی . اسی نورِ معرفت ِ خداوندی کا ذکر سورۃ البقرۃ میں آیت الکرسی کے بعد دوسری آیت میں ہے:
اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ۙ یُخۡرِجُہُمۡ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوۡرِ۬ؕ (آیت ۲۵۷)
’’اللہ اہل ایمان کا دوست ہے‘ ان کو نکالتا ہے اندھیروں سے روشنی کی طرف.‘‘
گویا اللہ کو پہچان لیا تو اس کائنات کے جملہ حقائق ِکونیہ روشن ہو جائیں گے اور حقائق تکوینی کے ساتھ ساتھ حقائق تشریعی بھی اپنے جملہ اَسرار و حِکم کے ساتھ منور ہو جائیں گے اور ہر شے کی حقیقت نظر آنے لگے گی. چنانچہ یہ جملہ حقائق منکشف ہو جائیں گے کہ آغاز کیا ہے اور اختتام کیا ہے؟ وجود کی ماہیت کیا ہے؟ موت کی حقیقت کیا ہے؟ خیر کی حقیقت کیا ہے؟ شر کی حقیقت کیا ہے؟ علم کسے کہتے ہیں؟ مجازات و مکافات کیوں ضروری ہیں؟ یہ ساری چیزیں انسان کو معلوم ہو جائیں گی اگر وہ اللہ کو جان لے اور اس کو پہچان لے. جس طرح ہماری بصارتِ ظاہری کے لیے نورِ خارجی ضروری ہے‘ اسی طرح بصیرت ِ باطنی کے لیے نورِ معنوی ضروری ہے‘ جو عبارت ہے معرفتِ خداوندی یا ایمان باللہ سے.