درحقیقت یہ مثال ان صدیقین کے ایمان کی ہے کہ جو خود بے تاب ہوتے ہیں کہ جیسے ہی توحید و رسالت کی دعوت سامنے آئے اسے آگے بڑھ کر فی الفور قبول کر لیں. جیسے ہم نے مطالعۂ قرآن حکیم کے منتخب نصاب کے درس ششم کے ضمن میں سورۂ آل عمران کے آخری رکوع کی اس آیت کابھی مطالعہ کیا تھا:
رَبَّنَاۤ اِنَّنَا سَمِعۡنَا مُنَادِیًا یُّنَادِیۡ لِلۡاِیۡمَانِ اَنۡ اٰمِنُوۡا بِرَبِّکُمۡ فَاٰمَنَّا ٭ۖ (آیت ۱۹۳)
’’اے ہمارے ربّ! یقینا ہم نے سنا ایک پکارنے والے (کی پکار) کو کہ دعوت دے رہا ہے ایمان کی کہ ایمان لاؤ اپنے پروردگار پر‘ پس ہم ایمان لے آئے.‘‘
گویا یہ ہے وہ نورِ ایمان جس کے اجزائے ترکیبی دو ہیں‘ ایک نورِ فطرت اور دوسرا نورِ وحی. اسی حقیقت کو اِس آیت میں آگے ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے: نُوۡرٌ عَلٰی نُوۡرٍ ؕ ’’نور پر نور‘‘. دو اَنوار سے مرکب ہو کر وہ نورِ ایمان وجود میں آتا ہے جس سے اوّلاً انسان کا قلب منور ہوتا ہے اور ایک روشن چراغ کی صورت اختیار کر لیتاہے‘ پھر وہ طاق منورہوتا ہے یعنی پورا سینہ روشن ہو جاتا ہے‘ جس کی جانب اشارہ ہے : اَلَمۡ نَشۡرَحۡ لَکَ صَدۡرَکَ ۙ﴿۱﴾ کے الفاظِ مبارکہ میں‘ پھر اِن اَنوار سے انسان کا پورا وجود اور اس کی پوری شخصیت منور ہو جاتی ہے اور ایسے انسان کا وجود اپنی ذات میں خلق ِخدا کے لیے نورِ ہدایت بن جاتاہے. چنانچہ اسی عمل کا بدرجۂ تمام و کمال ظہور ہوا ذاتِ محمدی علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام میں کہ وہ مجسم نورِ ہدایت اور قرآن مجید کے الفاظ میں ’’سِرَاجًا مُّنِیْرًا‘‘ بن گئے.
خلاصۂ کلام یہ واضح ہوا کہ ایمان درحقیقت ایک نور ہے جو دو اَنوار سے مرکب ہے‘ ایک نورِ فطرت اور دوسرا نورِ وحی. ان دونوں کے امتزاج سے جو ’’ نُوۡرٌ عَلٰی نُوۡرٍ ‘‘ وجود میں آتا ہے اس کا محل و مقام ہے قلب ِانسانی. اورظاہر بات ہے کہ جب انسان کا باطن اس نورِ ایمان سے منور ہو جائے گا تو اس کے آثار و نتائج ظاہر ہوں گے انسان کے رویے اورطرز ِعمل میں‘ اس کے اخلاق و کردار میں اور اس کی دلچسپیوں‘ امنگوں اورمشاغل میں. چنانچہ اس درس کی اگلی دو آیات (۳۶‘۳۷) میں نورِ ایمان کے ان ہی آثار و مظاہر کابیان ہے.