وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَنۡ یُّقۡتَلُ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ اَمۡوَاتٌ ؕ بَلۡ اَحۡیَآءٌ وَّ لٰکِنۡ لَّا تَشۡعُرُوۡنَ ﴿۱۵۴﴾
’’جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل ہوجاتے ہیں اُن کو مُردہ نہ کہو‘ بلکہ وہ زندہ ہیں‘ لیکن تم اس کا شعور و ادراک نہیں کر سکتے‘‘.
اور یہ مضمون ختم ہوتا ہے ان الفاظِ مبارکہ پر:
وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیۡنَ ﴿۱۵۵﴾ۙالَّذِیۡنَ اِذَاۤ اَصَابَتۡہُمۡ مُّصِیۡبَۃٌ ۙ قَالُوۡۤا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ ﴿۱۵۶﴾ؕاُولٰٓئِکَ عَلَیۡہِمۡ صَلَوٰتٌ مِّنۡ رَّبِّہِمۡ وَ رَحۡمَۃٌ ۟ وَ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُہۡتَدُوۡنَ ﴿۱۵۷﴾
’’اور(اے نبیؐ !)بشارت دیجیے ان صبر کرنے والوں کو ‘کہ جب ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم اللہ ہی کے ہیں اور اسی کی جانب ہمیں لوٹ جانا ہے.یہی ہیں وہ لوگ جن پر اُن کے رب کی عنایتیں اور رحمتیں ہیں ‘اور یہی ہیں ہدایت یافتہ و بامراد!‘‘
علامہ اقبال کا ایک شعر ہے کہ : ؎
محبت مجھے اُن جوانوں سے ہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند!
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند!
میرا خیال ہے کہ علامہ اقبال نے یہ انداز قرآن حکیم کی اس آیت سے اخذ کیا ہے جو سورۃ الصف میں آئی ہے:
اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیۡنَ یُقَاتِلُوۡنَ فِیۡ سَبِیۡلِہٖ صَفًّا کَاَنَّہُمۡ بُنۡیَانٌ مَّرۡصُوۡصٌ ﴿۴﴾
’’یقینا اللہ کو محبت اُن سے ہے (اللہ کے محبوب بندے وہ ہیں) جو اُس کی راہ میں جنگ کرتے ہیں صفیں باند ھ کر گویا کہ سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں‘‘.
وَ الصّٰبِرِیۡنَ فِی الۡبَاۡسَآءِ وَ الضَّرَّآءِ وَ حِیۡنَ الۡبَاۡسِ ؕ میں ضمناً وہ بات بھی سامنے آگئی جو اس آیۂ بِر کے درس کے آغاز میں بیان کی گئی تھی کہ اس آیۂ مبارکہ میں اگرچہ تواصی بالحق کا لفظاً ذکر نہیں ہے لیکن طبعاً ذکر موجود ہے اور یہ بات خودبخود سامنے آ رہی ہے.لیکن وہ لوگ جن کے اذہان و قلوب میں ایمان کی روشنی ہے‘جو خادمِ خلق ہیں‘جن کی کیفیت یہ ہے کہ: ؎
خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے
شہادت ہے مطلوب و مقصودِ مؤمن
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی!
نہ مالِ غنیمت نہ کشور کشائی!