اب ذرا تمثیل کے الفاظ پر توجہ مرکوز کیجیے. ارشاد ہوتا ہے:
اَوۡ کَظُلُمٰتٍ فِیۡ بَحۡرٍ لُّجِّیٍّ یَّغۡشٰہُ مَوۡجٌ مِّنۡ فَوۡقِہٖ مَوۡجٌ مِّنۡ فَوۡقِہٖ سَحَابٌ ؕ ظُلُمٰتٌۢ بَعۡضُہَا فَوۡقَ بَعۡضٍ ؕ اِذَاۤ اَخۡرَجَ یَدَہٗ لَمۡ یَکَدۡ یَرٰىہَا ؕ
’’یا جیسے وہ اندھیرے جو کسی گہرے سمندر میں ہوں جسے ڈھانپے ہوئے ہو موج‘ پھر اس کے اوپر چڑھی آ رہی ہو ایک اور موج‘ اور (پھر مطلع بھی صاف نہ ہو بلکہ) اس کے اوپر بادل (چھائے ہوئے) ہوں. (گویا) تاریکیوں پر تاریکیاں ہیں. جب وہ اپنا ہاتھ نکالتا ہے تو اسے بھی نہیں دیکھ پاتا.‘‘
گھپ اندھیرے کے لیے ہماری زبان کا بھی محاورہ ہے ’’ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہ دینا‘‘. اس لیے کہ ایک انسان جب اپنا ہاتھ نکالتا ہے تو اسے سمت کا شعور تو حاصل ہوتا ہے اور خوب اندازہ ہوتا ہے کہ میرا ہاتھ کدھر ہے‘ لیکن اگر وہ اس کے باوجود اپنے ہاتھ کو بھی دیکھ نہیں پا رہا تو معلوم ہوا کہ انتہائی تاریکی ہے اور روشنی کی کوئی رمق بھی موجود نہیں! سبحان اللہ وبحمدہٖ‘ یہ ہے تمثیل کی معراج اور تشبیہہ کا کمال!
اب اس آیت ِ مبارکہ کے آخری حصہ پر توجہ فرمائیے. ارشاد فرمایا:
وَ مَنۡ لَّمۡ یَجۡعَلِ اللّٰہُ لَہٗ نُوۡرًا فَمَا لَہٗ مِنۡ نُّوۡرٍ ﴿٪۴۰﴾
’’اور جس کو اللہ ہی نے نور عطا نہ فرمایا ہوتو اس کے لیے کوئی نور نہیں.‘‘
نور تو اصل میں ایمان ہے‘ اگر ایمان میسر نہیں تو پھر نور کہاں؟ اس صورت میں تو تاریکیاں ہی تاریکیاں ہیں!!
اس درس کے آغاز میں عرض کیا گیا تھا کہ جیسے نورِ خارجی اشیاء کے ظہور کا ذریعہ بنتا ہے ویسے ہی نورِ باطنی حقائق کے ظہور کا ذریعہ بنتا ہے. گویا نورِ ایمان نہ ہو تو حقائق کا ادراک ممکن نہیں ہے. اسی کو بصیرت یعنی باطنی مشاہدہ کہا جاتا ہے. رہی ہماری ظاہری بصارت تو وہ حیوانات کو بھی حاصل ہے. کسی عارفِ کامل نے کیا خوب کہا ہے : ؎
دم چیست؟ پیام است! شنیدی نہ شنیدی؟
در خاکِ تو یک جلوۂ عام است نہ دیدی؟
دیدن دگر آموز! شنیدن دگر آموز !!
در خاکِ تو یک جلوۂ عام است نہ دیدی؟
دیدن دگر آموز! شنیدن دگر آموز !!
