اب آخری بات فرمائی گئی : وَ الصّٰبِرِیۡنَ فِی الۡبَاۡسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیۡنَ الۡبَاۡسِ ؕ . یہاں ’’الصَّابِرُوْنَ‘‘ نہیں کہا ‘بلکہ ’’الصّٰبِرِیۡنَ ‘‘ فرمایا جس کا تعلق نحوی اسباب سے ہے‘جس کی تفصیل کا موقع نہیں ہے.اسی اسلوب کے تحت میں نے ترجمہ میں ایک لفظ کا اضافہ کیا تھا‘وہ تھا ’’خصوصاً‘‘.گویا مفہوم ہوا:’’خاص طور پر ذکر ہے صبر کرنے والوں کا‘‘.یہ صبر کس کس کام میں مطلوب ہے‘اس کا بیان آگے آ گیا کہ فقروفاقہ‘ تنگی اور جسمانی یا ذہنی اذیت اور کوفت کے مواقع پر‘پھرنقدجان ہتھیلی پر رکھ کر میدانِ جنگ میں آجانے کے مرحلے پر.اس بات سے ایک چیز آپ کے سامنے واضح ہو جانی چاہیے‘وہ یہ کہ بڑا بنیادی فرق ہے ایک راہبانہ تصورِ نیکی میں اور قرآن مجید کے اس تصورِ نیکی میں جو اِس آیۂ مبارکہ میں بیان ہورہا ہے.راہبانہ تصورِ نیکی میں نیک لوگ میدان چھوڑ کر اور معاشرہ سے فراریت اختیار کر کے غاروں اور کھوؤں میں یا کہیں گھنے جنگلات میں جا کر تپسیائیں کرتے ہیں.اسلام کا معاملہ یہ ہے کہ وہ لوگوں کو عین معاشرے اور تمدن کے منجدھار میں رکھ کر نیکی کی تلقین کرتا ہے.پھر یہ کہ پسپائی اور فراریت نہیں ہے‘ بلکہ بدی کے ساتھ کشاکش اور پنجہ آزمائی‘ اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کے ساتھ مقابلہ کرنے کا سبق اور تلقین ہے.نیکی کا دنیا میں بول بالا کرنے کے لیے مصائب جھیلنا‘فقروفاقہ برداشت کرنا‘یہاں تک کہ جان کی بازی کھیل جانااسلام کے نزدیک نیکی کی معراج ہے.