سورۃ العصر پر اگر بطریق تدبّر غور کیا جائے تو اس کی مرکزی اور درمیانی آیت سے نوعِ انسانی کی ایک عجیب اَلمیاتی (tragic) کیفیت سامنے آتی ہے. انسان کا بحیثیت انسان بڑا ہی درد ناک انجام اس آیۂ مبارکہ کے ذریعے سامنے آتا ہے : اِنَّ الۡاِنۡسَانَ لَفِیۡ خُسۡرٍ ۙ﴿۲﴾ لفظ ’’انسان‘‘پر ’’ال‘‘ کی صورت میں جو حرفِ تعریف داخل ہوا ہے یہ بلااختلاف ’’لامِ جنس‘‘ ہے. گویا یہاں ’’اَلْاِنْسَان‘‘ سے تمام کے تمام انسان اور پوری نوعِ انسانی مراد ہے. ’’
لَفِیۡ خُسۡرٍ ‘‘ کا عام طور پر ترجمہ یوں کیاجاتا ہے کہ ’’یقینا خسارے میں ہے‘ گھاٹے میں ہے.‘‘ لیکن یہ بات جان لینی چاہیے کہ یہاں خسارے سے مراد کوئی دو چار لاکھ یا دو چار کروڑ کا خسارہ نہیں‘ بلکہ اس سے مراد ہے بربادی‘ تباہی اور ہلاکت. اسی لیے قرآن مجید اگرچہ کامیابی کے لیے متعدد الفاظ استعمال کرتا ہے‘ مثلاً فوز‘ فلاح‘ سعادت اور رشد وغیرہ‘ لیکن ان سب کی ضد قرآن مجید میں بالعموم ایک ہی لفظ ’’خسران‘‘ کو استعمال کرتا ہے : ذٰلِکَ ہُوَ الۡخُسۡرَانُ الۡمُبِیۡنُ ﴿۱۱﴾ (الحج) سورۃ العصر میں نوعِ انسانی کے جس المیہ (human tragedy) کی طرف اشارہ ہو رہا ہے اسے دو مراتب میں سمجھا جا سکتا ہے. پہلے درجے میں ہم دیکھتے ہیں کہ اس دنیاوی زندگی کے دوران محنت و مشقت ہر انسان کا مقدر ہے. مختلف اعتبارات سے تکالیف اور مصائب کے پہاڑ اس پر ٹوٹتے رہتے ہیں‘ کسی پر کم اور کسی پر زیادہ. نوعِ انسانی کی ایک عظیم اکثریت ایسے افراد پر مشتمل ہے جو دن بھر کی کمر توڑ دینے والی محنت کرنے کے باوجود اپنے اور اپنی اولاد کے لیے زندگی کی بنیادی ضروریات بھی فراہم نہیں کر پاتے. اس پر مستزاد ہیں وہ صدمات کہ جن سے انسان دوچار ہوتا ہے. کبھی اولاد کی محبت اسے رلاتی ہے‘ کبھی مال کی تمنا اسے تڑپاتی ہے‘ کبھی ناکام آرزوئیں اس کے گلے کا ہار بنتی ہیں. طرح طرح کی مایوسیوں اور frustrations اور کئی نوع کی الجھنوں (conflicts) سے انسان دوچار ہوتا ہے. حقیقت تو یہ ہے کہ نسیان اور بھول انسان کے لیے ایک بہت بڑی رحمت ہے. وقت کا مرہم انسان کے زخموں کو مندمل کر دیتا ہے. اس پر رنج و غم کے پہاڑ ٹوٹتے رہتے ہیں‘ لیکن وقت کے گذرنے کے ساتھ ساتھ انہیں بھلا دیتا ہے اور وہ اس طرح زندگی کا یہ سفر جیسے تیسے طے کرتا ہے. لیکن اگر کوئی قلبِ حساس نوعِ انسانی کی اس کیفیت کا مشاہدہ کرے تو واقعہ یہ ہے کہ وہی صورت پیدا ہو گی جو گوتم بدھ کو درپیش ہوئی تھی‘ جس نے نوعِ انسانی کے اس المیہ کا مشاہدہ کر کے اپنا تاج و تخت اور سارا عیش و آرام تج کر اس بات پر کمر کس لی تھی کہ معلوم کر ے گا کہ اس دکھ اور تکلیف کا اصل سبب کیا ہے‘ اور اس سے نجات پانے کی سبیل کون سی ہے! قرآن مجید نے ایک مقام پر اس تمام کیفیت کو نہایت جامعیت کے ساتھ یوں بیان فرمایا : لَقَدۡ خَلَقۡنَا الۡاِنۡسَانَ فِیۡ کَبَدٍ ؕ﴿۴﴾ (البلد) ’’ہم نے انسان کو محنت اور مشقت ہی میں پیدا کیا ہے.‘‘ یہ محنت و مشقت ہر انسان کا مقدر ہے. (۱) ممکن ہے بعض لوگ اس مغالطے کا شکار ہوں کہ شاید دولت مند لوگوں کے لیے کوئی تکلیف نہیں‘ وہ آرام اور آسائش ہی میں رہتے ہیں. حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ جس قسم کی ذہنی اذیتوں اور جس نوع کی نفسیاتی پیچیدگیوں سے انہیں سابقہ پیش آتا ہے‘ بالعموم غرباء کو یا محنت کش لوگوں کو ان کا تجربہ بھی نہیں ہوتا.
