اب آیئے آخری دو الفاظ کی طرف‘ یعنی وَ تَوَاصَوۡا بِالۡحَقِّ ۬ۙ وَ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ ٪﴿۳﴾ الفاظ کے اس جوڑے میں لفظ ’’ تَوَاصَوۡا ‘‘ دوبار آیا ہے.مناسب ہو گا کہ پہلے اس پر غور کر لیا جائے! یہ لفظ ’’وصیت‘‘ سے بنا ہے اور وصیت عربی زبان میں ہر اُس بات کو کہتے ہیں جو تاکید کے ساتھ کہی جائے. اردو زبان میں صرف کسی شخص کے انتقال کے وقت کی کہی ہوئی باتوں کو وصیت کہا جاتا ہے‘ لیکن عربی میں اس کااطلاق ہر ایسی بات پر ہوتا ہے جو کسی بھی موقع پر تاکیداً کہی جائے. یہاں اس سورۂ مبارکہ میں یہ لفظ بابِ تفاعل میں آیا ہے. ’’تواصی‘‘ باب تفاعل سے مصدر ہے‘ اور اس باب کا خاصہ یہ ہے کہ اس میں جو الفاظ آتے ہیں ان میں ایک تو مبالغے کا مفہوم پیدا ہوجاتا ہے‘ یعنی کسی کام کو اہتمام کے ساتھ سرانجام دینا‘ اور دوسرے ان میں شراکت کامفہوم شامل ہو جاتا ہے. یعنی باہم مل جل کر کسی کام کو سرانجام دینا. تو ’’تواصی‘‘کامفہوم یہ ہو گا کہ انتہائی اہتمام کے ساتھ باہم ایک دوسرے کو کسی بات کی تلقین کرتے رہنا. یہ تلقین ’’حق‘‘ کی بھی ہو گی اور ’’صبر‘‘ کی بھی. وَ تَوَاصَوۡا (۱) مسند احمد‘ باقی مسند المکثرین ‘ باب مسند اَنس بن مالک. بِالۡحَقِّ ۬ۙ وَ تَوَاصَوۡا بِالصَّبۡرِ ٪﴿۳﴾