اب آگے چلیے!فرمایا : وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ ۚ ’’اور نماز قائم کرے اور زکوٰۃ ادا کرے‘‘.صلوٰۃ کیا ہے‘ زکوٰۃ کیا ہے‘ان کے لغوی معنی کیا ہیں‘ ہمارے دین میں اِن کا مقام کیا ہے‘اس پر اس وقت گفتگو نہیں ہو گی.یہ موضوعات اس سلسلۂ مضامین میں موزوں وقت پر زیرِ گفتگو آئیں گے‘البتہ یہاں اس بات کو نوٹ کیجیے کہ درحقیقت ان دونوں کا نیکی کی اس بحث سے گہرا ربط و تعلق ہے.اب تک دو باتیں سامنے آئی ہیں‘ایک نیکی کی روح ِ باطنی اور وہ ہے ایمان.ایک اسی روح ِ باطنی کا مظہرِاوّل اور وہ ہے خدمتِ خلق‘ابنائے نوع کی تکالیف کو دُور کرنے میں اپنا مال صرف کرنا.اب دیکھیں کہ صلوٰۃ و زکوٰۃ کا ذکر لازم و ملزوم کے تعلق کے طور پر آیا ہے.نیکی کی روح ِ باطنی (۱) سنن الترمذی‘ ابواب الزکاۃ‘ باب ما جاء انّ فی المال حقا سوی الزکاۃ. یعنی ایمان کی آبیاری اور اسے تروتازہ رکھنے والی چیز نماز ہے.اللہ سے تعلق قائم و دائم رہے‘اس کی یاد مستحضر رہے‘آخرت کی فکر دل میں موجود رہے‘ ان امور کی تذکیر اور یاددہانی کے لیے اوّلین‘ اہم ترین اور مقدم ترین شے نماز ہے. گویا ایک ستون ہے جو ایمان کو تروتازہ رکھنے کے لیے گاڑ دیا گیا ہے.

زکوٰۃ کا معاملہ یہ ہے کہ وہ انفاقِ مال کے لیے دل سے مال کاشُح اور طمع دُور کرتی ہے اور بنی نوعِ انسان کی ہمدردی کے ضمن میں جن مدّات کا ذکر پہلے آچکا ہے ان کے لیے دل کو کشادہ کرتی ہے.گویا زکوٰۃ وہ چیز ہے جو صدقاتِ نافلہ کے لیے starter کا کام انجام دیتی ہے.زکوٰۃ وہ چیز ہے جو فرض کر دی گئی ہے.اسے تو نصاب کے مطابق ہر سال ہر حال میں ادا کرنا ہے‘لا محالہ دینا ہے.دینا نہ چاہو گے تو خالص اسلامی ریاست میں زبردستی لے لی جائے گی.زکوٰۃ کی فرضیت کی صورت میں آپ کے سامنے فزکس کا ’’static friction‘‘ کا اصول آئے گا.یعنی اگر کوئی چیز کھڑی ہو تو اس کو حرکت میں لانے کے لیے بہت قوت استعمال کرنی پڑتی ہے‘چل پڑے تو اب ذرا سی قوت بھی اس کی حرکت کو برقرار رکھ سکے گی.لہذا انفاق کی راہ پر چلانے کے لیے ابتدائی محرک زکوٰۃ سے فراہم ہوتا ہے.دل پر مال کی محبت کی جو مہر لگی ہوئی ہے اسے توڑنے والی چیز زکوٰۃ ہے.اب جبکہ ایک کام کا آغاز ہو گیا تو پھرصدقاتِ نافلہ کے لیے بھی بند مٹھی کھل جائے گی.صدقاتِ نافلہ کی کوئی حد نہیں ہے.اس کے بارے میں قرآن مجید میں وہ آیت بھی آتی ہے کہ: وَ یَسۡـَٔلُوۡنَکَ مَا ذَا یُنۡفِقُوۡنَ ۬ؕ (البقرۃ:۲۱۹’’اور(اے نبیؐ !)یہ لوگ آپؐ سے پوچھتے ہیں کہ کتنا خرچ کریں‘‘. یعنی اس پر جو اتنا زور دیا جا رہا ہے تو اس کی آخری حد کیا ہے؟فرمایا: قُلِ الۡعَفۡوَؕ ’’(اے نبیؐ !)کہہ دیجیے کہ جو بھی تمہاری ضرورت سے زائد و فاضل ہے (اس کو دے ڈالو)‘‘.اس موقع پر یہ بات واضح طور پر سامنے رہنی چاہیے کہ یہ اخلاقی سطح پر ترغیب و تشویق ہے‘قانونی معاملہ نہیں ہے.قانون اور عبادت کے طور پر زکوٰۃ فرض ہے.