اب دیکھئے کہ ان الفاظِ مبارکہ ذَوِی الۡقُرۡبٰی وَ الۡیَتٰمٰی وَ الۡمَسٰکِیۡنَ وَ ابۡنَ السَّبِیۡلِ ۙ وَ السَّآئِلِیۡنَ وَ فِی الرِّقَابِ ۚ میں ایک ترتیب بھی ہے اور وہ بڑی فطری ترتیب ہے.آپ کے قرابت دار یعنی آپ کے قریبی عزیزوں میں سے جو مشکل اور تکلیف میں ہوں سب سے پہلے آپ کے حسن سلوک کے مستحق وہ ہیں‘پھر وہ یتیم جو آپ کے قریب کے معاشرے میں بے سہارا ہیں‘پھر مسکین.مسکنت کہتے ہیں کم ہمتی کو.مسکین وہ ہیں جن کی ہمت جواب دے گئی ہو‘جو اپنے پاؤں پر کھڑے نہیں ہو پا رہے ہوں‘خود کفیل نہ ہوں.پھر وہ شخص جو حالتِ سفر میں ہے.ہو سکتا ہے کہ وہ کسی وجہ سے سفر میں محتاج ہو جائے.پھر وہ شخص جو دستِ سوال دراز کر رہا ہے.آپ کو کیا معلوم کہ کون سی احتیاج اسے لاحق ہوئی ہے جس کے باعث وہ اپنی خودی اور عزتِ نفس کو ہتھیلی پر رکھ کر آپ کے سامنے (۱) صحیح مسلم‘ کتاب البر والصلۃ والآداب‘ باب فضل عیادۃ المریض. پیش کر رہا ہے!پھر وہ جس کی گردن کہیں کسی مخمصے میں پھنس گئی ہو.پچھلے زمانے میں یہ غلامی کا معاملہ تھا اور آج اس کے مصداق ہوں گے وہ لوگ جو قرض کے پھندے میں اس طرح پھنس جائیں کہ کتنے ہی ہاتھ پاؤں ماررہے ہوں لیکن اس سے نکل نہ پا رہے ہوں.تو یہ ترتیب بھی بڑی حکمت پر مبنی ہے.یہ خیال رہے کہ یہاں صدقاتِ نافلہ کا ذکر ہے.صدقۂ واجبہ زکوٰۃ ہے جس کا حکم آگے آرہا ہے‘اس کی مدّات سورۃ التوبۃ میں بیان ہوئی ہیں.حضرت فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہاروایت کرتی ہیں کہ نبی اکرم سے زکوٰۃ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ نے فرمایا: اِنَّ فِی الْمَالِ حَقًّا سِوَی الزَّکٰوۃِ (۱کہ لوگو!یہ مغالطہ نہ ہوکہ مال میں صرف زکوٰۃ کی ادائیگی ہے.یہ تو فرض ہے‘اس کے علاوہ بھی تمہارے‘مال میں(حاجت مندوں کا) حق ہے.پھر آپ نے اس کی توثیق کے لیے یہی آیۂ مبارکہ پڑھی.

ایک مزید بات یہ بھی پیش نظر رہنی چاہیے کہ انفاقِ مال کی جن مدّات کا آیۂ مبارکہ کے اس حصے میں ذکر ہوا ہے‘اس سے اصل مقصود انسانی ہمدردی اور ابنائے نوع کی خدمت کا جذبہ پیدا کرنا ہے.اب سوال ہے مقدار اور مواقع کا‘پھر اِن میں اوّلیت اور ثانویت کا.ظاہر ہے کہ جس کی جتنی مقدرت ہے وہ اتنا ہی خرچ کر سکتا ہے.اس میں اوّلیت رشتہ داروں کو دی جائے گی.اقرباء کی ضرورت پوری کرنے کے بعد اگر کوئی مزید خرچ کرنے کی مقدرت رکھتا ہے تو وہ جتنا بھی اس دائرے میں آگے بڑھے گا اتنا ہی وہ اپنے لیے نیکی کا مزید ذخیرہ جمع کرتا چلا جائے گا.