اصلاً قرآن حکیم کے ایک ادنیٰ طالب علم اور حقیر سے خادم لیکن عرفِ عام میں ایک مدرس و مبلغ قرآن کی حیثیت سے راقم کا تعارف اس وقت بہت بڑے پیمانے پر ہو چکا ہے اور اس بات میں ہرگز کوئی مبالغہ نہیں ہے کہ آج دنیا میں جہاں کہیں بھی اردو زبان بولی یا کم از کم سمجھی جاتی ہے وہاں کے مسلمانوں بالخصوص جدید تعلیم یافتہ لوگوں میں سے جو لوگ اپر مڈل کلاس اور لوئر ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتے ہیں اور جن میں دین و مذہب سے بھی عملی نہ سہی کچھ ذہنی و جذباتی لگاؤ موجودہے‘ ان کے گھروں میں مولانا مودودی مرحوم کی تفہیم القرآن کا حسین اور دیدہ زیب set بھی لازماً بک شیلف کی زینت بنا ہوتا ہے اور میرے قرآن حکیم کے دروس اور دیگر دینی و مذہبی اور سیاسی و ملی موضوعات پر خطابات کے آڈیو اور ویڈیو کیسٹوں‘ اور اب سی ڈیز (CDs) اور ڈی وی ڈیز (DVDs) کا بھی معتدبہ اسٹاک موجود ہوتا ہے.

یہ قرآنی دعوت جو اب تحریک رجوع الی القرآن یا تحریک تعلم و تعلیم قرآن کی صورت اختیار کر چکی ہے اس کی بنیاد کا پتھر مطالعۂ قرآن حکیم کا ایک منتخب نصاب تھا جس کے بعض اسباق کے دروس تومیں زمانہ طالب علمی (۵۳.۱۹۵۲ء) ہی سے دیتا چلا آ رہا تھا جو بالعموم پسند کیے جاتے تھے لیکن۱۹۶۵ء میں جب میں اس تحریک کے آغاز کے ارادے سے لاہور واپس آیا (واضح رہے کہ ۱۹۵۴ء میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور سے ایم بی بی ایس سے فراغت کے بعد میں والدین کے پاس منٹگمری ‘حال ساہیوال منتقل ہو گیا تھا) تو اس تحریک کی آبیاری سات سال تک تو میں نے تن تنہا کی (یعنی نہ پشت پر کوئی ادارہ تھا نہ تنظیم یا جماعت) لیکن پھر اس کے بطن سے اوّلاً ۱۹۷۲ء میں مرکزی انجمن خدام القرآن لاہور کی ولادت ہوئی اور پھر ۱۹۷۵ء میں تنظیم اسلامی منصہ شہود پر 
آئی. اس وقت سے میں نے نہ صرف یہ کہ بفضلہ تعالیٰ ایک جانب اِس منتخب نصاب کی ’چکی پیسنی‘ شروع کی (چنانچہ لاہور کے ایک معروف صحافی نے جب مجھ پر ایک نجی گفتگو میں قرآن کا قو ّال ہونے کی پھبتی چست کی تو میں نے اس پر ہرگز کوئی برا نہیں منایا بلکہ اسے ایک امر واقع کی حیثیت سے تسلیم کیا) اور دوسری جانب اس نصاب میں وقتاً فوقتاً اضافے کیے یہاں آگے بڑھنے سے پہلے مناسب ہے کہ اس نصاب کے تاریخی پس منظر اور مقاصد و مراحل ِتدوین جاننے کے لیے میری وہ تحریر پڑھ لی جائے جو میں نے اب سے تقریباً تیس سال قبل اس وقت سپردِ قلم کی تھی جب اس منتخب نصاب میں جو قرآنی آیات اور سورتیں شامل ہیں ان کے صرف باترجمہ متن کو ایک علیحدہ کتابی شکل میں شائع کیا گیا تھا تاکہ محفل ِدرس میں شریک حضرات کے سامنے ان دروس کا متن بھی موجود رہے وھو ھذا: 

