ایمان بالرّسالۃ اور اسوۂ حسنہ

بقیہ جو تین ایمانیات اس آیت میں مذکور ہیں ‘یعنی ملائکہ پر ایمان‘کتابوں پر ایمان اور نبیوں پر ایمان‘تو اگر ان تینوں کو بریکٹ کر لیا جائے تو ان کا حاصل ہو گا’’ایمان بالرسالۃ‘‘.اس لیے کہ ملائکہ ذریعہ بنتے ہیں وحی لانے کا نبیوں اور رسولوں تک‘ اس وحی کا ریکارڈ ہے کتابوں کی شکل میں ‘اور جن پر وحی نازل ہوئی وہ انبیاء و رُسل ہیں.لہذا تینوں کو جمع کیجیے تو یہ ایمان بالرّسالۃ ہے.ایمان بالرسالۃ کا تعلق نیکی کی اس بحث کے ساتھ کیا ہے!اس کو بھی سمجھ لینا چاہیے.انسان کے اندر جس طرح دوسرے جذبات و داعیات ہوتے ہیں اسی طرح نیکی بھی ایک جذبہ ہے‘ اور جذبات و داعیات کے بارے میں ہمیں معلوم ہے کہ وہ اندھے ہوتے ہیں اور ان میں حدود سے تجاوز کا رجحان و میلان بالطبع پایا جاتا ہے.چنانچہ نیکی کے جذبہ کے ضمن میں بھی اس کا خطرہ موجود ہے کہ کسی وقت یہ ضرورت سے زیادہ مشتعل ہو کر حدِّ اعتدال سے تجاوز کر جائے اور نتیجتاً نیکی سے بدی ظہور میں آجائے. مثلاًایک شخص پر نیکی کا اتنا غلبہ ہوا کہ اس نے دنیا کو چھوڑ دیا اور پہاڑوں کی کھوؤں اور غاروں میں جا کر دھونی رمائی کہ بس ربّ سے لو لگانی ہے.رہبانیت کا نظام اسی نیکی کے جذبہ کے حدِّ اعتدال سے تجاوز کی وجہ سے وجود میں آیا.لیکن ظاہر بات ہے کہ یہ رویّہ فطرت کے خلاف بغاوت ہے.فطرتِ انسانی میں جو داعیات ہیں یہ اُن سے دھینگا مشتی ہے.چنانچہ طبعِ بشری اور فطرتِ انسانی بسا اوقات انسان کو پچھاڑ دیتی ہے.

نتیجتاًاس کا ایک ردِّ عمل ظاہر ہوتا ہے.عیسائی راہب خانوں میں اسی ردِّعمل کے نتیجے میں جو کچھ ہو تا رہا ہے وہ کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں‘حالانکہ رہبانیت دراصل نیکی کے جذبہ کے حدِّ اعتدال سے تجاوز کے نتیجہ میں وجود میں آئی تھی. رہبانیت کی نفی ایک حدیث میں بڑی وضاحت سے بیان ہوئی ہے.صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی روایت ہے کہ نبی اکرم  کی حیاتِ طیبہ ہی کے دوران صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے تین اشخاص ازواج ِ مطہرات رضی اللہ عنھن کی خدمت میں حاضر ہوئے.انہوں نے نبی اکرم  کی نفلی عبادات کے بارے میں معلوم کیا کہ رات کو آپؐ کتنی نفلی نماز پڑھتے ہیں؟مہینہ میں کتنے نفلی روزے رکھتے ہیں؟رسول اللہ کی حیاتِ طیبہ ایک کھلی کتاب کی مانند تھی‘اس میں تصنّع کا کوئی شائبہ نہیں تھا.ازواج ِ مطہراتؓ نے کسی بات میں مبالغہ نہیں کیا‘جو صحیح صحیح بات تھی وہ بتا دی.ان صحابہؓ نے اپنے آپ کو یہ کہہ کر مطمئن کر لیا کہ حضور تو معصوم ہیں‘ آپؐ سے تو کسی خطا کا صدور ممکن ہی نہیں‘ آپ کو تو اتنی نفلی عبادات کی بھی ضرورت نہیں جتنی آپ کر رہے ہیں‘یہ بھی آپ کے لیے بہت ہے‘لیکن ہمارے لیے یہ کافی نہیں ہے.چنانچہ ایک نے کہا کہ میں تو پوری رات نفلی نمازوں میں گذاروں گا‘کبھی ناغہ نہیں کروں گا.دوسرے نے کہا کہ میں ہمیشہ روزہ رکھا کروں گا‘کبھی ناغہ نہیں کروں گا.تیسرے نے کہا میں شادی اور گھر گر ہستی کا کھکھیڑ مول نہیں لوں گا‘اس سے تو اللہ سے لو لگانے اور تعلق استوار کرنے میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں‘میں تو ساری عمر تجر ّدکی زندگی بسر کروں گا.نبی اکرم  کو اس کی خبر پہنچی تو آپ اپنی عادتِ شریفہ اور خُلق کریم کے خلاف ناراض ہوئے.آپ نے اُن تینوں کو بلا بھیجا اور فرمایا کہ’’میں تم میں سے ہر ایک سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والا ہوں‘ لیکن میں رات کو سوتا بھی ہوں اور نفلی نماز بھی ادا کرتا ہوں.میں نفلی روزے رکھتا بھی ہوں اور ناغہ بھی کرتا ہوں.میں نے شادیاں بھی کی ہیں اور میرے حبالۂ عقد میں متعددازواج ہیں‘‘.پھر آپ نے فرمایا: فَمَنْ رَّغِبَ عَنْ سُنَّتِیْ فَلَیْسَ مِنِّیْ (۱’’(کان کھول کر سن لو!کسی کا عمل چاہے کتنے ہی نیکی کے جذبے کے تحت ہو‘لیکن)جس کسی نے میری سنت اور میرے طریقے کو چھوڑ دیا(اور اس کے برعکس روش اختیار کی تو جان رکھو)اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں‘‘.پس اس طرح ہمارے لیے نیکی کے معیارِ کامل ہیں جناب محمدٌ رسول اللہ .

