تمہیدی امور میں سے چوتھی‘ آخری اور اہم ترین بات یہ ہے کہ یہ سورۂ مبارکہ قرآن مجید کی جامع ترین سورۃ ہے. اس لیے کہ قرآن مجید کا مقصدِ نزول ہدایت و رہنمائی ہے. اس دنیا میں زندگی بسر کرنے کا صحیح طریقہ بتانا اور صراطِ مستقیم اور سواءالسبیل کی طرف رہنمائی کرنا قرآن مجید کا مقصدِ نزول ہے. اورواقعہ یہ ہے کہ اس اعتبار سے سورۃ العصر قرآن مجید کی جامع ترین سورۃ ہے. یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ یہ ایک ایسے بیج کی مانند ہے کہ جس میں قرآن مجید کا پورا شجرۂ طیبہ موجود ہے. یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں حضرت ابومزینہ دارمی رضی اللہ عنہ کی یہ روایت طبرانی کی ’’معجم الاوسط‘‘ میں اور امام بیہقی کی ’’شعب الایمان‘‘ میں منقول ہے کہ: 

کَانَ الرَّجُلَانِ مِنْ اَصْحَابِ النَّبِیِّ  اِذَا الْتَقَیَا لَمْ یَتَفَرَّقَا حَتّٰی یَقْرَأَ اَحَدُھُمَا عَلَی الْآخَرِ سُوْرَۃَ الْعَصْرِ ثُمَّ یُسَلِّمُ اَحَدُھُمَا عَلَی الْآخَرِ 
’’نبی اکرم کے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے کوئی سے دو صحابہ جب بھی باہم ملاقات کرتے تھے تووہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہوتے تھے جب تک کہ ایک دوسرے کو سورۃ العصر سنا نہ لیں‘ اس کے بعد وہ ایک دوسرے کو سلام کرتے اور ایک دوسرے سے رخصت ہوجاتے.‘‘

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ صحابہ کرامؓ کو اس سورۂ مبارکہ کے ساتھ کس قدر قلبی اُنس تھا.

ائمہ اربعہ میں سے امام شافعی رحمہ اللہ علیہ کا ایک قول اس سورۂ مبارکہ کے بارے میں ملتا ہے جسے حافظ ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے. امام شافعیؒ فرماتے ہیں:

لَوْ تَدَبَّرَ النَّاسُ ھٰذِہِ السُّوْرَۃَ لَوَسِعَتْھُمْ 
’’اگر لوگ صرف اس ایک سورۃ پر غور و فکر کریں تو یہ ان کی ہدایت و رہنمائی کے لیے کافی ہو جائے.‘‘ امام شافعی کا ایک اور قول مفتی محمد عبدہٗ نے تفسیر پارہ ’’عَمَّ‘‘ میں نقل کیا ہے‘ جس کی رو سے امام شافعیؒ فرماتے ہیں: 

لَوْ لَمْ یُنَزَّلْ مِنَ الْقُرْآنِ سِوَاھَا لَـکَفَتِ النَّاسَ 
’’اگر قرآن مجید میں سوائے اِس (سورۃ العصر) کے کچھ اور نازل نہ ہوتا تو لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے یہی کافی ہوتی.‘‘

اِن دو اقوال سے بآسانی اندازہ ہو جاتا ہے کہ امام شافعیؒ کی نگاہ میں اس سورۃ کی عظمت اور اس کا مقام کیا تھا!
دور ِ حاضر میں بھی بہت سے اصحابِ علم و فضل نے اس سورۂ مبارکہ کی عظمت کو پہچانا ہے. چنانچہ مولانا عبدالباری ندوی نے اس سورۂ مبارکہ کی بنیاد پر ’’مسلمانوں کا نظامِ تعلیم و تربیت ‘‘کے عنوان سے ایک خاصی ضخیم کتاب تصنیف کی ہے. امام حمید الدین فراہیؒ نے اس سورۂ مبارکہ کو قرآن مجید کے جوامع الکلم میں سے شمار کیا ہے. میرا اپنا احساس یہ ہے کہ جہاں تک صراطِ مستقیم اور سواء السبیل کی نشاندہی اور انسان کے لوازمِ فوز و فلاح اور شرائطِ نجات کے بیان کا تعلق ہے‘ یہ سورۂ مبارکہ قرآن مجید کی جامع ترین سورۃ ہے. جس طرح توحید کے بیان میں سورۃ الاخلاص قرآن مجید میں نہایت اہمیت کی حامل ہے ‘اور اسی وجہ سے اُس کو قرآن مجید کی عظیم ترین سورۃ قرار دیا گیا ہے‘ بالکل اسی طرح قرآن مجید کے مقصدِ نزول یعنی لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کے اعتبار سے اور صراطِ مستقیم کے سنگ ہائے میل کی نشاندہی کے اعتبار سے یہ سورۂ مبارکہ انتہائی جامعیت اور عظمت کی حامل ہے.