گویا اگر کسی انسان کے پاس نہ دو وقت پیٹ بھرنے کے لیے کچھ موجود ہو‘ نہ تن ڈھانپنے کے لیے مناسب لباس اسے میسر ہو‘ اور نہ سر چھپانے کے لیے کوئی چھت اسے حاصل ہو‘ لیکن ایمان کی دولت‘ عمل صالح کی پونجی اور تواصی بالحق اور تواصی بالصبر سے اس کا دامن بھرا ہوا ہو تو وہ انسان ازروئے قرآن و از روئے سورۃ العصر ایک کامیاب انسان قرار پائے گا . اس کے برعکس کسی کے پاس خواہ نمرود اور فرعون کی سی بادشاہی ہو‘ قارون کا سا خزانہ ہویا دنیا کی دوسری تمام نعمتیں انتہائی کثرت اور بہتات کے ساتھ جمع ہو گئی ہوں‘ لیکن اگر وہ دولتِ ایمان سے محروم ہے‘ اعمالِ صالحہ کی پونجی سے تہی دامن ہے‘ تواصی بالحق اور تواصی بالصبر سے عاری ہے تو وہ شخص ازروئے سورۃ العصر ناکام ہے‘ خائب و خاسر اور نامراد ہے.
اس حقیقت کو جان لینا شاید اتنا مشکل نہیں جتنا کہ اس پر دل کا جم جانا دشوار ہے. اس لیے کہ انسان اس دنیا میں اپنے گرد و پیش سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا. اگر کسی وقت کوئی چمکیلی شوخ رنگ کی نئے ماڈل کی کار کسی کے پاس سے زنّاٹے کے ساتھ گذر جاتی ہے تو واقعہ یہ ہے کہ اعصاب میں ایک ارتعاش سا پیدا ہو جاتا ہے. اسی طرح اگر کسی عالی شان محل کے سامنے سے گذر ہو جس میں زندگی کی تمام آسائشیں فراہم ہوں تو نفسِ انسانی اس سے تا ٔثر قبول کرتا ہے. واقعہ یہ ہے کہ اِس دنیا میں رہتے ہوئے یہاں کی چمک دمک اور رونقوں سے متأثر ہونا انسان کی خِلقی کمزوریوں میں سے ایک ہے‘ لہذا ضرورت ہے کہ کامیابی و ناکامی کے اس قرآنی معیار کو ایک دفعہ مان لینے کے بعد اس کا بار بار اعادہ کیا جاتا رہے ‘ اس حقیقت کی طرف وقفے وقفے سے ذہن کو منتقل کیا جاتا رہے اور اس کی بکثرت یاد دہانی ہوتی رہے. یہی وہ بات ہے جو صحابۂ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے طرز ِ عمل سے سامنے آتی ہے اور اس سوال کا واضح جواب ہمارے سامنے آتا ہے کہ آخر وہ کیوں ہر ملاقات کے موقع پر ایک دوسرے کو سورۃ العصر سنایا کرتے تھے! اسی لیے کہ یہ حقیقت ذہن میں مستحضر رہے کہ انسان کی کامیابی دولت و جائیداد‘ دنیاوی اقتدار اور شہرت و ناموری سے نہیں ہے ‘بلکہ اس کی کامیابی کے لوازم بالکل دوسرے ہیں‘ یعنی ایمان‘ اعمالِ صالحہ‘ تواصی بالحق اور تواصی بالصبر.