ہمارے لیے ضروری ہے کہ نیکی کی بحث میں ایک اسوۂ حسنہ‘ایک کامل نمونہ‘ایک آئیڈیل اور ایک 
frame of reference ہمارے سامنے رہے جس میں نیکی کے تمام اعمال ایک توازن اور (۱) صحیح البخاری‘ کتاب النکاح‘ باب الترغیب فی النکاح. وصحیح مسلم‘ کتاب النکاح‘ باب استحباب النکاح لمن تاقت نفسہ الیہ ووجد مؤنہ. اعتدال میں سموئے ہوئے مل جائیں.اسی کو ہم کسوٹی سمجھیں‘ہر عمل کے بارے میں اس کی طرف رجوع کریں کہ یہ عمل اس معیارِکامل میں کتنا ہے اور دوسرے اعمال کے ساتھ اس کا تناسب کیا ہے!یہ ہے وہ ضرورت جو’’ایمان بالرسالت‘‘سے پوری ہوتی ہے.یہ اسوۂ حسنہ و کاملہ وہ ہے جو ہمیں انبیاء و رُسل ؑ کی زندگیوں میں ملتا ہے اور اس مقدس جماعت میں کامل ترین اور افضل ترین ہیں جنابِ محمد .ایک اسوۂ حسنہ و کاملہ یعنی تمام نیکیاں‘تمام بھلائیاں‘تمام خیرات و حسنات اگر ایک شخصِ واحد میں معتدل‘متوازن اور جامعیت کے ساتھ دیکھنی ہوں تو وہ نمونہ اور کسوٹی ہیں حضرت محمدٌ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم.

الغرض فلسفۂ اخلاق کے ساتھ ایمان کے ان تینوں اجزاء کا بڑا گہرا تعلق ہے.نیکی کی جڑ اور بنیاد کے ساتھ ایمان کا جو لازم و ملزوم کا رشتہ ہے اس کے ناگزیر بیان کے لیے یہاں ایمان کا ذکر آیا ہے.اسے یہاں محدود مذہبی معنی اور تصور کے ساتھ محض بر سبیل تذکرہ یا بطورِ تبرک نہ سمجھ لیجیے گا.

آیۂ بِر کے پہلے حصے کے حوالے سے حقیقتِ بِر کے متعلق بعض مسائل پر اجمالاً گفتگو کے بعد اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ نیکی کی روحِ باطنی یعنی ایمان کا ظہور انسان کے عملی رویے اور اس کی سیرت و کردار میں جس صورت میں ہوتا ہے اس کو قرآن حکیم کس پیرائے میں اور کس ترتیب سے بیان کر رہا ہے.لیکن اس کے لیے مناسب ہو گا کہ ہم پھرسے اس آیۂ مبارکہ کے رواں ترجمہ پر نظر ڈالیں.آیۂ مبارکہ کا سلیس ترجمہ یہ ہے:

’’نیکی صرف یہی نہیں کہ تم اپنے چہرے مشرق اور مغرب کی طرف پھیر دو‘بلکہ اصل نیکی اس کی ہے جو ایمان لایا اللہ پر‘اور یومِ آخرت پر‘اور فرشتوں پر‘اور کتابوں پر‘اور انبیاء پر.اور دیا اس نے مال اس کی محبت کے باوجودرشتے داروں کو‘یتیموں کو‘ محتاجوں کو‘ مسافر کو‘ مانگنے والوں کو اور گلو خلاصی میں.اور قائم کی اس نے نماز اور ادا کی زکوٰۃ.اور عہد کے پورا کرنے والے جب باہم کوئی معاہدہ کر لیں.اور بالخصوص صبر کرنے والے فقر و فاقہ پر‘اور تکالیف و مصائب میں اور جنگ کے میدان میں.یہی ہیں وہ لوگ کہ جو حقیقتاً سچے اور راست باز ہیں ‘اور یہی ہیں وہ لوگ جو واقعتا متقی ہیں.‘‘

اس آیۂ مبارکہ میں ایمان یا جن ایمانیاتِ خمسہ کا بیان ہوا ہے‘ان کا نیکی کی بحث کے ساتھ جو تعلق ہے اس پر کسی قدر غوروفکر ہم مکمل کر چکے ہیں.اب آئیے ہم دیکھیں کہ نیکی کی یہ روحِ باطنی 
جب کسی انسان میں سرایت کر جائے یا جب ایمانِ حقیقی انسان کے قلب میں جاگزیں ہو جائے تو اس آیۂ مبارکہ کی رُو سے اس کے نتیجے میں اس انسان کی شخصیت‘اس کی سیرت و کردار‘اس کے معاملات‘اس کے اعمال اور اس کے رویے میں کن کیفیات کا ظہور ہوتا ہے جن کو ازروئے قرآنِ حکیم نیکی کے عملی مظاہر قرار دیا جا سکتا ہے!