(۱) غالب نے اپنے ایک شعر میں اس حقیقت کی تعبیر بڑی خوبصورتی سے کی ہے ؎
قیدِ حیات و بندِ غم اصل میں دونوں ایک ہیں
موت سے پہلے آدمی غم سے نجات پائے کیوں!
یہ تو تھا نوعِ انسانی کو درپیش المیے کا ابتدائی باب یا پہلا مرحلہ انسانی المیے کا نقطۂ عروج (climax) وہ ہو گا جب یہ ساری کمر توڑ دینے والی مشقتیں جھیل کر اورتمام تکلیفیں برداشت کر کے بالآخر انسان کی آنکھ اُس دوسری دنیا میں کھلے گی جہاں وہ اپنے آپ کو ایک بڑے محاسبے اور جواب دہی (grand accountability) کے لیے اپنے ربّ کے حضور کھڑا پائے گا. انسانی المیے کا یہ وہ پہلو ہے جو کسی حیوان کا مقدر نہیں ہے‘ کسی کولہو کے بیل یا کسی باربرداری کے جانور کو یہ کٹھن مرحلہ درپیش نہیں ہو گا. قرآن حکیم نے اس حقیقت کو یوں بیان فرمایا ہے :یٰۤاَیُّہَا الۡاِنۡسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدۡحًا فَمُلٰقِیۡہِ ۚ﴿۶﴾ (الانشقاق) ’’ اے انسان! تجھے یہ تمام دکھ جھیلتے اور مشقتیں سہتے ہوئے بالآخر اپنے ربّ کے حضور میں جاحاضر ہونا ہے‘‘.
یہ وہ مرحلہ ہے کہ جس کے احساس ہی سے نسل انسانی کے گلِ سرسبد کانپ کانپ جاتے رہے ہیں. سورۃ النور میں اس کی نقشہ کشی ان الفاظ میں کی گئی ہے : یَخَافُوۡنَ یَوۡمًا تَتَقَلَّبُ فِیۡہِ الۡقُلُوۡبُ وَ الۡاَبۡصَارُ ﴿٭ۙ۳۷﴾ ’’ وہ (اہل ایمان) ڈرتے رہتے ہیں اس دن کے احساس اور اس دن کے خیال سے جس دن نگاہیں اور دل الٹ جائیں گے.‘‘ اسی احساس سے مغلوب ہو کر ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بڑے جذب کی کیفیت میں یہ فرمایا کرتے تھے کہ کاش میں درختوں پر چہچہاتی ہوئی ایک چڑیا ہوتا جس سے کوئی محاسبہ نہیں ہے‘ جسے کوئی جواب دہی نہیں کرنی ‘اور کاش کہ مَیں گھاس کا ایک تنکا ہوتا جو جلا کر راکھ کر دیا جاتا ہے لیکن اسے کسی محاسبہ اور پوچھ گچھ کا سامنا نہیں کرنا ہو گا. اسی سے ملتے جلتے الفاظ سورۃ النبأ کے اختتام پر وارد ہوئے ہیں کہ اُس روز کی سختیوں اور ہولناکی سے گھبرا کر انسان پکار اُٹھے گا : یٰلَیۡتَنِیۡ کُنۡتُ تُرٰبًا ﴿٪۴۰﴾ ’’اے کاش کہ میں مٹی ہوتا‘‘ (کاش کہ شرفِ انسانیت مجھے عطا نہ ہوتا) . یہ ہے نوعِ انسانی کا وہ الم ناک مقدر اور ہلاکت خیز نصیب جس سے پوری نوع کو بحیثیت مجموعی دوچار ہونا ہے اور یہ ایک ایسی اٹل حقیقت ہے کہ جس پر اس سورۂ مبارکہ کی پہلی آیت میں قسم کھائی گئی ہے : وَ الۡعَصۡرِ ۙ﴿۱﴾