ان چار باتوں کے مابین جو منطقی ربط ہے اس کو ایک عام مثال سے بھی سمجھا جا سکتا ہے. اس دنیا میں کسی بھی اہم معاملے میں جو کسی انسان کو پیش آئے‘ صحیح طرزِ عمل یہ ہو گا کہ انسان اس معاملے کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرے کہ حقیقت کیا ہے. پھر جب حقیقت اس پر منکشف ہو جائے تو ایک معقول انسان کی روش یہ ہو گی کہ وہ اسے قبول کرے‘ تسلیم کرے. اور اگر اس کے قبول کرنے میں کسی کی ناراضگی مول بھی لینی پڑتی ہویا کچھ ذاتی نقصان برداشت کرنا پڑتا ہو تب بھی اسے قبول کرنے سے نہ رکے‘ اس لیے کہ وہ حقیقت اس پر منکشف ہو چکی ہے. اس کے بعد اگلا قدم یہ ہو گا کہ جس حق کو اس نے قبول کیا ہے اس کا اعلان بھی کرے‘ اس کی طرف لوگوں کو بلائے. اور آخری مرحلے کے طورپر اِس معاملہ میں خواہ اسے مخالفت کا سامنا ہو‘ خواہ اس کا تمسخر ہو اور خواہ اس کو جان کے لالے پڑ جائیں وہ اپنے موقف پر ڈٹا رہے اور اس کی طرف لوگوں کوبلاتا رہے.

سقراط کا واقعہ ہمیں معلوم ہے کہ چند حقائق اس پر منکشف ہوئے. اس نے ان کو نہ صرف خود قبول کیا بلکہ ان کا اعلان بھی کیا. اس راہ میں اسے زہر کا پیالہ بھی پینا پڑا. لیکن اس نے اعتراف و اعلانِ حق سے منحرف ہونے کی بجائے اپنی زندگی کو قربان کر دینا مناسب سمجھا. ہر معقول اور صاحب سیرت و کردار انسان کے لیے یہی ایک روش ہے جو اسے اختیار کرنی چاہیے.جس مرحلہ پر بھی انسان اس معقول روش کو چھوڑ کر اپنی سیرت و کردار کے بودے پن کامظاہرہ کرے گا تو وہ گویا اس بات کا ثبوت دے گا کہ وہ محض صورتاً ایک انسان ہے‘ حقیقی انسانیت سے بہرہ ور نہیں ہے.

تو یہ وہ چند حقیقتیں ہیں کہ جو اِس سورۂ مبارکہ سے گویا از خود چھلک رہی ہیں. ذرا سے تأمل اور غور وفکر سے انسان اِن تک بآسانی رسائی حاصل کر لیتا ہے. الغرض یہ اِس سورۂ مبارکہ کی وہ بنیادی رہنمائی ہے جو بطریق تذکّر حاصل ہوتی ہے. اس کے بعد ہمیں ذرا مزید گہرائی میں اتر کر اس کے مضامین پر غور و فکر کرنا ہے.