اب تیسری آیت پر توجہ کومرکوز کیجیے! یہ تیسری آیت مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیرے میں امید کی ایک کرن بن کر طلوع ہوتی ہے کہ اگرچہ بحیثیت مجموعی پوری نوعِ انسانی کا مقدر یہ ہے کہ وہ ہلاکت اور بربادی سے دوچار ہونے والی ہے لیکن اس قاعدہ کلیہ میں ایک استثناء موجود ہے‘ اس خسارے سے نجات کی ایک صورت ممکن ہے. اس تیسری آیت میں انسان کی رہنمائی ایک صراطِ مستقیم کی جانب کی گئی ہے جس پر چل کر وہ اپنے آپ کو اس ہلاکت خیز انجام سے بچا سکتا اور فوز و فلاح سے ہمکنار ہو سکتا ہے.
اس صراطِ مستقیم یا سواء السبیل کے چار سنگ ہائے میل (mile stones) ہیں‘ یا یوں کہیے کہ اس کی چار منزلیں ہیں. اوّلین منزل ہے ایمان‘ دوسری ہے عمل صالح‘ تیسری ہے تواصی بالحق اور چوتھی ہے تواصی بالصبر.
یہاں قرآن مجید نے جس انداز میں ان چار اصطلاحات کو بیان کیا ہے اور اُس کے لیے اس نے جو الفاظ اختیار کیے ہیں تو واقعتا انہوں نے قرآن مجید کی بنیادی اصطلاحات کی صورت اختیار کر لی ہے. ان پر بطریق تدبر غور کرنے کے لیے ان کو دو دو کے دو جوڑوں میں تقسیم کرنا مناسب ہو گا. ہم پہلے ایمان اور عمل صالح اور ان دونوں کے باہمی تعلق پر غور کریں گے‘ پھر تواصی بالحق اور تواصی بالصبر اور ان کے باہمی رشتے پر توجہات کو مرکوز کریں گے اور پھر ان دونوں جوڑوں کے مابین موجود عقلی اور منطقی ربط کو سمجھنے کی کوشش کریں گے.