’’ آغاز ہی میں یہ بات عرض کر دینی مناسب ہے کہ یہ نصاب راقم کا ’طبع زاد ‘نہیں ہے بلکہ اس کا اصل ڈھانچہ مولانا امین احسن اصلاحی کا تیار کردہ ہے. تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ۵۲.۱۹۵۱ء میں جب راقم الحروف اسلامی جمعیت طلبہ لاہور و پنجاب کا ناظم تھا اس نے جمعیت کے زیراہتمام طلبہ کے لیے دو تربیتی کیمپ منعقد کیے تھے ایک دسمبر۱۹۵۱ء میں کرسمس کی تعطیلات میں اور دوسرا ۱۹۵۲ء کی تعطیلاتِ موسم گرما میں. ان تربیت گاہوں میں قرآن حکیم کا درس مولانا اصلاحی نے دیا تھا اور اس غرض سے انہوں نے ایک نصاب تجویز کیا تھا جو درج ذیل ہے:

(۱) انسان کی انفرادی زندگی کی رہنمائی کے لیے سورۂ لقمان کا دوسرا اور سورۃ الفرقان کا 
آخری رکوع.
(۲) عائلی زندگی سے متعلق سورۃالتحریم مکمل.
(۳) قومی‘ ملی اور سیاسی زندگی کی رہنمائی کے ذیل میں سورۃ الحجرات مکمل.
(۴) فریضہ اقامت دین کے ذیل میں سورۃ الصف مکمل.
(۵) اور تحریک اسلامی سے متعلق مختلف مسائل میں رہنمائی کے ذیل میں سورۃ العنکبوت مکمل.

راقم کی خوش قسمتی تھی کہ اسے بطور ناظم ان دونوں تربیت گاہوں میں شرکت کاموقع ملا اور یہ مقامات اس نے دوبار مولانا اصلاحی سے براہِ راست پڑھے اور راقم نے ان مقامات کو اس طرح اخذ کر لیا کہ 
’’بَلِّغُوْا عَنِّیْ وَلَوْ آیَۃً‘‘ (پہنچاؤ میری جانب سے چاہے ایک ہی آیت) کے مصداق انہیں آگے پڑھانے کے لیے بھی کسی قدر اعتماد پیدا ہو گیا.چنانچہ زمانہ طالب علمی میں جمعیت کے اجتماعات میں بھی راقم مطالعہ ٔ قرآن کی ذمہ داری نبھاتا رہا. تعطیلات کے زمانے میں ساہیوال میں جماعت اسلامی کے اجتماعات میں بھی ان مقامات کا درس دیتا رہا اور رمضان المبارک کے ایک تربیتی پروگرام میں مکمل نصاب بھی پڑھایا. ۱۹۵۴ء میں ملتان میں منعقدہ جمعیت کی ایک تربیت گاہ میں راقم نے پھر یہ نصاب اسی تدریج کے ساتھ پڑھایا. بعد میں جب ساہیوال میں ’اسلامی ہاسٹل‘ قائم کیا تو اس میں مقیم طلبہ کو بھی اس پورے نصاب کا درس دیا. اس کے بعد جب راقم کراچی میں تھا تو وہاں بھی مقبولِ عام ہاؤسنگ سوسائٹی میں ایک حلقہ قائم کر کے اسی منتخب نصاب کا درس دیا . بعدہٗ لاہور میں ’’حلقہ ہائے مطالعہ قرآن‘‘ کے اُس سلسلے کی اساس بھی اسی کو بنایا جس نے اللہ کے فضل و کرم سے ایک باقاعدہ تحریک کی صورت اختیار کر لی!

البتہ اس عرصے کے دوران وقتاً فوقتاً راقم اس بنیادی نصاب میں اضافے کرتا رہا، جن سے اس نصاب کی ایک واضح بنیاد بھی قائم ہو گئی اور مختلف مقامات کے مضامین میں جو فاصلے تھے وہ بھی بہت حد تک پاٹ دیے گئے. ہو سکتا ہے کہ آئندہ بھی خود راقم یا کوئی اور شخص اس میں مزید اضافہ کر سکے. تاہم اس وقت راقم کا گمان ہے کہ ایک خاص نقطہ نظر سے قرآن حکیم کا جو انتخاب اس نصاب میں کیا گیا ہے وہ بہت حد تک مکمل بھی ہے اور نہایت مفید بھی. 

