ایمان اور عمل صالح کا باہمی تعلق

یہ بات جان لینی چاہیے کہ ایمان اور عمل صالح قانون کے درجے میں اگرچہ دو جداگانہ حقیقتیں ہیں لیکن حقیقت کی سطح پر یہ دونوں ایک وحدت بن جاتے ہیں. یہ اس طرح باہم لازم و ملزوم ہیں کہ ایک کو دوسرے سے جدا کرنا ممکن نہیں! یہ ہے وہ بات جو نبی اکرم کی متعدد احادیث کے ذریعے وضاحت سے سامنے آتی ہے. مثلاً ایک حدیث میں‘ جسے امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ نے نقل کیا ہے اور جس کے راوی حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں‘ حضور کے یہ الفاظ وارد ہوئے ہیں : 

لاَ یَزْنِی الزَّانِیْ حِیْنَ یَزْنِیْ وَھُوَ مُؤْمِنٌ وَلَا یَسْرِقُ السَّارِقُ حِیْنَ یَسْرِقُ وَھُوَ مُؤْمِنٌ وَلَا یَشْرَبُ الْخَمْرَ حِیْنَ یَشْرَبُھَا وَھُوَ مُؤْمِنٌ (۱’’کوئی زانی حالت ایمان میں زنا نہیں کرتا‘ کوئی چور حالتِ ایمان میں چوری نہیں کرتا‘ کوئی شرابی حالت ایمان میں شراب نہیں پیتا.‘‘

جس وقت کوئی شخص یہ کام کرتا ہے وہ دلی یقین کسی سبب سے زائل ہو چکا ہوتا ہے. اگر وہ دلی یقین موجود ہو تا تو ان افعال کا صدور ممکن نہ ہوتا. جب ہم چوراہے پر کسی ٹریفک کانسٹیبل کو کھڑا دیکھتے ہیں تو بلا ارادہ بھی ہماری گاڑی ٹھیک جگہ پر جا کر رک جاتی ہے ‘اس لیے کہ ہمیں معلوم ہے کہ یہاں کے نظم و نسق کا محافظ اور ذمہ دار شخص ہمیں دیکھ رہا ہے. اگر یہ یقین ہو کہ اللہ موجود ہے اور مجھے دیکھ رہا ہے تو کیسے ممکن ہے کہ میں اس کے کسی حکم کی خلاف ورزی کروں.

ایمان اور عمل صالح کے باہمی لازم و ملزوم ہونے کا تعلق ایک اور متفق علیہ حدیث مبارکہ سے بھی سامنے آتا ہے. رسول اللہ ارشاد فرماتے ہیں: 

وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ ‘ وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ ‘ وَاللّٰہِ لَا یُؤْمِنُ 
’’خدا کی قَسم وہ شخص مؤمن نہیں‘ خدا کی قَسم وہ شخص مؤمن نہیں‘ خدا کی قَسم وہ شخص مؤمن نہیں.‘‘

صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین لرز اٹھے ہوں گے. انہوں نے بہت ڈرتے ہوئے سوال کیا : 
’’لِمَنْ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ؟‘‘ کہ حضور! یہ آپؐ کس کے بارے میں ارشاد فرما رہے ہیں؟ جواباً آپ نے فرمایا : 

اَلَّذِیْ لَا یَاْمَنُ جَارُہٗ بَوَائِقَہٗ (۲’’وہ شخص کہ جس کی ایذا رسانی سے اس کا پڑوسی امن میں نہیں.‘‘ 

(۱) صحیح البخاری‘ کتاب الحدود‘ باب لا یشرب الخمر. مزید برآں بخاری میں متعدد مقامات پر یہ حدیث وارد ہوئی ہے. وصحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب بیان نقصان الایمان بالمعاصی ونفیہ عن المتلبس بالمعصیۃ… (الفاظ صحیح مسلم کے ہیں) 
(۲) صحیح البخاری‘ کتاب الادب‘ باب اثم من لا یأمن جارہ بوائقہ . وصحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب بیان تحریم ایذاء الجار. یہ ہے تعلق ایمان اور عمل صالح کا‘ اور یہ ہے تعلق ایمان اور اخلاقِ صالحہ کا. ایک اور حدیث میں جو رسول اللہ کے خادمِ خاص حضرت اَنس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے‘ آپ کے مندرجہ ذیل الفاظ نقل ہوئے ہیں. حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: 

قَلَّمَا خَطَبَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِلَّا قَالَ : لَا اِیْمَانَ لِمَنْ لاَّ اَمَانَۃَ لَہٗ وَلَا دِیْنَ لِمَنْ لاَّ عَھْدَ لَہٗ (۱’’شاذ ہی کبھی ایسا ہوا ہو گا کہ رسول اللہ نے کوئی خطبہ ارشاد فرمایا ہو اوراس میں آپؐ نے یہ الفاظ ارشاد نہ فرمائے ہوں : ’’ جس شخص میں امانت نہیں ہے اس کا کوئی ایمان نہیں ہے اور جس میں ایفاءِ عہد نہیں ہے اس کا کوئی دین نہیں ہے.‘‘ 

معلوم ہوا کہ ایمان اور عمل صالح کا چولی دامن کا ساتھ ہے. ایمان اگر حقیقی اور فی الواقع قلبِ انسانی میں جاگزیں ہو گیا ہو تو ممکن نہیں ہے کہ انسان کی سیرت و کردار میں اس کی جھلک نظر نہ آئے. ایک اعتبار سے یہ وہی بات ہے جو سقراط نے کہی تھی کہ علم نیکی ہے اور جہالت بدی ہے. ایمان نام ہے علم حقیقت کا. انسان کے عمل کی درستی اس کا لازمی نتیجہ ہے.