اب سب سے پہلے تو اس موضوع کی اہمیت پر غور کر لینا چاہیے!دیکھئے‘جس طرح ہمارامادّی وجود ہے‘ اس کے لیے کچھ چیزیں بنیادی لوازم کی حیثیت رکھتی ہیں‘جن کے بغیر ہماری زندگی کا تسلسل برقرار نہیں رہ سکتا.مثلاً ہوا ‘پانی اورغذا کے بغیر زندگی کا کوئی تصور نہیں.بالکل اسی طرح انسان کی ایک معنوی زندگی ہے جس کے لیے اس کی انا یا خودی کا زندہ اور برقرار رہنا ضروری ہے‘اور اس کے لیے یہ چیز لازمی ہے کہ ہر انسان نیکی کے کسی نہ کسی تصور کو اختیار کرے اور اس کے ذریعے اپنے ضمیر کو مطمئن کرے‘خواہ وہ زندگی کے دوسرے پہلوؤں کے اعتبار سے کتنا ہی بُرا انسان ہو.گویا یہ انسان کی ناگزیر مجبوری ہے کہ وہ نیکی کا کوئی نہ کوئی کھاتہ اپنی زندگی میں کھولے اور اپنے ضمیر کو مطمئن کرے کہ اگرچہ میرے اندر یہ اور یہ برائی ہے تاہم میں فلاں فلاں نیکی کے کام بھی تو کرتا ہوں.مزید برآں وہ اپنی برائیوں کو justify اور rationalize بھی کرتا ہے کہ میں جس برائی میں مبتلا ہوں اس کے لیے میری یہ مجبوری ہے اوروہ مجبوری ہے ‘اور اس طرح وہ اپنے ضمیر کی خلش کو مٹاتا اور اپنے ضمیر کو مطمئن کرتا ہے.چنانچہ ہمارے معاشرے کے جو طبقات اخلاقی اعتبار سے سب سے زیادہ گرے ہوئے شمار ہوتے ہیں ان کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ نیکی کا کوئی نہ کوئی تصور اُن کے ہاں بھی موجود ہے.چنانچہ ڈاکوؤں‘رسہ گیروں‘جیب کتروں‘حتیٰ کہ جسم فروشی کرنے والی فاحشہ عورتوں کے یہاں بھی ثواب اور پُن کے باقاعدہ کھاتے کھلے ہوتے ہیں.

یہ تو مَیں نے اُن طبقات کی بات کی ہے جن کے بارے میں کسی کی رائے بھی اچھی نہیں ہے.اس سے ذرا آگے آئیے!تین طبقات آپ کو شرفاء میں ملیں گے کہ جن کے نیکی کے تصورات ایک دوسرے سے مختلف ہیں.مثلاً ہمارے ہاں ایک طبقہ کچھ کاروباری حضرات اور تاجر پیشہ لوگوں پر مشتمل ہے.یہ لوگ دیندار ہیں. نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ‘حج و عمرہ‘مدارسِ دینی کی خدمت‘علماء کی خدمت وغیرہ امور میں یہ لوگ پیش پیش ہیں. لیکن‘ اِلّا ماشاء اللہ‘ اس طبقے کی ایسی باتیں بھی سامنے آئیں گی کہ ٹیکس بچانے کے لیے غلط حساب کتاب بھی ہو رہا ہے‘بلیک مارکیٹنگ اور اسمگلنگ بھی ہو رہی ہے‘ذخیرہ اندوزی بھی ہے ‘ ملاوٹ بھی ہے اورسودی معاملات میں بھی ملوث ہیں.اسی طریقے سے کبھی محسوس ہوگا کہ اگرچہ ویسے تو نمازی ہیں‘حاجی ہیں‘نیک بھی ہیں‘لیکن ساتھ ہی بڑے کٹھوردل بھی ہیں‘دل میں نرمی والی کیفیت موجود نہیں. گویا ایک ملغوبہ ہے کہ ایک طرف بھلائی ہے‘نیکی ہے‘خیر ہے‘اور اس کے ساتھ بعض چیزیں وہ ہیں جو اخلاقی اور دینی اعتبار سے حددرجہ نامناسب ہیں.ایک دوسرا طبقہ جدید تعلیم یافتہ لوگوں کا ملے گا.وہاں یہ بات آپ کے سننے میں آئے گی کہ اصل نیکی تو یہ ہے کہ انسان اپنے فرائضِ منصبی صحیح طورپر ادا کرے.باقی رہا نماز‘روزہ وغیرہ کا معاملہ تو یہ اس کا نجی اور ذاتی معاملہ ہے.اگر کوئی کرتا ہے تو اپنے لیے کرتا ہے‘ اگر نہیں کرتا تو بہرحال یہ بھی اس کا ذاتی معاملہ ہے. معلوم ہوا کہ یہ تصورِ نیکی بالکل برعکس ہے اس تصورِنیکی سے جس کا پہلے بیان ہوا.