آگے چلنے سے پہلے اس ’’خاص نقطہ نظر‘‘ کی وضاحت بھی ہو جائے تو اچھا ہے. وہ نقطہ نظر یہ ہے کہ ایک مسلمان کے سامنے یہ بات بالکل واضح ہو جائے کہ اُس کے دین کے تقاضے اُس سے کیا ہیں اور اُس کا ربّ اس سے کیا چاہتا ہے؟ گویا دین کے تقاضوں اور مطالبوں کا ایک اجمالی لیکن جامع تصور پیش کرنا اس انتخاب کا اصل مقصود ہے‘ ویسے ضمناً اس سے خود دین کا ایک جامع تصور بھی آپ سے آپ واضح ہو جاتا ہے اور محدود مذہبی تصورات کی جڑیں خود بخود کٹتی چلی جاتی ہیں.

ایک عرصے سے اس بات کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی کہ اس منتخب نصاب کو یکجا شائع کر دیا جائے. لیکن بوجوہ یہ ارادہ پورا نہ ہو سکا. اللہ تعالیٰ کی مشیت میں ہر کام کے لیے وقت معین ہے. اللہ کا شکر ہے کہ اب اس کی صورت پیدا ہو رہی ہے. اللہ تعالیٰ ہی سے دعا ہے کہ وہ اسے لوگوں کے لیے مفید بنائے اور اسی سے اجرو ثواب کی اُمید ہے.
خاکسار اسراراحمد عفی عنہ ‘‘ 


اب صحیح تعداد تو یاد نہیں ہے لیکن۱۹۶۵ء سے شروع ہونے والے تحریکی سفر کے دوران میں راقم 
نے اس منتخب نصاب کا کم از کم پچیس بار درس دیا ہے چنانچہ جیسے کہ اوپر عرض کیا گیا. لاہور کی مختلف آبادیوں میں حلقہ ہائے مطالعہ قرآن کی ہفتہ وار مجالس میں اس کا درس دیا گیا. پھر جامع مسجد خضراء‘سمن آباد میں مرکزی حلقہ درس قائم ہوا تو اس میں اتوار کی صبح کے ہفتہ وار دروس میں اس کی دوبارہ تکمیل کی گئی اور پھر جب یہ مرکزی درس لاہور کے مرکز یعنی مسجد شہداء‘مال روڈ‘پر منتقل ہوا تو وہاں بھی اس کا دوبارہ درس دیا گیا‘ایک بار اتوار کی صبح کی ہفتہ وار نشست میں اور پھر ایک بار مسلسل چالیس روز تک روزانہ مغرب اور عشاء کے مابین درس میں‘پھر جب میری ۱۹۷۷ء میں خطابت ِجمعہ کی ذمہ داری مسجد دارالسلام‘باغ جناح لاہور‘میں منتقل ہوئی تو وہاں بھی آغاز اسی نصاب کے بیان سے ہوا. پھر بیرون لاہور جب بھی خطاب کی دعوت موصول ہوئی اسی نصاب کے مختلف اسباق بیان ہوتے رہے. ۱۹۷۱ء میں کراچی میں ماہانہ درس قرآن میں بھی اس کی تکمیل کی گئی اور اس کے ساتھ ساتھ کراچی کے ہر سفر کے دوران وہاں کی مساجد میں دروس اور خطابات ِجمعہ میں بھی اسی کے اسباق بیان ہوتے رہے اس کے علاوہ اس نصاب کے درس کے لیے کریش پروگرام کی حیثیت سے لاہور‘کوئٹہ اور راولپنڈی میں ایک ایک ماہ کی ’’قرآنی تربیت گاہوں‘‘ میں یہ نصاب بیان ہوا اور دو مرتبہ تو آٹھ آٹھ دنوں کی تربیت گاہوں میں کل نصاب مکمل کیا گیا جس کے لیے پہلے اور آخری اتوار کو کچھ وقفوں کے ساتھ آٹھ آٹھ گھنٹے کے دروس ہوئے اور دوران ہفتہ چار چار گھنٹے درس ہوا. اس نوعیت کاایک کریش پروگرام لاہور میں مسجد خضراء سمن آباد میں ہوا. اور دوسرا جمعیت الفلاح ہال کراچی میں!

