اس مختصر تمہید کے بعد اَب ہم اللہ کا نام لے کر سورۃ العصر پر غور و فکر کا آغاز کرتے ہیں. اس سورۂ مبارکہ کے بارے میں چار باتیں تمہیداً نوٹ کر لینی چاہئیں:
پہلی یہ کہ یہ سورۂ مبارکہ قرآن حکیم کی مختصر ترین سورتوں میں سے ہے. اس لیے کہ یہ کُل تین آیات پر مشتمل ہے ‘اور قرآن مجید میں کوئی سورۃ تین سے کم آیات پر مشتمل نہیں ہے‘ بلکہ عجیب حسنِ اتفاق ہے کہ کُل تین ہی سورتیں قرآن مجید میں ایسی ہیں جو تین تین آیات پر مشتمل ہیں. انہی میں سے ایک سورۃ العصر ہے ‘اور اتنی مختصر ہے کہ اس کی پہلی آیت صرف ایک لفظ پر مشتمل ہے ‘ یعنی وَ الۡعَصۡرِ ۙ﴿۱﴾
دوسرے یہ کہ ترتیبِ نزولی کے اعتبار سے یہ قرآن مجید کی اوّلین سورتوں میں سے ایک ہے. قرآن نے اپنے بارے میں سورۂ ھود کے آغاز میں یہ الفاظ ارشاد فرمائے کہ یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کی آیات پہلے محکم کی گئیں اور اس کے بعد اُن کی تفصیل بیان کی گئی.فرمایا گیا: الٓرٰ ۟ کِتٰبٌ اُحۡکِمَتۡ اٰیٰتُہٗ ثُمَّ فُصِّلَتۡ مِنۡ لَّدُنۡ حَکِیۡمٍ خَبِیۡرٍ ۙ﴿۱﴾. گویا ابتداءً قرآنِ مجید میں وہ سورتیں اور آیتیں نازل ہوئی ہیں جو انتہائی جامع ہیں اور اس کے بعد انہی کی تفصیل لمبی سورتوں میں وارد ہوئی ہے. اس اعتبارسے گویا سورۃ العصر کا شمار بھی ان انتہائی جامع سورتوں میں ہوتا ہے جو ابتدا میں نازل کی گئیں.
تیسری بات یہ کہ اگرچہ ویسے تو پورا قرآن مجید عربی ادب کی معراج اور فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے معجزہ ہے‘ لیکن طالبانِ قرآن جانتے ہیں کہ قرآن مجید کے مختلف مقامات ادبیت اور فصاحت و بلاغت کے اعتبار سے مختلف اور منفرد کیفیات کے حامل ہیں. گویا معاملہ وہی ہے کہ ؏ ’’ہر گلے را رنگ و بوئے دیگر است‘‘.
اس پہلو سے غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ سورۃ العصر کی انفرادی شان یہ ہے کہ یہ سورۃ قرآن حکیم میں سہل ممتنع کی ایک نہایت اعلیٰ مثال ہے. انتہائی دقیق اور اعلیٰ علمی مضامین نہایت سادہ الفاظ میں بیان ہوئے ہیں. کوئی بھاری بھرکم لفظ یا کوئی ثقیل اصطلاح اس سورۂ مبارکہ میں وارد نہیں ہوئی. تاہم اس کی سلاست کے پردوں میں علوم و معارف کے دریا موجزن نظر آتے ہیں. اس حقیقت پر غور و فکر کے نتیجے میں واقعہ یہ ہے کہ قرآن مجید کے اعجاز اور اُس کی عظمت کے سامنے انسان کا سر بے اختیار جھک جاتا ہے.