ایک اور عدم توازن اس صورت میں نظر آجائے گا کہ اکثر لوگوں کی دین کے ظاہری اور رسمی پہلوؤں پر تو بڑی کڑی نگاہ ہے‘اس کے بارے میں حساس بھی بہت ہیں‘ذرا سی کمی بیشی کو بھی گوارا کرنے کو تیار نہیں‘لیکن جو روحِ دین ہے‘اصل تقویٰ ہے‘اصل خدا ترسی ہے‘اس پر بالکل کوئی توجہ نہیں.نیکی کے یہ مختلف تصورات آپ کو خود اپنے معاشرے میں ملیں گے.

میں نے جس آخری بات کا ذکر کیا ہے اسی کے حوالے سے یہ آیۂ مبارکہ شروع ہوتی ہے.نماز کا ایک ظاہر ہے‘اس میں آپ قبلہ رُو کھڑے ہوتے ہیں.یہ اس کے ظاہر کا ایک جزو ہے اور اس کی اہمیت اپنی جگہ مسلّم ہے.لیکن جب کچھ لوگوں میں ظواہرہی کی اہمیت رہ جاتی ہے اور جو اصل روح ِ
نمازہے اس پر سے توجہ کم ہو جاتی ہے تو پھروہ غیر متوازن کیفیت ظہور میں آتی ہے جو اصلاًمطلوب نہیں.اسی کو علامہ اقبال نے کہا : ؎ 

شوق ترا اگر نہ ہو میری نماز کاامام
میرا سجود بھی حجاب ‘ میرا قیام بھی حجاب!

اور : ؎ 
عقل و دل و نگاہ کا مرشدِ اوّلیں ہے عشق
عشق نہ ہو تو شرع و دیں بتکدۂ تصورات!

اس تصورِ نیکی کی نفی سے بات شروع ہوئی اور اس نفی کے بعد اثبات آیا ہے کہ اصل نیکی کیا ہے اور نیکی حقیقتاً کسے کہتے ہیں!
جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے‘اس آیۂ مبارکہ میں نیکی کے ایک سطحی اور محدود تصور کی نفی سے بات شروع ہوئی اور پھر نیکی کا جامع اور ہمہ گیر تصور بیان فرمایا گیا.گویا اس آیت کا اسلوب وہی ہے جو ہمارے کلمۂ طیبہ کے پہلے جزو کا ہے.یعنی کلام کا آغاز نفی سے ہوتا ہے جو اثبات کی طرف رہنمائی کرتی ہے‘جیسے 
لاالٰہ کی نفی سے بات شروع ہوئی اور اِلّا اللّٰہ کے اثبات پر ختم ہوئی.بعینہٖ یہی معاملہ اس آیۂ مبارکہ کا ہے کہ ’’لَیۡسَ الۡبِرَّ‘‘ سے نفی کا آغاز ہوا اور پھر ’’وَ لٰکِنَّ الۡبِرَّ ‘‘ سے ’’ہُمُ الۡمُتَّقُوۡنَ ‘‘ تک مثبت انداز میں نیکی اور تقویٰ کا معیار بیان فرمادیا گیا. 

