’’حق‘‘ عربی زبان کا ایک وسیع المفہوم لفظ ہے. اس کے چار بنیادی مفاہیم بیان کیے جاتے ہیں: (۱) ہر وہ شے حق ہے جو فی الواقع موجود ہو. اس کے برعکس جو شے حقیقتاً موجود نہ ہو بلکہ محض سراب کی مانند نظر آ رہی ہو‘ اسے باطل کہا جائے گا. (۲)اسی طرح ہر وہ شے حق ہے جو عقلاً مسلّم ہو (۳) جو اخلاقاً واجب ہو‘ اور (۴) اسی طرح وہ شے بھی حق کہلائے گی جس میں کوئی مقصدیت پائی جائے.

یہاں قرآن مجید نے لفظ ’’حق‘‘ استعمال کر کے تواصی بالحق کے مفہوم کو انتہائی وسعت دی ہے. چھوٹی سے چھوٹی حقیقت کے اعتراف و اعلان اور اُس کی تلقین اور تبلیغ سے لے کر اس کائنات کے بڑے سے بڑے حقائق کا ادراک و اعتراف اور ان کی تلقین و تبلیغ‘ یہ سب چیزیں تواصی بالحق میں شامل ہوں گی. گویا اگر کوئی شخص کسی دوسرے کی کچھ رقم جو اُس کے ذمے قرض تھی‘ ادا نہ کر رہا ہو اور آپ جا کر اس سے کہیں کہ بھلے آدمی! فلاں کی رقم واپس کر دو تو یہ بھی تواصی بالحق میں شامل ہو گا. اسی طرح اگر آپ نے کسی ایسے بچے کو جو اپنے والدین کے حقوق ادا نہیں کر رہا‘ یہ تلقین کی کہ اپنے والدین کا ادب کیا کرو‘ ان کا کہنا مانا کرو تو یہ بھی تواصی بالحق ہی کی ایک شکل ہے. اسی طور پر اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت کا اعلان و اعتراف کہ اللہ ہی خالق اور مالک ہے‘ اُس کا حق ہے کہ اُسی کی اطاعت کی جائے‘ اُس کا حق ہے کہ اُسی کا قانون نافذ ہو‘ تواصی بالحق کی بلند ترین منزل ہے.