تیسری بات جو اِس سورۂ مبارکہ پر معمولی سے غور و فکر سے واضح ہو جاتی ہے ‘ یہ ہے کہ اس سورۃ میں انسان کی کامیابی کے اعلیٰ مراتب کا ذکر نہیں ہے‘ بلکہ یہاں محض ادنی ٰ درجے میں کامیابی کا بیان ہے. اس میں محض خسارے اور گھاٹے سے بچ جانے کی شرائط کو بیان کیا گیا ہے. معلوم ہوا کہ یہ کم از کم لوازمِ نجات ہیں یا یوں کہہ لیجیے کہ یہ انسان کی کامیابی کی کم سے کم شرائط ہیں جن سے کم تر پر نجات کا کوئی تصور نہیں! اس لیے کہ اگر یوں کہا گیاہوتا کہ ان لوگوں کو بڑے اعلیٰ مراتب نصیب ہوں گے جن میں مذکورہ بالا چاروں صفات موجود ہوں گی تو پھر امکانی طور پر یہ خیال ذہن میں آ سکتا ہے کہ کامیابی ٔمحض کے حصول اور ناکامی سے بچنے کے لیے اس سے کم تر پر قناعت کی جا سکتی ہے. یعنی چار کے بجائے دو شرائط کو پورا کرنے پر بھی ہلکے درجے کی کامیابی کی امید کی جا سکتی ہے. لیکن یہاں جو اُسلوب اختیار کیا گیا اس سے یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ انسان کی کامیابی کا کم سے کم تقاضا اور اس کی فوز و فلاح کے کم سے کم لوازم ہیں جو اس سورۂ مبارکہ میں بیان ہوئے.