’’بِرّ‘‘ کے لفظی معنی

اب لفظ ’’بِرّ‘‘ پر غور کیجیے جس کے معنی کو ہم نے نیکی کے لفظ سے تعبیر کیا ہے‘لیکن اس لفظ کی اصل روح کیا ہے‘اور نیکی سے اس کی مناسبت کیا ہے‘اِن امور پر گہرے غوروفکر کی ضرورت ہے.اس کے حروفِ اصلیہ ہیں: ’’ب . ر. ر‘‘.اسی مادے سے لفظ ’’بِرّ‘‘ بنا ہے اور اسی سے ایک دوسرا لفظ ’’بَر‘‘ بنا ہے.چنانچہ’’بحروبر‘‘اردو میں عام طور پر مستعمل ہے اور تمام اردودان جانتے ہیں کہ بَر کے معنی خشکی کے ہیں. لفظ ’’بِر‘‘ اور ’’بَر‘‘ میں جو قدرِ مشترک ہے پہلے اس کو سمجھ لیجیے.انسان جب سمندر میں ہوتا ہے تو ہچکولے لگتے ہیں‘سمندری طوفان کا اندیشہ رہتا ہے اور انسان کو ایک تشویش لاحق رہتی ہے. اسے وہ اطمینان و سکون حاصل نہیں ہوتا جو خشکی پر ہوتا ہے‘لیکن انسان جب ساحل پر اترتا ہے اور جیسے ہی اس کے پاؤں بَر(خشکی) پر لگتے ہیں اطمینان و سکون کی ایک کیفیت اسے فی الفور حاصل ہو جاتی ہے.یہی اطمینان و سکون اس لفظ کی اصل روح اور جان ہے.میں یہ عرض کر چکا ہوں کہ انسان کے وہ اعمال جو اسے قلبی سکون عطا کرتے ہیں‘جو ضمیر کی خلش کو مٹاتے ہیں‘جو تسکینِ باطنی کا موجب ہوتے ہیں‘انہی کو ہم نیکی کے عنوان سے منسوب کرتے ہیں.انگریزی کی ایک نظم میں جس کا عنوان ’’Charity‘‘ ہے‘یہ تصور اور تخیّل بڑی عمدگی سے بیان ہوا ہے : 

.Charities that soothe and heal and bless 
.Are scattered over the feet of men like flowers
.No mystery is here no special boon
.For the high and not for the low
.The smoke ascends as high from the hearth of a humble cottage
.As from that of a haughty palace
 

’’وہ تمام نیکیاں اور بھلائیاں جو سکون بخشتی ہیں اور زخموں کو مندمل کرتی ہیں اور رحمت کا باعث بنتی ہیں‘انسان کے قدموں پر پھولوں کی طرح بکھری ہوئی ہیں. اس معاملے میں نہ کوئی راز کی بات ہے اور نہ ہی کسی پر خصوصی نوازش و کرم‘بلکہ ان کا معاملہ بالکل اس دھوئیں کی مانند ہے جو کسی غریب کی کٹیا کے چولہے سے بھی اسی طرح بلند ہوتا ہے جیسے کسی مغرور انسان کے محل کے آتشدان سے!‘‘

گویا نیکی میں‘خیر میں‘ بھلائی میں‘خدمتِ خلق میں ایک عجیب تسکین بخش کیفیت ہوتی ہے‘بالکل ایسی جیسے کہ کسی زخم پر مرہم کا پھایا رکھ دیا جائے.چنانچہ یہی قدرِ مشترک ہے 
’’بِرّ‘‘ اور ’’بَرّ‘‘ کے مابین!