بیرونِ پاکستان اس نصاب کا بوٹا اوّل اوّل ۸۰.۱۹۷۹ء میں ٹورنٹو (کینیڈا) میں لگا جب ان دو سالوں میں روزانہ شام کے درس کے مسلسل چودہ چودہ دن پروگرام ہوئے. جن میں اس نصاب کی تکمیل کی گئی اور پہلی بار وہیں ان دروس کے آڈیو کیسٹ اعلیٰ معیار پرتیار کیے گئے جو پھر وہاں سے دنیا کے مختلف ممالک سے آئے ہوئے 
Immigrants کے ذریعے دور دراز کے ممالک تک پہنچے. (یہ کام لکھنؤ (بھارت) سے تعلق رکھنے والے انجینئرجناب سمیع اللہ خان صاحب نے کیا تھا اللہ انہیں اس کا اجرجزیل عطا فرمائے. آمین) 

اس کے ساتھ ساتھ لاہور میں اولاً مسجد خضراء اور پھر مسجد شہداء میں پورے قرآن حکیم کا سلسلہ وار درس بھی دوبار مکمل ہوا جس کے کچھ حصوں کی آڈیو اور آخری حصے کی ویڈیو ریکارڈنگ بھی محفوظ ہے ان سب پر مستزاد بفضلہٖ تعالیٰ ۱۹۸۴ء سے ہم نے رمضان المبارک میں نماز تراویح کے ساتھ دورۂ ترجمہ قرآن کا آغاز کیا.جس میں ہر چار رکعتوں سے پہلے اُن میں پڑھی جانے والی 
آیاتِ قرآنی کا ترجمہ اور مختصر تشریح بیان کی جاتی ہے. ان میں سے گذشتہ پچیس سالوں میں سے کم از کم پندرہ بار تو یہ خدمت خود راقم نے سرانجام دی جن میں تین بار کراچی‘ایک بار ملتان اور ایک بار ابوظہبی کے پروگرام شامل ہیں اور اب یہ بات عام طور پر معلوم ہے کہ یہ پروگرام لاہور اور کراچی میں تو کئی کئی مساجد میں باقاعدہ ہو رہا ہے. اس کے علاوہ ملتان‘جھنگ‘فیصل آباد‘اسلام آباد‘پشاور اور جوہانسبرگ (ساؤتھ افریقہ) میں بھی جاری ہے گویا اب بحمدللہ دعوت رجوع الی القرآن کی یہ تحریک ملک گیر تو ہے ہی‘اس کا چرچا بیرون ملک بھی موجود ہے.

او ر اس ’’شجرۂ طیبہ‘‘ کی ’’اصلِ ثابت‘‘ مطالعہ قرآن حکیم کا وہ منتخب نصاب ہی ہے. الحمد للہ کہ ایک آڈیو ریکارڈنگ مدراس (اب چنائی‘بھارت) سے تعلق رکھنے والے ایک نہایت لطیف اور شائستہ مزاج کے حامل انسان لطف اللہ خان صاحب نے پورے اہتمام کے ساتھ اپنے گھر میں ایک ساؤنڈ پروف کمرے میں کی تھی‘جو ایک ایک گھنٹے کے چوالیس آڈیو کیسٹس پر مشتمل ہے‘اور اہتمام یہ کیا کہ کیسٹ کی ایک سائڈ جو نصف گھنٹہ پر مشتمل ہوتی ہے‘اس میں درس کا ایک حصہ ’خودمکتفی ‘ انداز میں آجائے (برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ جناب لطف اللہ خان صاحب اگرچہ حصولِ معاش کے ضمن میں تو ایک ٹریولنگ ایجنسی چلاتے تھے. لیکن ان کی زبردست 
hobby یہ تھی کہ اردو کے تمام مشاہیر شعراء اور خطباء کو اصرار کرکے اپنے گھر بلا کر ان کا کلام ان کی اپنی آواز میں ریکارڈ کرتے تھے چنانچہ ان کے پاس اس وقت دنیا کی سب سے بڑی voice library موجودہے!) اس ریکارڈنگ کی ایک خاص بات یہ ہے کہ چونکہ وہاں سامعین‘کوئی نہیں ہوتے تھے‘لہذا ان میں عوامی خطابت کا انداز بالکل نہیں ہے بلکہ سادہ ترین انداز میں اور اختصار کے ساتھ مطالب کا بیان ہے! ان کیسٹوں کو کافی عرصہ قبل ٹیپ سے اتار کر اور قدرے ایڈیٹنگ کے ساتھ چھوٹے چھوٹے کتابچوں کی شکل میں شائع کردیاگیا تھا اور اب ہمارے ایک بزرگ رفیق اور کارکن نے ان کتابچوں کو تین جلدوں کی صورت میں شائع کرنے کا بیڑا اُٹھا لیا ہے جس کی پہلی جلد جو منتخب نصاب کے کل چھ حصوں میں سے پہلے تین حصوں پر مشتمل ہے آپ کے ہاتھ میں ہے.

