لَوْ تَدَبَّرَ النَّاسُ ھٰذِہِ السُّوْرَۃَ لَوَسِعَتْھُمْ
’’اگر لوگ صرف اس ایک سورۃ پر غور و فکر کریں تو یہ ان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے کافی ہو جائے.‘‘ امام شافعی کا ایک اور قول مفتی محمد عبدہٗ نے تفسیر پارہ ’’عَمَّ‘‘ میں نقل کیا ہے‘ جس کی رو سے امام شافعیؒ فرماتے ہیں:
لَوْ لَمْ یُنَزَّلْ مِنَ الْقُرْآنِ سِوَاھَا لَـکَفَتِ النَّاسَ
’’اگر قرآن مجید میں سوائے اِس (سورۃ العصر) کے کچھ اور نازل نہ ہوتا تو لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے یہی کافی ہوتی.‘‘
اِن دو اقوال سے بآسانی اندازہ ہو جاتا ہے کہ امام شافعیؒ کی نگاہ میں اس سورۃ کی عظمت اور اس کا مقام کیا تھا!
دور ِ حاضر میں بھی بہت سے اصحابِ علم و فضل نے اس سورۂ مبارکہ کی عظمت کو پہچانا ہے. چنانچہ مولانا عبدالباری ندوی نے اس سورۂ مبارکہ کی بنیاد پر ’’مسلمانوں کا نظامِ تعلیم و تربیت ‘‘کے عنوان سے ایک خاصی ضخیم کتاب تصنیف کی ہے. امام حمید الدین فراہیؒ نے اس سورۂ مبارکہ کو قرآن مجید کے جوامع الکلم میں سے شمار کیا ہے. میرا اپنا احساس یہ ہے کہ جہاں تک صراطِ مستقیم اور سواء السبیل کی نشاندہی اور انسان کے لوازمِ فوز و فلاح اور شرائطِ نجات کے بیان کا تعلق ہے‘ یہ سورۂ مبارکہ قرآن مجید کی جامع ترین سورۃ ہے. جس طرح توحید کے بیان میں سورۃ الاخلاص قرآن مجید میں نہایت اہمیت کی حامل ہے ‘اور اسی وجہ سے اُس کو قرآن مجید کی عظیم ترین سورۃ قرار دیا گیا ہے‘ بالکل اسی طرح قرآن مجید کے مقصدِ نزول یعنی لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کے اعتبار سے اور صراطِ مستقیم کے سنگ ہائے میل کی نشاندہی کے اعتبار سے یہ سورۂ مبارکہ انتہائی جامعیت اور عظمت کی حامل ہے.