مَنْ رَأَیٰ مِنْکُمْ مُنْکَرًا فَلْیُغَیِّرْہُ بِیَدِہٖ ‘ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِہٖ ‘ فَاِنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِہٖ ‘ وَذٰلِکَ اَضْعَفُ الْاِیْمَانِ (۱) ’’تم میں سے جو کوئی کسی برائی کو دیکھے تو اس کا فرض ہے کہ اسے بزورِ بازو (نیکی سے) بدل دے ‘پھر اگر اس کی قو ّت نہ رکھتا ہو تو زبان سے ضرور منع کرے ‘اور اگر اس کی بھی طاقت نہ رکھتا ہو تو کم از کم دل سے ضرور مدافعت کرے( یعنی دل میں ضرور بُرا جانے اور اس کو نہ روک سکنے (۱) صحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب بیان کون النھی عن المنکر من الایمان… پر متأسف ہو) اور یہ ایمان کا کمزورترین درجہ ہے.‘‘
پھر تواصی بالحق انسان کی شرافت کا بھی لازمی تقاضا ہے . اس لیے کہ جو حق کسی انسان پر منکشف ہوا ہے اور جسے خود اس نے اختیار کیا ہے اس کی انسان دوستی کا لازمی تقاضا ہے کہ اسے دوسروں کے سامنے بھی پیش کرے تاکہ زیادہ سے زیادہ انسان اس سے نفع اندوز ہوں اور اس کی برکتوں سے متمتع ہو سکیں. اسی لیے آنحضورﷺ نے فرمایا کہ : لَا یُؤْمِنُ اَحَدُکُمْ حَتّٰی یُحِبَّ لِاَخِیْہِ مَا یُحِبُّ لِنَفْسِہٖ (۱) یعنی تم میں سے کوئی شخص مؤمن نہیں قرار پا سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہی کچھ پسند نہ کرے جو اپنے لیے کرتا ہے.
اور آخری درجہ میں یہ انسان کی غیرت اور حمیت کا تقاضا بھی ہے کہ جس حق کو اُس نے خود قبول کیا ہے اس کا پرچار کرے‘ اس کا مبلّغ اور علَم بردار بنے اور اس کا بول بالا کرنے کے لیے تن من دھن سے جدوجہد کرے.
سیدھی سی بات ہے کہ اگر انسان ایک خاص طرز کو اختیار کرتا ہے اور ماحول کسی اور رنگ میں رنگا ہوا ہے تو فطری طو رپر دو ہی صورتیں ممکن ہیں. ایک یہ کہ ؏ ’’زمانہ باتو نہ سازد تو بازمانہ بساز‘‘ کے مطابق خود بھی ماحول ہی کے رنگ میں رنگا جائے تاکہ دوئی ختم ہو جائے اور تصادم باقی نہ رہے ‘اور دوسرے یہ کہ ؏ ’’زمانہ باتو نہ سازد تو بازمانہ ستیز!‘‘کی روش اختیار کر کے اور ماحول سے ٹکر لے کر اسے اپنے رنگ میں رنگنے کی کوشش کرے. اب ظاہر ہے کہ ایک شریف‘ باوقار‘ غیور اور باحمیت انسان تو صرف ایک ہی راہ اختیار کر سکتا ہے ‘اور وہ دوسری ہے نہ کہ پہلی. وہ اس کو تو گوارا کر لے گا کہ؏ ’’بازی اگرچہ پا نہ سکا سر تو کھو سکا!‘‘ کے مصداق اپنی جان دے دے‘ لیکن اسے ہرگز گوارا نہیں کر سکتا کہ تن آسانی اور عافیت کوشی کی راہ پر چل کر حق سے غداری کا مرتکب ہو جائے.
الغرض جس اعتبار سے بھی دیکھا جائے تو نظر یہی آتا ہے کہ ایمان‘ عمل صالح‘ تواصی بالحق اور تواصی بالصبر ایک جانب تو نجات کے ناگزیر لوازم ہیں اور دوسری جانب خود باہم لازم و ملزوم ہیں‘ بلکہ ان چاروں پر علیحدہ علیحدہ قدرے گہرائی میں اتر کر غور کرنے سے جو حقیقت منکشف ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ یہ چاروں ایک ہی وحدت کے ناقابل تقسیم پہلو ہیں اور ایک ہی کل کے اجزائے غیر (۱) صحیح البخاری‘ کتاب الایمان‘ باب من الایمان ان یحب لاخیہ ما یحب لنفسہ. وصحیح مسلم‘ کتاب الایمان‘ باب الدلیل علی ان من خصال الایمان ان یحب لاخیہ المسلم ما یحب لنفسہ من الخیر. منفک ہیں. گویا ایمان‘ عمل صالح‘ تواصی بالحق اور تواصی بالصبر ‘بقول اقبال مرحوم ؏ ’’یہ سب کیا ہیں فقط اک نکتۂ ایماں کی تفسیریں‘‘.ایمان اگر حقیقی ہو جائے تو اس سے عمل صالح ضرور پیدا ہو گا. اور عمل صالح اگر پختہ ہو جائے تو لازماً تواصی بالحق پر منتج ہو گا. اور تواصی بالحق اگر واقعی اور حقیقی ہے تو تواصی بالصبر کا مرحلہ لازماً آ کر رہے گا.یہاں تک کہ اس کی عکسی صورت (converse proposition) بھی بالکل درست ہے. یعنی یہ کہ تواصی بالصبر کا مرحلہ نہیں پیش آیا تو یہ قطعی ثبوت ہے اس کا کہ دعوت پورے حق کی نہیں ہے ‘بلکہ اس کے صرف کسی بے ضرر سے جزو کی ہے‘ اور اگر دعوت کا مرحلہ نہیں آتا تو یہ حتمی ثبوت ہے اس کا کہ انسان کا اپنا عمل صحیح اور پختہ نہیں ہے ‘اور اگر عمل درست نہیں ہو رہا تو یہ یقینی ثبوت ہے اس کا کہ ایمانِ حقیقی ہی موجود نہیں.
گویا سورۃ العصر نجات کی جس شاہراہ کی طرف راہنمائی فرماتی ہے اور انسانی کامیابی کے لیے جس صراطِ مستقیم کی نشان دہی کرتی ہے اس کے چار سنگ ہائے میل ہیں. پہلا ایمان‘ دوسرا عمل صالح‘ تیسرا تواصی بالحق اور چوتھا تواصی بالصبر.