یعنی یہ سانس کی آمدو رفت کیا ہے؟ ایک پیغام ہے! تم سنتے ہو یا نہیں سنتے؟ اور تمہارا خاکی وجود ایک نور کی جلوہ گاہ بھی ہے! تم دیکھتے نہیں؟ تو تمہیں چاہیے کہ (حیوانی سمع و بصر سے بلند تر سطح پر) ایک دوسری ہی طرح کا دیکھنا بھی سیکھو اور سننا بھی! واقعہ یہ ہے کہ ایمانِ حقیقی کے بغیر انسان اس ’’دیدن دگر‘‘ اور ’’شنیدن دگر‘‘ سے محروم رہتا ہے. یہی وجہ ہے کہ نبی اکرمﷺ کی یہ دعا تو بہت ہی مشہور ہے کہ: اَللّٰھُمَّ اَرِنِیْ حَقِیْقَۃَ الْاَشْیَاءِ کَمَا ھِیَ ’’اے اللہ !مجھے اشیاء کی حقیقت دکھا جیسی کہ وہ فی الحقیقت ہیں!‘‘ علاوہ ازیں صحیح بخاری‘ صحیح مسلم اور دیگر کتب حدیث میں یہ دعا بھی منقول ہے جو آنحضور ﷺ خاص طور پر فجر کی سنتوں اور فرضوں کے درمیان پڑھا کرتے تھے:
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْ فِیْ قَلْبِیْ نُوراً وَفِیْ بَصَرِیْ نُوراً وَفِیْ سَمْعِیْ نُوراً وَعَنْ یَمِیْنِیْ نُوراً وَعَنْ یَسَارِیْ نُوراً وَفَوْقِی نُوراً وَتَحْتِی نُوراً وَاَمَامِیْ نُوراً وَخَلْفِی نُوراً وَاجْعَلْ لِی نُوراً وَفِیْ لِسَانِی نُوراً وَفِیْ عَصَبِیْ نُوراً وَلَحْمِیْ نُوراً وَدَمِیْ نُوراً وَشَعْرِیْ نُوراً وَبَشَرِی نُوراً وَاجْعَلْ فِیْ نَفْسِی نُوراً وَعَظِّمْ لِی نُوراً ‘ اَللّٰھُمَّ اَعْطِنِیْ نُوراً (۱)
’’اے اللہ! میرے دل میں نور عطا فرما‘ میری بصارت میں نور عطا فرما ‘میری (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الدعوات‘ باب الدعاء اذا انتبہ باللیل. وصحیح مسلم‘ کتاب صلاۃ المسافرین وقصرھا‘ باب الدعاء فی صلاۃ اللیل وقیامہ. سماعت میں نور عطا فرما‘ اور میری دا ہنی جانب سے نور دے‘ میری با ہنی جانب سے بھی نور عنایت کر ‘اور میرے اوپر سے نور دے ‘ میرے قدموں تلے سے نور دے‘ اور میرے سامنے سے نور دے ‘میری پشت کے پیچھے سے نور دے‘ اور میرے لیے نور ہی نو ر کر دے! اور میری زبان میں نور بھر دے ‘اور میرے رگ و پے میں نور بھر دے ‘اور میرے گوشت میں نور بھر دے ‘اور میرے خون میں نور بھر دے‘ اور میرے بالوں میں نور بھر دے ‘اور میری کھال میں نوربھر دے‘ اور میری جان کو نور سے لبریز کر دے اور میرے نور کو فراخ و وسیع فرما دے اور مجھے نور ہی نور عطا کر!‘‘
اس سبق کی پہلی آیت (۳۵) میں ہم پڑھ چکے ہیں: یَہۡدِی اللّٰہُ لِنُوۡرِہٖ مَنۡ یَّشَآءُ ؕ ’’اللہ ہدایت بخشتا ہے اپنے نور کی جس کو چاہتا ہے.‘‘ اور چونکہ ہدایت کے مفہوم میں رہنمائی یعنی راستہ دکھادینے سے لے کر منزلِ مقصود تک بالفعل پہنچا دینے کے جملہ مراحل داخل ہیں لہذا اس کے معنی یہ بھی ہیں کہ اللہ رسائی عطا فرما دیتا ہے اپنے نور تک جس کو چاہتا ہے.
اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں بھی یہ ولولہ‘ یہ اُمنگ اور یہ آرزو پیدا فرما دے کہ ہم بھی اُن خوش نصیبوں میں شامل ہوں جنہیں کفر و شرک‘ الحاد و زندقہ‘ مادہ پرستی‘ ریاکاری‘ منافقت اور قول و عمل کے تضاد کے اندھیروں سے نکل کر ایمان و یقین کی روشنی میں آجانے کی توفیق مل گئی ہو! آمین یا ربّ العالمین!
وآخر دعوانا ان الحمد لِلّٰہِ ربّ العالمینoo