اس ترجمہ سے جو باتیں بادنیٰ تأمل سامنے آتی ہیں اور خاص طور پر اس منتخب نصاب کے اسباق کی ترتیب میں جن بنیادی امور کے پیش نظر اسے درسِ سوم کی حیثیت دی گئی ہے‘ مناسب ہے کہ سب سے پہلے انہیں سمجھنے کی کوشش کی جائے. اس طرح ہم اِن شاء اللہ اِن آیات کے اصل سبق اور اُن کے لبِّ لباب کا جائزہ لے لیں گے.
ترجمہ سے آپ نے محسوس کر لیا ہو گا کہ اِن آیات میں بھی وہی چار باتیں ایک نئے اسلوب اور ترتیب سے بیان ہو رہی ہیں جو اِس سے پہلے سورۃ العصر اور آیۂ بِر میں آ چکی ہیں. اس لیے کہ اصل ہدایت اور صراطِ مستقیم تو ایک ہی ہے اور اس کے سنگ ہائے میل تو وہی ہیں. فرق بقول شاعر صرف یہ ہے کہ ؏ ’’اِک پھول کا مضموں ہو تو سو رنگ سے باندھوں‘‘.گویا مختلف اسالیب اور متنوع انداز سے ’’راہِ ہدایت‘‘ کو واضح کرنا ہی قرآن کا اصل مقصد ہے. البتہ یہ ضرور ہے کہ ہر جگہ وہ بنیادی مضامین نہ صرف ایک نئے رنگ کے ساتھ آئے ہیں‘ بلکہ موضوع اور سیاق و سباق بھی بدلا ہوا ہے اور بحث بھی نئی ہے.