ہم نے دیکھا تھا کہ سورۃ العصر اور آیۂ بِر میں ایمان کے بعد اعمالِ صالحہ کا ذکر ہے. یہاں ان کے ضمن میں سب سے پہلی چیز جو سامنے آئی ہے وہ ادائے حقوق ہے اور اُن میں بھی اوّلین ذکر والدین کے حقوق کا ہے. قرآن حکیم میں آپ کو کئی مقامات پر یہ اسلوب ملے گا کہ ادائے حقوق کے معاملے میں جہاں اللہ تعالیٰ کے اِس حق کا تذکرہ ہو گا کہ صرف اور صرف اُس کی عبادت کی جائے‘ شرک سے کلی اجتناب اور توحید کے کامل التزام کے ساتھ‘ وہاں اللہ کے اِس حق کے فوراً بعد والدین کے حقوق کا بیان ہو گا. جیسے یہاں ہم نے دیکھا کہ حضرت لقمان کی اپنے بیٹے کو اجتنابِ شرک اور التزامِ توحید کی نصیحت کے ذکر کے بعد اللہ تعالیٰ کی طرف سے فرمایا جا رہا ہے کہ: 

وَ وَصَّیۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ ۚ (آیت ۱۴
’’اور ہم نے انسان کو نصیحت کی اس کے والدین کے بارے میں…‘‘

اسی طرح سورۃ البقرۃ میں فرمایا: 

وَ اِذۡ اَخَذۡنَا مِیۡثَاقَ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ لَا تَعۡبُدُوۡنَ اِلَّا اللّٰہَ ۟ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا………… (آیت ۸۳
’’اور یاد کرو جب ہم نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرنا اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کرنا.‘‘
اسی طرح سورۃ الانعام میں فرمایا: 

قُلۡ تَعَالَوۡا اَتۡلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمۡ عَلَیۡکُمۡ اَلَّا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا ۚ (آیت ۱۵۱
’’(اے نبیؐ ! ان سے )کہہ دیجیے کہ آؤ میں تمہیں سناؤں کہ تمہارے ربّ نے تم پر کیا پابندیاں عائد کی ہیں! یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو.‘‘
سورۂ بنی اسرائیل میں فرمایا: 

وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاہُ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا ؕ (آیت ۲۳
’’اور تیرے ربّ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم لوگ کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اُس کی اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو.‘‘