آخر میں اللہ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ وہ میری خدمت قرآنی کو جو میری نسبت سے حقیر‘ لیکن قرآن کی نسبت سے بہت عظیم ہے‘شرفِ قبول عطا فرمائے ! اور خاص طور پر مطالعہ قرآن حکیم کے اس منتخب نصاب کو بڑے پیمانے پر دین کی اصل دعوت کی اشاعت کا ذریعہ بنا دے! آمین ثم آمین برسبیل تذکرہ یہ بھی عرض ہے کہ اب میرا پورا دورۂ ترجمہ قرآن جو ۱۹۹۸ء کے رمضان المبارک میں 
کراچی میں اعلیٰ معیار پر ریکارڈ کیا گیا تھا‘اور جس کے آڈیو اور ویڈیوکیسٹ بڑے پیمانے پر پھیلے ہیں اس کی بھی اشاعت کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے. چنانچہ پہلی جلد شائع ہو چکی ہے جو تعارف قرآن اور عظمت قرآن پر مفصل گفتگو کے علاوہ سورۂ فاتحہ اور سورۂ بقرہ کے ’’بیان‘‘ پر مشتمل ہے !

اس کے بعد ایک ہی کام باقی رہ جائے گا اور وہ یہ کہ مطالعہ قرآن حکیم کے منتخب نصاب کا آخری درس جو میں نے قرآن آڈیٹوریم لاہور میں ہفتہ وار مجالس میں مکمل کیا تھا اور جس میں زیادہ مفصل تفسیری انداز ہے چنانچہ وہ ڈیڑھ ڈیڑھ گھنٹوں کے 105 کیسٹوں پر مشتمل ہے. البتہ اسے ٹیپ سے اتار کر طباعت و اشاعت کے کام کا ابھی آغاز بھی نہیں ہو سکا ہے اور غالباً یہ کام میری وفات کے بعد ہی ہو سکے گا تاہم ہر کام کے لیے اللہ تعالیٰ کے یہاں ایک وقت مقرر ہے لہذا مجھے کوئی تشویش نہیں ہے.فقط! 
(۱)

خاکسار اسرار احمد عفی عنہ ‘
۲۱؍ اکتوبر‘۲۰۰۹ء 
لاہور 


(۱) بانی محترم قدس اللہ سرہٗ نے یہاں جس باقی رہ جانے والے کام کی جانب اشارہ فرمایا ہے، وہ بحمدللہ تعالیٰ شعبۂ مطبوعات انجمن خدام القرآن سندھ کراچی کے تحت شروع کیا جاچکا ہے. یہ مفصل تفسیری انداز کے دروس ٹیپ سے اتارے جارہے ہیں اور ترتیب وتخریج کے مراحل میں ہیں. اندازہ یہ ہے کہ تقریباً چھ عدد جلدوں (جن میں ہرایک اڑھائی سے تین سو صفحات پر مبنی ہوگی) میں اس سلسلے کی تکمیل ہوسکے گی. واللہ اعلم. قارئین اندازہ کرسکتے ہیں کہ تقریباً ا ڑھائی پاروں (یعنی کُل منتخب نصاب) کی تفسیر اس حجم پر کس قدر علوم ومعارف کا ذخیرہ ہوگی!!! یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ داعیٔ قرآن نوراللہ مرقدہ کی پیشنگوئی کہ ’’غالباً یہ کام میری وفات کے بعد ہی ہوسکے گا‘‘ کس قدر درست تھی. قارئین سے التماس ہے کہ اس کام میں اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ کی جانب سے خصوصی سہولت وبرکت اور کرنے والوں کی قابلیت اور قبولیت کے لئے ہردم دعا گو رہیں. (ادارہ)